مدتوں بعد کھلی مجھ پہ حقیقت کیسی

دل پہ اتری مرے درد کی آیت کیسی

 

آج کیوں تیشہ حسرت نے تراشا ہے جنوں

آج آنکھوں میں اُتر آئی ہے وحشت کیسی

 

فی زمانہ نہ کرو ہم سے رفاقت کا سوال

جب مفادات الگ ہوں تو رفاقت کیسی

 

کون اب اس کا خسارے میں خریدار بنے

سرکا سودا ہو تو دستار کی قیمت کیسی

 

آیتِ حسن میں تحریفِ مسلسل کے سبب

مسلکِ عشق پہ ٹوٹی ہے قیامت کیسی

 

دل کے سودے میں اگر عشق خریدار نہ ہو

حسن بازار میں بک جائے تو حیرت کیسی

 

ضبط کی حد سے بڑھے جاتے ہیں آنسو کیونکر

آنکھ میں پھوٹ پڑی ہے یہ بَغاوت کیسی

 

رونق بزم سے کترانے لگا ہے اب وہ

پڑگئی دل کو یہ تنہائی کی عادت کیسی

 

عشق حیراں ہے کہ اب اُس کی پذیرائی کو

حُسن کرتا ہے سرِ عام حمایت کیسی

 

ہر قدم آبلہ پائی کے سوا کچھ نہ مِلا

زندگی دی ہے مجھے تُو نے اذیت کیسی

 

بال آجائے اگر عکسِ تمنا میں شکیل

آئینہ ٹوٹ کے کرتا ہے شکایت کیسی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے