محترم ایڈیٹر صاحب۔
ماہتاک ” سنگت” کا اگست 2021 کا شمارہ موصول ہوا۔ شکریہ۔
خوبصورت سرورق کے ساتھ خوبصورت تحاریر پڑھنے کو ملی ہیں۔
” عوام با شعور اور وفا دار ہوتے ہیں ” غالبا اسے اداریہ ہی کہنا چاہئے لیکن اس میں جو کچھ رقم ہے اسے پڑھ کر عثمان خان کاکڑ کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔یہ مضمون اس امر کی دلیل ہے کہ ایک اچھے رہنما کی جڑیں عوام میں ہی میں ہوتی ہیں۔
” آل راونڈر تبصرہ نگار ” کے حوالے سے عرض یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھے بقراط نہ صرف اپنی نوکری پکی کرنے میں مصروف ہوتے ہیں بلکہ چینل کی پالیسی کو بھی بڑھاوا دے رہے ہوتے ہیں۔ جنگ بہر حال کسی مسئلے کا حل نہیں، بات چیت ہی کرنا پڑتی ے۔
جام درک والا مضمون بہت مختصر سا لگا۔ ایسے بڑے شاعر کے لیے زیادہ صفحات مختص ہونا چاہیے تھے۔ بدقسمتی سے بلوچی زبان سے نا بلد ہوں لیکن ترجمے نے مزہ دیا۔
عبد القادر رند کے پروفیسر عزیز بگٹی والے مضمون میں پروفیسر صاحب کے بارے میں کم اور نواب اکبر بگٹی کے بارے میں زیادہ ذکر نظر آیا۔ وہ جو کوئی بھی تھا، تھا تو ایک نواب ہی اور نواب رعایا کو اپنے مفاد کے مطابق قریب یا دور رکھتے ہیں۔
” سمو۔۔ محبت سے پہلے ” سمی، سمو، یہ نام پنجاب میں بھی بہت مشہور ہے خصوصا پنجاب کے لوک گیت سمی دا ڈھولا سے تو سب آشنا ہیں لیکن آپ نے انیس ویں صدی کے اس کردار کو جس طرح سے بیان کیا ہے یہ ایک دلچسپ اساطیری داستان بن گئی ہے۔
شان گل کا مضمون ” پہلی عالمی سامراجی جنگ اور لینن” بہت عمدہ تحریر ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ اسے عالمی جنگ کے نام سے پکارتے ہیں حالانکہ یہ پرولتاریہ کے خلاف بورژواری اشرافیہ کی جنگ تھی اور اسے ” سامراجی ” جنگ ہی کہنا درست ہے۔ بہت معلومات افزا مضمون ہے تاریخ کے طالب علموں کے لیے خاص طور پر۔
” نکتی چیں راہب ” ایک عمدہ انتخاب ہے۔۔۔۔ ” انگریز کے خلاف بلوچ مسلح جدو جہد ” ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے لیکن دوسرے صوبوں کے لوگ اور خاص طور پر نوجوان نسل کو تو اس کی آگاہی ہی نہیں۔ تاریخ کے ایسے باب ہر شمارے میں شامل کیجئے۔ ” سنگت” کے بارے میں رپورٹ بھی عام رپورٹ نہیں بلکہ اس میں بھی تاریخی حوالے موجود ہیں جو پڑھنے میں اچھے لگے۔
” ڈاکٹر عباس شناسی ” والے مضمون میں براہمانی اور برمانی نے خاصہ مغالطہ ڈالا۔ ڈاکٹر صاحب کو شناخت کرنے والے برکت علی بھی براہمانی ہیں اور ڈاکٹر عباس بھی لیکن ایک آدھ جگہ انہیں برمانی بھی لکھا گیا ہے۔ تحقیق میں اس قسم کی ٹائپ کی غلطیاں بھی گڑ بڑ کر دیتی ہیں۔با لکل ایسے ہی جیسے عابدہ رحمان کے افسانوی مجموعے ” جو کہا افسانہ تھا” کے بارے میں لکھتے ہوئے ڈاکٹر منیر صاحب نے جو عنوان دیا ہے وہ ” جو پڑھا افسانہ تھا” ہے۔ اب معلوم نہیں کہ درست عنوان کون سا ہے یا ڈاکٹر صاحب نے اپنے تبصرے کا الگ عنوان چنا ہے۔ ” قلب عرب کی روشنی ” محترمہ فہمیدہ ریاض کا یہ مضمون پہلے بھی کہیں پڑھ رکھا ہے لیکن بار دیگر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
محمد طارق علی کا افسانہ ” دو وقت کی روٹی” ہمارے سماجی انحطاط کا آیئنہ ہے۔ بہت سے کاروبار ایسے چل رہے ہیں جن کا ظاہر خوبصورت لیکن باطن دل خراش ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ کسی سوشل انقلاب تک چلتا ہی رہیگا۔
سبین علی، ہمارے دور کی ایک معروف افسانہ نگار ہیں۔ ” کھڑکی ” کے ذریعے انہوں نے ہمیشہ سے مغلوب اور ماں باپ،بھایؤں اور شوہر کی دبو رہنے والی عورت کو دلیر بننے اور پرانی ڈگر سے کنارہ کش ہو کر نئی راہ پر چلنے کی ترغیب کامیابی سے دی ہے۔ کسی حد تک عورت کے مسائل کا یہی حل ہے۔
” با با پیر کی جویئں ” مصباح نوید کا یہ افسانہ اس شمارے کی سب سے عمدہ چیز ہے۔ اس افسانے کے کردار ہمیں اپنے گھروں میں اور آس پاس ملتے ہیں۔ اپنی روزمرہ کی زندگی کو دھکا لگاتے، زندگی گزارتے۔ لیکن محترمہ نے ان عام سے کرداروں کی نفسیات کو ان کے اندر سے نکال کے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس افسانے میں ان کا ایک منفرد اسلوب سامنے آیا ہے اور ڈکشن یعنی افسانے کی زبان میں اتنے کاٹ دار جملے ہیں کہ قاری کو پڑھنے میں سواد آتا ہے۔ انکے افسانوں میں جو تشبیہات، بلکہ انکی خود ساختہ تشبیہات، ہمیشہ نئی سے نئی، ملتی ہیں وہ افسانے کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔
محترمہ سلمی جیلانی کا مایئکرو فکشن میں ” گرمٹیہ” پڑھنے کی چیز ہے۔
جہاں تک پرچے میں شامل شاعری کا تعلق ہے تو بلوچی زبان کے ساتھ اردو ترجمہ ہوتا تو اچھا ہوتا۔ اردو شاعری میں علی زریوف،عطیہ خان، شبنم گل اور میر ساگر کی شاعری عمدہ لگی۔ کشور ناہید کا آئی اے رحمن کو یاد کرنا دل گرفتہ کر گیا۔
مخلص
راشد جاوید احمد
کراچی
07-08-2021
شاہ محمد مری
یہ نظم“دھوپ کرن“ سے بعد کی ہے – آج ایک ڈائری میں کھل کر سامنے آگئی جیسے کہہ رہی ہو کہ‘ میں“سنگت“ کے لیے ہی لکھی گئی ہوں‘! مجھے اس کا کہا سچ لگا – اس لیے آپ کو“سنگت“ کے لیے بھیج رہا ہوں –
“سنگت“ کو 25 وَرش ہوگئے ہ?ں – جس کے لیے ہم سب کو مبارکباد!۔
امداد حسینی