ٹرانسلیشن کسی بھی زبان کے لئے تازہ خون کی مانند ہوتا ہے۔ ٹرانسلیشن  اور ٹرانسلیٹر کے بغیر انسانی زندگی کا تصور تک نا ممکن ہے۔یہ تو شُکر ہے کہ دوسری زبانوں کی بہت سی چیزیں بلوچی میں ٹرانسلیٹ ہوچکی ہیں۔ مگر بلوچی کی تخلیقات، بالخصوص بلوچی کلاسیک کا ٹرانسلیشن کم کرکے ہم اپنی نسلوں کے قرضدار بن چکے ہیں۔

ٹرنسلیشن کے کام میں آج تو بہت سے لوگ گنے جاسکتے ہیں مگر اس کی شروعات انگریز سامراج کی غلامی کے دور کے بلوچ دانشور کرچکے تھے۔ مولانا حضور بخش جتوئی نے بلوچی نظم و نثر میں اسلامی مذہبی تعلیمات کو ٹرانسلیٹ کیا تھا۔ البتہ سیاسی و ادبی ٹرانسلیشنز کی ابتدا میر محمد حسین عنقا کے زرخیز قلم نے کی تھی۔ اُس نے اپنی کئی نظموں کے نثری اردو ٹرانسلیشن کے ساتھ ساتھ منظوم ٹرانسلیشن بھی کیے تھے۔ شیخ سعدی کا گلستان بھی بلوچی زبان میں عنقا صاحب ہی نے ڈھالا تھا۔پیر محمد زبیرانی نے شیخ سعدی کی کتاب ”پنج کتاب“ کو فارسی سے بلوچی میں ڈھال دیا۔

جناب سردار خان گشکوری بلوچوں میں چوٹی کا محقق تو تھا ہی مگر ٹرانسلیٹر کی حیثیت سے بھی اس کا مقام بہت اونچا ہے۔ اس نے تقریباًساری بلوچ کلاسیکل شاعری کو انگریزی میں ڈھال دیا۔ اور ایسا ٹرانسلیشن جو آپ کو اصل شاعری جتنا پر لطف لگے گا۔ لگتا ہے شیکسپیئر بول رہا ہو۔

میر گل خان نصیر نے بلوچی رزمیہ شاعری اور پھر بلوچی عشقیہ شاعری نامی کتابوں میں نہ صرف بلوچی اورل پوئٹری کو جمع کیا بلکہ ان کا اردو ٹرانسلیشن بھی کیا۔ اُس کی کتاب ”بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی“ کے اندر بھی بلوچ شعراء کے کلام کا اردو ٹرانسلیشن ساتھ موجود ہے۔ اُس کی کتاب”شنبلاک“اور ”ھون ئے گوانک“میں اُس کی اپنی بلوچی شاعری ٹرانسلیشن کے ساتھ موجود تھی۔

”تاریخ خوانین قلات“  ازخوند محمد صدیق کوگل خان ہی ٹرانسلیٹ کرکے دنیا کے سامنے لایا۔

بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار، میر گل خان نصیر کی ٹرانسلیٹ کردہ کتاب ہے۔یہ اُن جنگی بیانیوں پر مشتمل کتاب ہے جو انگریز نے بلوچوں سے لڑائی کے رپورتاژ کی حیثیت سے لکھی ہیں۔ یہ کتاب بد نام زمانہ انگریز چالباز افسر جنرل ڈائر کی1916 میں لکھی کتاب ہے جس کا انگریزی نام ہے ”رے ڈَرز آف دی سرحد“۔

”سینائی گیچکا“فیض احمد فیض کی کتاب ”سروادیِ سینا“ کا بلوچی منظوم ٹرانسلیشن ہے جو میر گل خان نصیرنے مچ و حیدر آبادجیلوں میں کیا۔ فیض و نصیر کی بھی دلچسپ جوڑی تھی۔دونوں  ایک ہی فکر کے مالک تھے۔ فیض گل خان کی شاعری کا دلدادہ تھا اور گل خان فیض کی شاعری کو پسند کرتا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی منتخب شاعری کو ٹرانسلیٹ کیا۔

”شاہ لطیف گشیث“کے عنوان سے میر گل خان نصیر نے شاہ لطیف کی شاعری کے اُس حصے کا منظوم بلوچی ٹرانسلیشن کیاجو بلوچوں سے متعلق ہے۔

ایک اور کتاب کامل القادری کی ہے، گائے جا بلوچستان‘ وہ بھی ٹرانسلیشنز ہیں۔

میر مٹھا خان مری نے مست کے کلام کا جُزوی ٹرانسلیشن کرنے کے ساتھ ساتھ بشیر بلوچ کی جمع کردہ جام کی شاعری کی کتاب درچین کا نثری ٹرانسلیشن بھی کیا تھا۔

انجم قزلباش نے آزات جمالدینی کی شاعری کو اردو میں ڈھالا۔

عطا شاد اور عین سلام نے بلوچی عوامی گیتوں کا اردو ٹرانسلیشن ”درین“ کے نام سے شائع کیا۔للّہ و گراناز، کا منظوم اردو ٹرانسلیشن بھی عطا نے کیاہے۔

محترم عبدالرحمن پہلوال نے تو بلوچی ادب کو ٹرانسلیشنز سے مالا مال کردیا۔ انہوں نے بلوچی شاعری کا پشتو اور فارسی میں ٹرانسلیشن کیا۔ نیز بلوچی ادب و تاریخ پہ لکھی عالمی زبانوں سے ایک بڑے علمی خزانے کا پشتو اور فارسی میں ٹرانسلیشن کیا۔ گل خان کی شاعری کی کتاب”داستانِ دوستیں و شیریں“ کا منظوم پشتو ٹرانسلیشن کیا۔ ا

اکبر بارکزئی نے سندھی سے بلوچی میں ٹرانسلیشنز کیے۔ بالخصوص ایاز قادری کے ایک افسانے کا ٹرانسلیشن ”بیلک دادا“ کے نام سے ماہنامہ بلوچی کراچی میں شائع کرایا۔ اس نے ”دھرم ویر بھارتی“ سے بھی”انسانہ گوشت“ کے نام سے بلوچی میں ٹرانسلیشن کرکے چھاپ دیا۔

غوث بخش صابر نے سید ہاشمی کے بلوچی ناول ”نازک“کا اردو ٹرانسلیشن کیا، جنگ ِگنبد کی شاعری کو بھی اردو کی صورت صابر ہی نے دی۔ اس نے گل خان کے دوستین و شیرین کو اردو میں بدل دیا۔بلوچی عوامی داستانیں بھی اسی کے کارناموں میں شامل ہے۔ توکلی مست پہ مٹھا خان مری کی کتاب کا ٹرانسلیشن بھی ا سی کا ہے۔ غوث بخش صابر نے سپین کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیڈریکو مایور کے کلام کو اردو کی وساطت سے بلوچی میں ٹرانسلیٹ کیا۔ اسی طرح اس نے ملکی اور غیر ملکی زبانوں کے کچھ کہانیوں کو ”ملگزار“ کے نام سے بلوچی میں بدل دیا۔ امرتا پریتم کے ناول ”کورے کاغذ“ کو بھی بلوچی میں ٹرانسلیٹ کیا۔ بلا شبہ غوث بخش صابر بلوچی زبان میں سب سے بڑا ٹرانسلیٹرہے۔ اُس کے ٹرانسلیشنز کی لسٹ بہت طویل ہے۔

عبدالحکیم بلوچ نے عطا شاد کے لئے”شبیہہ شاد“نامی کتاب میں عطا کی کچھ شاعری اردو میں ڈھالی۔

عبدالستار پردلی کے بلوچی ناول ”سوب“ کا اردو ٹرانسلیشن شاہ محمد مری نے ”گندم کی روٹی“ کے نام سے کیا۔ اُسی نے گوہر ملک کی  بلوچی کہانیوں کو جمع کیا اوراردو ٹرانسلیشن کر کے ”بلوچ نے مجھے دھکا دیا“ کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔شاہ محمد مری نے بچوں کے لئے عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی کچھ کہانیاں بھی بلوچی میں ٹرانسلیٹ کی ہیں۔غنی پرواز کے کچھ افسانے بھی اس نے ٹرانسلیٹ کیے۔ کرسٹو فر کا ڈویل کی ”لبرٹی“،کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی لکھی معرکتہ الآرا”کمیونسٹ مینی فیسٹو“، جان ریڈ کی کتاب Ten Days that shook the world، کو ”جہاں جسکیں دہ روش“ کے نام سے بلوچی میں ڈھالا۔ پلیخا نوف کے فلسفیانہ مقالے کو ”تاریخہ لافافرد ہ کرد“ کے نام سے بلوچی میں ٹرانسلیٹ کیا۔”ہژدمی برومیئر“ کے نام سے کارل مارکس کی مشہورِ عالم تصنیف کو بلوچی میں بدل دیا۔اس نے خلیل جبران کی کتابThe Prophet کا بلوچی ٹرانسلیشن کیا۔ میکسم گورکی کے ناول”ماں“ کو بھی اس نے بلوچی میں ڈھال دیا۔ بر یخت کا ڈرامہ ”گیلیلیو“ بلوچی کر کے شائع کی کا رل ما رکس کا ”کپٹل“،لینن کا ”امپیر یو کر ٹسزم“، بلغار یہ کے قو می شا عر وپٹسا روف کی شا عری،اورپرومی تھی ئس کے ٹکڑے بلوچی میں ترجمہ کیے۔

غنی پرواز خود اپنے افسانوں مجموعے (تھوڑا ساپانی) اور دیگرملکی و بین الاقوامی ادیبوں کے ٹرانسلیشنز اردو میں کرتارہتاہے۔

ڈاکٹر فضل خالق نے بین الاقوامی شاعری کا انتخاب کرکے ”گچیں گنج“ نامی کتاب میں ٹرانسلیٹ کردیا۔ اسی طرح یونانی ڈرامہ نگار یوری پیڈیز کے مشہور ڈرامہ”میڈیا“ کا بلوچی میں ٹرانسلیشن کیا۔”جوہان“ بھی بین الاقوامی منتخب شاعری کے بلوچی ٹرانسلیشن کی کتاب ہے۔ڈاکٹر فضل خالق نے شہید اللہ فقیر کی کتاب کو”ناھد ائے جن“ کے نام سے ٹرانسلیٹ کیاہے۔اس نے ابھی حال ہی میں گورکی کا ناول ”ماث“ بھی بلوچی کردیاہے۔ عبد ابصوربلوچ نے ”آتا ر“ کے نام سے ملکی اور بین الاقوامی انسانوں کو بلوچی کے قالب میں ڈھالاہے۔

ڈاکٹر بیزن بلوچ اور غوث بہار نے اس میدان میں بھی اپنی کاوشیں ڈالیں۔ ڈاکٹر بیزن صبا نے عالمی ادب سے چُن کر اچھے افسانے بلوچی میں بدل دیے۔

Shooting Star کے نام سے ڈاکٹر نعمت گچکی نے کچھ منتخب بلوچی افسانوں کو انگریزی میں ٹرانسلیٹکر کے چھاپ دیا۔

اللہ بخش بزدار نے کچھ بہت ہی اچھے منظوم ٹرانسلیشنز کیے ہیں۔ اس نے گل خان نصیر اور آزاد جمالدینی کا کچھ منتخب کلام اردو میں ڈھالا ہے اور فیض صاحب کی چند نظمیں منظوم بلوچی میں بدل دی ہیں۔

منیر احمد بادینی نے عرصہ ہو ا ایک زبردست کام کیا تھا۔ اس نے میخائل شولوخوف کے ناولٹ کو بلوچی میں ٹرانسلیٹ کیا تھا، ”بنی آدم ئے  بخت“کے نام سے۔

زبردست فرانسیسی ناول نگار والٹیر کے ناول کینڈڈ کا بہت اچھابلوچی ٹرانسلیشن جناب عبدالحکیم بلوچ نے کیا۔

ہر من ہیسے کی کتاب ”سید ہارتہ“شائع ہوئی ہے جسے ڈاکٹر بیزن صبا نے ٹرانسلیٹ کیا ہے۔یہ ناول ہر من ہسیے (جرمن) نے 1922 میں لکھا تھا جس میں ہندوستان میں ہندو اور بدھ مذہب کے حوالے سے ناول کا کردار سدہارتہ اپنی شناخت کے لیے سرگردان رہتا ہے۔ …………

کتاب ”ھاریں اُرش“،تحریر امان اللہ جہانبانی کی ہے اور ٹرانسلیٹرچاکرزئی ہے۔یہ کتاب مغربی بلوچستان کی تاریخ کا ایک حصہ ہے جس میں 1928 کے دوران وہاں پر کیے گئے حملہ کی روداد وہ شخص بیان کررہا ہے جو خود حملہ آور لشکروں کی کمان کرتا رہا ہے۔

 

2015 ء کی کتب میں آرٹسٹ ھیمنگوے کا ناول” THE OLD MAN AND THE SEA” کاٹرانسلیشن  ”پیر مرد ئے ساوڑ“ کے نام سے برکھا بلوچ نے کیا ۔

غیر سرکاری اور عوامی تنظیموں میں سے اب سنگت اکیڈمی آف سا ئنسز نے ٹرانسلیشن کو با قا عد ہ ایک مہم کی صورت دی ہے۔ بین الااقوامی ادب میں سے کئی کتا بیں ٹرانسلیٹ ہو رہی ہیں۔ امید  ہے کہ اگلے دو چا ر بر سوں میں بلو چی زبا ن ٹرانسلیشنز کے سلسلے میں اپنی کمی کو پورا کر پائے گی۔سنگت کی طرف سے ابھی تک مندرجہ ذیل کتابیں ٹرانسلیٹ ہوچکی ہیں:

۔1۔جہاں جسکیں دَہ روش(جان رِیڈ)

۔2۔آزادی   (کرسٹوفر کاڈویل)

۔3۔کرنلا کس کاغذ نوشتہ نہ کنت             (مارکوئیز/فدا بلوچ)

۔4۔دز و کچک          (نجیب محفوظ/شرف شاد)

۔5۔ایوان الیچ ئے مرگ (ٹالسٹائی /بیزن بزنجو)

۔6۔انیمل فارم   (جارج آرویل/علی دوست)

۔7۔وارڈ نمبر شش (چیخوف/شرف شاد)

۔8۔بورخیس (قاسم فراز)

۔9۔اوڈیسی (ہومر/فدا  احمد)

۔10۔مرادانی بام   (ٹرگنیف /سرور شاد)

۔11۔مرگ ئے وشی   (کامیو/عبداللہ)

۔12۔کمیونسٹ مینی فیسٹو  (مارکس، اینگلز)

۔13۔کاشذ  (خلیل جبران)

۔14۔مستیں توار  (انجم قزلباش)

۔15۔گیلیلیو (بریخت)

۔16۔بلوچ نے مجھے دھکا دیا (بلوچی سے اردو۔ گوہر ملک/شاہ محمد)

۔17۔تاریخہ تہا نفرئے کرد (پلیخانوف)

۔18۔لوئی بونا پارٹ (کارل مارکس)

۔19۔گلڑو (موپساں /فضل خالق)

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے