بلوچستان سنڈے پارٹی کی نشست اتوار 5 ستمبر کو پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں ہوئی۔ نشست کے آغاز میں بلوچستان کے بزرگ رہنما سردار عطا اللہ مینگل اور بلوچستان کے ممتاز اور عوام دوست فزیشن  ڈاکٹر محبوب کے لیے دعا مغفرت کی گئی اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔

ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہا کہ ڈاکٹر محبوب  نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت میں گزار دی۔ وہ عوام کے لیے ہر دل عزیز تھے۔  عطا اللہ مینگل  رزسٹنس کی علامت تھے۔

ہماری قدآوار شخصیات کے جانے سے سماج میں ایک خلاپیدا ہو رہا ہے لیکن ہمیں آنے والے دنوں میں ان لوگوں کا ریپلیس منٹ دکھائی نہیں دے رہا۔ اور اس خلا کا ہونا اور نئے کیڈر کا میدان میں نہ آنا  باعث تشویش ہے۔

وحید زہیر  نے کہا کہ جہاں حالات خراب ہوں وہاں عظیم لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک شخص کے جانے کے بعد اس سے قابل لوگ آ جاتے ہیں لیکن  یہاں حالات زوال پذیری کی جانب گامزن ہیں۔ ہر لحاظ سے زوال پذیر ی ہے۔

ڈاکٹرعطاللہ بزنجو کے مطابق لیڈر شپ کا فقدان نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں ہے۔ وہ سکول آف تھاٹ جو نیپ کے دور میں ہوتی تھی وہ اب دکھائی نہیں دیتا۔ تعلیمی اداروں میں یونینز پر پابندی ہے تو پھر لیڈر کہاں سے بنیں گے۔چنانچہ جہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا جاتا وہا ں کیڈرز پیدا کرنا اور مشکل۔

نجیب سائر نے کہا کہ  سماج میں ایک قسم کی مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ اس خوف کی وجہ سے اس سوچ کو پنپنے کا موقع نہیں مل پا رہا۔تاہم جو خلا آرہا ہے وہ ایک تشویش ناک منظر ہے جو مستقبل قریب میں مزید گہرا ہوتا جائے گا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ریڈنگ کلچر کا نہ ہونا ہے۔ اخبار اور کتاب کلچر کو اگر فروغ دیا جائے۔

کلثوم بلوچ کے مطابق طلباسیاست میں جو خلا پیدا ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار سٹوڈنٹ لیڈر خود بھی ہیں وہ خود ایک پراڈکٹو سیاست نہیں کر نا چاہ رہے ہیں۔ نہیں تو طلبا کی ایک بڑی تعدا آج بھی سیاست میں اور سیاسی سرکلوں میں آنے کے لیے تیار ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ہزار مشکلات کے باوجود لیڈرز پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پروفیسر جاوید اختر کے مطابق شخصیات ماحول کے اندر بنتی ہیں۔ ماحول شخصیات کو نکھارنے اور آگے لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ارتقائی عمل میں شاید صدیاں لگ سکتی ہے اور ہم بالکل مایوس نہیں ہیں۔

غلام مرتضی بلوچ کا کہنا تھا کہ کالجز کے اندر طلبا سے حلفیہ بیان لیا جاتا ہے کہ آپ سیاست میں حصہ نہیں لیں گے تو ایسے ماحول میں سیاسی کلچر کو کیسے پروان چڑھایا جا سکتا ہے؟ غیرنصابی کتابیں پڑھنے کا رجحان بھی تعلیمی اداروں میں بہت کم ہے۔

شرکاء کے مطابق یہاں دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہوا ہے ایک (ڈاکٹر)محبوب صاحب  کا تذکرہ اور دوسرا سیاست دان محترم عطاء اللہ مینگل کی بات ہوئی ۔

اول الزکرکی تو اداروں   میں تربیت ہوتی ہے۔ یعنی ڈاکٹر محبوب علی ایک پروفیشنل ڈاکٹر تھے۔ وہ میڈیکل شعبہ کے تعلیمی اداروں میں ایک معین مدت  تک ایک نصاب

پڑھ کر متعین امتحانات پاس کرتے ہوئے ایک ڈگری یافتہ سپیشلسٹ(ڈاکٹر) بنے۔

مگر  سیاسی آدمیوں کی تربیت جلسوں، جلوسوں جیلوں وغیرہ، یعنی عوام میں ہوتی ہے۔اس کی سپیشلٹی  کے لیے کوئی ڈیوریشن یا ڈگری نہیں ہوتی۔

محترم عطا اللہ مینگل کے انتقال سے بلاشبہ بہت بڑا  خلا پیدا ہوا ہے۔  سردار اور سیاستدان کے بطور اب اس  خلا کو پر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماج اپنے تمام تر اداروں کے ساتھ سرقبیلوی نظام سے اگلے مرحلے میں   داخل ہو چکاہے۔لہذا اب ایک نیا سردار عوامی سیاستدان بن کر اس خلا کو پر نہیں کرسکتا۔ اب عام عوام سے نئے سماجی حالات سے واقف لوگ ہی اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔اب وہی پولیٹکل اور وژنری لوگ اس خلا کو پر کر  سکتے ہیں جو یہ جانتے ہوں کہ جہاں راستہ بند ہو وہاں سے راستہ کیسے نکالا جاسکتا ہے۔یہی سیاست ہے۔ سردار عطا اللہ مینگل کی دلیری، ان کی  کمٹ منٹ اور ان کی عوام دوستی قابل رشک اوصاف تھے۔بلوچستاں کی سا  لمیت پر اس قدر پختہ عزم قابل صد ستائش ہے۔

آج  اکثر راستے بند ہوچکے ہیں۔ طلباء سیاست بند، روایتی سیاست بند، ٹریڈ یونین بند۔ آج کے ٹیکنالوجیکل دور میں حکمران طبقات کو ہر شخص کی ذاتی زندگی تک کی رسائی دستیاب ہے۔ اسے سیاست کو کنٹرول کرنے کے بے شمار ذرائع حاصل ہیں۔اسی لیے آج کے دور میں ون مین شو ختم ہو چکا ہے۔ آج کا دور آرگنازیشن کا دور ہے۔فوری حالات سے نمٹنے کے لیے انتہائی ہوشیاری سے اور بڑٰی  پھرتی سے داؤ پیچ کرنے ہوں گے۔موجودہ چیلنجز سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ ہر لمحہ کو ذمہ داری سے نبھایا جائے۔اگر وقت ضائع کریں گے تو شاید آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن سماج اس سے بہت مثاثر ہوگا۔ کیونکہ ایک مورچے کی شکست پورے محاذپر اثر انداز ہوگی۔

لوگوں کو سیاسی بنانے اور عوامی اداروں کی تنظیم و مضبوطی واحد راستہ ہیں۔

2۔نجیب سائر نے کہا کہ یہ جو سنگل نیشنل کری کولم ہے اس پر بات کی جائے

احباب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دراصل اٹھارویں ترمیم کو روکنے کی سازش ہے۔ ہمارے عوام نے ون یونٹ توڑنے کی خاطر طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیں۔ قوموں کی خودمختاری کے لیے نیشنلسٹ و ڈیموکریٹک  تنظیموں نے بہت قربانیاں دیں۔ جس کے بعد صوبوں کو چند ایک حقوق مرکز سے منتقل ہوئے۔جن میں ایک محکمہ تعلیم ہے۔ اب ان کا بنایا ہوا نصاب اچھا ہے یا برا اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بس ایک بات کہ یہ کام صوبوں کا ہے۔ اس لیے نصاب میں تبدیلی یا ردوبدل کا حق صوبوں اور ان کی حکومتوں کو ہے۔ہم اپنے حق سے دستبردار ہو کر آپ کو نہیں سونپ سکتے۔

آخر میں بلوچستان سنڈے پارٹی کی تین رکنی آرگنائزنگ کمیٹی منتخب کی گئی جس میں جمیل بزدار، کلثوم بلوچ اور شاہد علی کو   منتخب  کیا گیا۔

باہر اسٹال پر کتابیں بھی رکھی گئیں جہاں سے طلباء نے کتابیں خریدیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے