دریا بہتا جائے

اور نہ جانے کس بھاشا میں

کیا کیا نغمے گاتا جائے!۔

 

ڈھور اور پنچھی

انسان اور حیوان درخت اور کھیت

ہر پیاسے کی پیاس بجھاتا جائے

 

صبح نہ دیکھے رات نہ دیکھے

دین دھرم اور ذات نہ دیکھے

جنس نہ جانے نام نہ پوچھے

کانٹا بن کر جو چبھ جائے

ایسی کوئی بات نہ پوچھے

لہر لہر لہراتا جائے

چٹانوں سے ٹکراتا جائے

دریا بہتا جائے

 

دریا بہتا جائے

سیکھ یہی سکھلاتا جائے

جو رستے میں رک جاتا ہے

وہ بس پتھر کہلاتا ہے

اور جو آگے بڑھ جاتا ہے

وہ منزل کو پالیتا ہے

دریا سے ساگر بن جاتا ہے

دریا بہتا جائے

اور نہ جانے کس بھاشا میں

کیا کیا نغمے گاتا جائے

 

میری مانو اور من جاؤ

پتھر نہ بنو – دریا بن جاؤ!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے