مائی رشیداں پورے شہر میں مشہور تھی۔ عورت، مرد، صغیر و کبیر اُدھیڑ بوڑھے، ہندو مسلمان غرض کہ مائی رشیداں کو سب بخوبی جانتے تھے۔ ہر ایک کے پاس شناخت کے اپنے اپنے پیمانے تھے۔ بچوں کے لیے رشیداں تماشہ تھی، تو شادی شدہ عورتوں کے لیے باعث نفرت۔کنواریوں کے لیے اُمید کی کرن اور مردوں کے لیے جنت و جہنم کا سامان۔ رشیداں اوڈ کا نام سنتے ہی عورتیں مسکراہٹ کے بجائے منہ چڑا لیتی تھیں۔ مرد بھی بظاہر رشیداں کا نام لیتے ہوئے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن چھپے ہوئے جہاں میں ہر ایک رشیداں سے بخوبی فیض یاب ہوا کرتا تھا۔ رشیداں کے ہاں کسی کے لیے بھی نفرت نہیں تھی۔ اس کی حویلی کا دروازہ ہمہ وقت رات ہو یا دن ہر کسی کے لیے کھلا رہتا تھا۔ کوئی بھی دروازے پر آئے مجال ہے جو کسی سے ذات پات، مذہب و فرقہ یا جنس کے حوالے سے کوئی سوال کرے۔ جیب میں سو پچاس کے نوٹ والا کوئی فقیر دروازے پر آئے یا پھر پچاس لاکھ والا امیر ترین آدمی۔ استقبال سب کا ہوتا تھا۔ لیکن خدمت کی درجہ بندی پیسوں کی مقدار پہ ہوتی تھی۔ پچاس روپے والے کے لیے مال ایک، اور پھر پچاس لاکھ والے کے لیے مال اور ہوتا تھا۔ نئی نویلی، اُدھیڑ، سانولی، گوری، کنواری، یا استعمال شدہ، دیسی یا ولایتی،یہ فیصلہ جیب میں موجود پیسوں کی مقدار پہ ہوتا تھا۔ مگر آنے جانے کی روک ٹوک کسی کو نہیں تھی۔

مائی رشیداں بظاہر تو قابلِ نفرت تھی۔ لیکن غور کیا جائے تو شہر میں جو چیزیں اپنی جگہ پر محفوظ تھیں، اس کی وجہ سے تھیں۔ کنواریاں محبت میں گفتار ہوکے جب عاشقوں کی بانہوں میں آتی تھیں تو پھر واپسی پہ محبت کی مٹھاس اپنی کوکھ میں لے کر لوٹتی تھیں اور پھر جب مہینے بعد ماہ واری نہ آتی تھی تو پھر اندر کا احوال ماؤں سے ہی کرتی تھیں۔ اور مائیں پھر بدنامی کی خوف سے بچنے کے لیے لوگوں سے چھپ چھپا کر رشیداں کے دروازے پر آتی تھیں۔ اور رشیداں اتنی فراخ دل تھی کہ طعنے دیئے بغیر بدنامی کے طوق سے انہیں بچا لیتی تھی۔

شہر کے شرفاکی شلواریں خلوت کی خواہش میں گیلی ہونے لگتی تھیں تب بھی رشیداں ہی انہیں رنگ برنگی عورتیں پیش کرتی تھی۔ لیکن عورتوں کا انتخاب پیسوں پر ہوتا تھا۔ کہ سستی ہو یا مہنگی۔ نئی ہو یا استعمال شد،خاص ہو یا عام۔

کبھی کبھی شہر کے مذہبی ٹھیکیداروں کو رشیداں دوزخ کا دروازہ محسوس ہوتا تھا۔ تو وہ جمعہ کے خطبے میں رشیداں کو گناہ و شر کی جڑ قرار دے کر کفر کا مہر ثبت کردیتے تھے۔ یا پھر پولیس کے پاس شکایت لے کر پہنچ جاتے تھے۔ لیکن رشیداں پولیس کے ساتھ بھی لین دین کر لیتی تھی اور جمعے کے خطبات  کا موضوع بھی تبدیل کرا دیتی تھی۔ کہیں چمڑی کے ساتھ تو کہیں دمڑی کے ساتھ۔ بظاہر تو سب رشیداں او ڈسے نفرت کرتے تھے۔ لیکن اندر میں سب کو رشیداں کی اہمیت کا احساس تھا۔اس طرح قصہ چلتا رہا۔

کیلنڈروں میں سال بدلتے رہے۔ جوان بوڑھے اور پھر بچے جوان ہوگئے۔ رشیداں کی کوٹھی کے گاہک بدلتے رہے مگر کمائی میں کوئی کمی نہیں آئی۔

رشیداں اوڈ شروع میں علاقے کے زمیندار کے ہاں کھیتی باڑی کرتی تھی۔ مگر 1992کے سیلاب میں زمین اور کھیت ڈوب گئے تو دیہات کو چھوڑ کر شہر کے پاس آکر ایک ٹیلے پر جھونپڑی بنا کر بیٹھ گئی۔

شادی کے تیسرے دن وہ اپنے خاوند کے ساتھ کھیتوں میں آئی تھی۔ اس کا خاوند کھیتی باڑی کے علاوہ اور کوئی ہنر نہیں جانتا تھا۔

رشیداں کو پہلی رات سے ہی دکھ پہنچاکہ خاوند کو زمیندار کی زمین سراب کرنا تو آتا ہے۔ لیکن رشیداں کے دل کی زمین کو کس طرح سیراب کرنا ہے یہ اسے نہیں آتا۔ خاوند کے گھر آئے اسے محض ایک ہفتہ  ہی بمشکل ہوا تھا کہ زمیندار زمین کی طرح حق جتانے کے لیے پہنچ گیا تھا۔

جب خاوند میں وہ جواں مردی اسے نظر نہیں آئی تو وہ بھی چُپ چاپ بحالت مجبوری زمیندار کی جھولی میں گر گئی۔ مگر زمیندار کو خاوند سے بھی زیادہ کمزور پا کر پہلی دفعہ زمیندار کی بیوی پر حسد کرنے کے بجائے اسے رحم اور ترس آنے لگی۔ زمیندار کی بیوی زمیندار کے محل میں محبت کے سارے سامان سجا کر جب ہندورے پر جھولتی تھی تو اس پر سینکڑوں عورتیں حسد کی آگ میں جلتی تھیں۔ مگر اس کے اندر کا ہندورا کتنا چکنا چور تھا یہ زمیندار کے ساتھ مل کر اسے محسوس ہوا۔ وہ زمیندار کی بیوی کو بھی اپنے جیسا مظلوم محسوس کرنے لگی۔ زمیندار کی بیوی کا دکھ بھی اسے اپنا دکھ محسوس ہونے لگا تو اس کے درد کی دوا  کے لیے زمیندار کے ساتھ وہ سب کشتی ملا کھڑے کرنے لگی جو کہ شادی سے قبل وہ اپنے محبوب کے ساتھ کیا کرتی تھی۔ جب بھی میکے جاتی تھی تو وہاں کے حکیم سے طرح طرح کے کشتے لے کر زمیندار کو کھلانے لگی۔ اور جب زمیندار کی بیوی کے چہرے پر حقیقی مسکراہٹ دیکھنے لگی تو اس کا سینہ ٹھنڈا ہونے لگا۔ ابھی جو شہر چھوڑ کر آئی تو اڑوس پڑوس میں بھی وہی حشر نظر آنے لگا۔ کسی کو بھوک میں دیکھا،کسی کو دُکھ میں دیکھا تو ان کے روزی روٹی اور خوشی کا بندوبست کرنے میں لگ گئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جھونپڑی کا گھر بنگلے میں تبدیل ہوگیااور رشیداں مشہور ہوتی گئی۔

اچانک ہی شہر کو جانے کسی کی نظر لگ گئی اور رشیداں یہ شہر چھوڑ کر بڑے شہر چلی گئی۔ رشیداں کے چھوڑ جانے سے بظاہر سب لوگوں نے شکر ادا کیا کہ شہر کو ناپاکی سے نجات مل گئی۔ مگر اندر ہی اندر شہر کے پر سکون ماحول میں ایک بھونچال سا آگیا۔ اور چیزیں اوپر نیچے ہونے لگیں۔

کنواریاں محبوبوں کے ساتھ ملنا چھوڑ کر رشیداں کے واپس آنے کے لیے روزے رکھنے لگیں۔

کھیتی باڑی کرنے والی عورتوں پر یک دم ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ وہ اب زمینداروں کہ زمینوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ زمینداروں کے گناہوں کے بار بھی اٹھانے لگیں۔ شہر کے شاہوکار لوگوں کی آنکھیں پڑوس کی شادی شدہ عورتوں کو ڈھونڈنے لگے۔ اور جوان اپنے کپڑے دھونے کے لیے دھوبیوں کو دینے لگے۔ بظاہر تو سب کچھ ٹھیک تھا۔ مگر دل ہی دل میں ہر کوئی رشیداں اوڈکے واپس آنے کے انتظار میں تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے