در و دیوار سے جالا نہیں جاتا، اماّں

مجھ سے گھر بار سنبھالا نہیں جاتا اماّں

فکر عقبیٰ ہو، کہ دْنیا ہو، کہ ہو فکرِ فراق

روگ کیسا بھی ہو پالا نہیں جاتا، اماّں

یہ جو کچھ اشک مری آنکھوں میں در آئے ہیں

ان کو الفاظ میں ڈھالا نہیں جاتا، اماّں

پاؤں سے ہٹ کے تہہِ دِل میں اْبھر آتا ہے

مندمل ہو کے بھی چھالا نہیں جاتا، اماّں

بحر درکار رہا وْسعتِ غم کو لیکن.!۔

موجِ دریا کو اْچھالا نہیں جاتا، اماں

کیسے نکلے گا اندھیروں سے مرے بخت کا چاند

اس کے اطراف سے ہالا نہیں جاتا، اماّں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے