گرم ہواکی تابناکی سے

غازہ ِگلال میرے درخشندہ چہرے سے

ہوامیں تحلیل ہوجاتاہے۔

ان حسرتوں کاتخمینہ

لہب نمالوگ کسی صورت بھی بھگت نہیں سکتے

جوشِیرخواردل میں بس جاتی ہیں۔

اکھڑلہجے اکثروبیشتر

جستجوؤں کی رودادکی شہہ رگ پہ چاقوچلاتے ہیں۔

نچڑتے خون سے سلیقہ ِگفتگوکا

پاس نہیں رکھاجاتا،

امیدکادامن میری انگلی کو

اپنے باتھ سے چھوڑدیتاہے۔

خاکستری بدن مضحمل ہوتے ہوئے،

موم کی مانندپگھلتاجاتاہے۔

جس کااندراج

ہم تابناکی کے کسی بھی

مسودے میں نہیں لکھ سکتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے