ارادھنی زیبدہ بروانی کا پہلا ناول ہے۔ 383صفحات پر مشتمل یہ ناولMy Publicationنے شائع کیا ہے۔ قیمت650روپے ہیں۔ کتاب کا انتساب حضرت شمس تبریز کے نام ہے۔

زبیدہ میری بہت عزیز دوست ہے، ہماری دوستی کی بنیاد تصوف کا وہ سنجیدہ رخ ہے جس میں علم و دانش کی راہیں کھلتی ہیں۔ یہ راہیں انسان دوستی کی طرف لے جاتی ہیں،جس کے لیے آفاقیت شرط ہے۔ شاید یہی رویہ ہے جو زبیدہ نے اس بہت سنجیدہ اور زبان و موضوع کے لحاظ سے قدرے مشکل ناول پر بصد اصرار مجھ سے لکھوایا۔ میں سندھی سمجھ لیتی ہوں پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ رفتار سست ہے۔ مطالعے کے لیے اور خصوصاً ناول کے مطالعہ کے لیے ایسی رفتار ہونی چاہئے جو تصورات سے ہم آہنگ ہو۔ اچھے ناول کے کردار اور ماحول قاری کو اس طرح گرفت میں لے لیتے ہیں کہ وہ خود ان کا حصہ بن جاتا ہے اور تصور میں ان کرداروں کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن کے مطالعے کی رفتار تیز نہ ہو، انہیں سست فلمیں اور ڈرامے پسند نہیں آتے۔ خیر یہ بات تو برسبیلِ تذکرہ آئی، مجھے تو یہ کہنا ہے کہ زبیدہ نے اپنے ناول کے بارے میں جو کچھ بتایا اور جن کرداروں کا ذکر کیا، انہوں نے میرے اندر اس ناول کو پڑھنے کا اشتیاق پیدا کیا۔ میں نے زبیدہ سے کہا کہ کاش اس ناول کا ترجمہ ہو جاتا کہ سندھی میں اتنے محدود وقت میں اسے پڑھنا میرے لیے ناممکن ہے۔ زبیدہ نے کہا”اتنی جلدی ترجمہ بھی ممکن نہیں“ مگر مجھے اس ناول کو وقت دینا ہو گا۔ ہم نے یہ حل نکالا کہ زبیدہ جب کراچی آئے تو یہ ناول خود پڑھ کر سنائے۔ زبیدہ نے جس طرح اپنے ناول پر گفتگو کی تھی مجھے اندازہ تھا کہ جب وہ پڑھ کر سنائے گی تو اس کی تحریر کی روح ضرور سامنے آئے گی۔ روح کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ جو کردار اس ناول میں ہیں وہ صرف بدن نہیں ہیں ایسی روحیں بھی ہیں جو ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ زبیدہ نے ماضی بعید کے صوفیا کے ناموں کو استعارے بنا کر حال کے کرداروں میں پیش کیا ہے۔ یہ مشکل کام ہے جگہ جگہ تصوف کے نازک مراحل جنہیں بیان کرتے ہوئے ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں کہیں الفاظ میں اور کہیں اشعار و اقوال میں اس طرح پیش کرنا کہ بے ساختگی متاثر نہ ہوبہت چاہتا ہے،اور شعرا بھی کون؟ شاہ عبد الطیف بھٹائی، مولانا روم، حافظ، اقبال اور کون نہیں ہے۔۔ناول کے آغاز میں منصور حلاج کوبطور کردار اور بطور تمثیل دونوں میں پیش کرنا شاہ جلال، شمس تبریز، ابوبکر شبلی، حامد عباس کو استعارے بنا کر حال کو لکھنا بہت مشکل کام ہے جو زبیدہ کر گزری ہے۔ زبیدہ نے کہا کہ وہ خود حیران ہے کہ اس نے یہ ناول کیسے لکھ لیا!۔۔۔ کیونکہ وہ تو ڈیو یلپمنٹ سیکٹر  میں کام کرنے والی ایک ایسی کارکن ہے جن کا اوڑھنا بچھونا سمندر، اس کے جنگلات اور سمندری حیات رہے ہیں۔ انہیں بچانا، سجانا، سنوارنا اس کی زندگی کا مقصد رہا ہے۔

سمندر کے کنارے ماہی گیروں کی قدیم بستی ابراہیم حیدری میں جاموٹ خاندان میں جنم لینے والی زبیدہ کو اس بات پر حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ قدرت کے اپنے انتظام ہوتے ہیں، اسے جس سے کوئی اہم کام لینا ہوتا ہے وہ راہیں خود بنا لیتی ہے۔ یہ راہیں دشوار تو ہوتی ہیں مگر بڑھتے قدم انہیں ڈھونڈ لیتے ہیں۔ رکاوٹیں دور کرنے کی ساری تدبیریں خود ہو جاتی ہیں۔ وہ علم و دانش جو اس سفر میں حاصل ہوتی ہے وہی تو تحریر کا حصہ بنتی ہے۔ زبیدہ نے بتایا ”میری پیدائش ساحلِ سمندر پر ہوئی، آنکھ کھولی تو سمندر کی وسعتیں دیکھیں،”میں مسلسل سوچتی تھی اتنی وسعت کیا میں اپنے اندر سمو سکتی ہوں“۔ زبیدہ کو یہ سوال مسلسل پریشان رکھتا تھا۔ اس سوال کی گونج اسے بچپن ہی سے مطالعے کی طرف لے گئی، جب بچے کھیل کود میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اس کے والدنے جو خود ہمیشہ مطالعے میں مصروف رہتے تھے، اپنی پانچ سال کی بیٹی کے ہاتھ میں شاہ جو رسالو تھما دیا۔ ظاہر ہے بچی اس وقت پڑھ تو نہیں سکتی تھی۔والد نے اسے شاہ کا کلام زبانی یاد کروانا شروع کیا۔ ابھی یہ شاہ کا کلام یاد کر رہی تھی اور سکول کی تعلیم کے مرحلے میں تھی کہ والد نے ایک اور کتاب دے دی جو منصور حلاج پر تھی۔ زبیدہ کا کہنا ہے کہ اس نے حلاج کو اس وقت پڑھا جب انہیں سمجھنا ممکن نہ تھا، مگر ان کے نام کے ساتھ ایک وابستگی پیدا ہو گئی اور یہ انہیں آئیڈیلائز کرنے لگی۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی رہی زبیدہ منصور حلاج کی شخصیت اور شاہ کی شاعری کے سحر میں مبتلا ہوکر شعرا اور صوفیا کی تعلیم اور ان کی فکر کے حصار میں آتی چلی گئیں۔شمس تبریز وہ شخصیت تھا جس نے منصور حلاج کے بعد اسے متاثر کیا۔ شمس تبریز کے نام کے ساتھ مولانا روم کا مطالعہ تو جڑا ہی ہوا ہے، پھر کون تھا جسے نہیں پڑھا۔فریدالدین عطار سے اقبال تک اس کا مطالعہ اس کی زندگی پر اثر انداز ہوا۔ ایک طرف سمندر کی وسعت، دوسری طرف فکری جہتیں،زبیدہ کے اضطراب نے مسلسل کام اور سفر میں پناہ ڈھونڈ لی۔ اس نے مینگروز یعنی تمر کے جنگلات کو بچانے اور اگانے کا کام اس وقت کیا جب اس میدان میں کوئی عورت نہیں تھی۔اس نے انڈس ڈیلٹا میں 900 ہیکٹر اور بلوچستان کے ساحل پر 100ہیکٹر رقبے پر مینگروز کی افزائش کر کے مینگروز وومن کا لقب حاصل کیا۔

ماحولیات زبیدہ کا موضوع تھا، تعلیم میں بھی اور عملی زندگی میں بھی۔ اس نے اس پر لکھنا شروع کیا۔ ڈان اور دی نیوز جیسے اخبارات میں کالم لکھے،بلاگ لکھے جو ’ہم سب‘ میں پوسٹ ہوئے۔ سمندر، دریا، جھیل، پانی سے اس کی فطری وابستگی سندھ دھرتی اور اس کے باسیوں سے ہم رشتگی نے زبیدہ کو سندھ کی تاریخ بلکہ Cultural Anthropologyکی طرف بھی متوجہ رکھا جس کی جھلکیاں اس کی تحریر میں موجودر ہیں، مگر

کچھ اور چاہئے وسعت میرے بیاں کے لیے

اور ایک دن اس نے ناول ’ارادھنی‘ لکھنا شروع کیا، جس پر وہ خود حیران ہے کہ یہ کیسے ہوا۔ مجھے زبیدہ کے اس کارنامے پر کوئی حیرت نہیں کہ ارادھنی تو خود اس کے اندر موجود تھی اور اس کی فکر میں پرورش پا رہی تھی۔ کسی بھی مصنف کے پہلے ناول میں کہیں کہیں اس کی خود نوشت کا ہونا بہت فطری ہے کہ وہ وہی کچھ لکھتاہے جو اس کا تجربہ، مشاہدہ اور نظریہ ہوتا ہے۔ یہ ناول بھی نظریاتی ناول ہے جس کامرکزی کردار منصور جو وسیع الفکر ہے، وہ اس روشن خیالی کا پرچار کرتا ہے جو انسانیت اورہمہ مذہبیت کی بنیاد پر ہے۔ یہ فکر ابتدا سے موجو درہی ہے، مگر بنیاد پرست ذہن اسے قبول کرنے کے بجائے انسان کو  بانٹتے رہے۔منصورجس کے عشق میں ارادھنی مبتلا ہے، اسے حاصل نہیں کر پاتا کہ اس کے خلاف تنگ نظر عناصرایک محاذ بنا دیتے ہیں۔ ارادھنی اپنے استادشمس جلال کے مشورے پرقونیا چلی جاتی ہے جہاں اسے خبر ملتی ہے کہ منصور پر بلاسفیمی کا الزام لگا کر قید کر دیا گیا ہے۔ ارادھنی واپس آتی ہے اور اس کے دوستوں کے ساتھ مل کرمنصور کو بچانے کی مہم شروع کرتی ہے پر شرپسند منصور کو اس وقت گولی مار دیتے ہیں جب وہ مقدمے کی پیشی پر عدالت آیا ہوتا ہے۔ ناول کا اختتام بہت اثر انگیز اور اہم ہے،منصور کو مکلی  کے قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے جہاں ارادھنی پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اسے منصور کی قبر سے نہیں اس کی فکر سے جڑنا ہے۔ اس فکر کی کئی جہتیں ہیں، مختصراً یہ کہوں گی کہ اس ایک جملے میں بہت اہم پیغام موجود ہے کہ عقیدت کا اظہار، فکر و عمل میں ہونا چایئے قبر پرستی میں نہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے