اپنے اپنے ضمیر کی آواز

کون سنتا ہے ضمیر کی آواز

 

کون سنتا ہے آہ مسکین کی

سُنتے سب ہیں امیر کی آواز

 

کوئی آواز قید ہے شاید

وہ سنو تو اسیر کی آواز

 

ہر طرف نفرتیں ہی پلتی ہیں

دو دلوں میں لکیر کی آواز

 

انقلابیوں کا گیت ہوتا ہے

ایک قیدی زنجیر کی آواز

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے