شوانک (چرواہے) بلوچی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب وہ انسان جو عام طور پر مویشیوں کو چراتا ہے اور انکی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اسکا ذریعہ معاش یہی مویشیاں یعنی بھیڑ،بکریوں پر ہے۔

دنیا کی تاریخ کو اگر سر سری دیکھا جائے تو مختلف علاقوں اور قوموں کی حالتِ زندگی ایک دوسرے سے زیادہ مختلف شاید نہ تھی۔ جب تک دنیا ترقی کے دور سے بہت دور تھا۔ تو سماج میں برابری تھا لوگ ایک جیسے رہ رہے تھے۔کوئی اعلی ادنی نہیں تھا۔سادہ زندگی تھی اور ضرورتیں بہت کم تھیں جو اچھے طریقے سے پوری،ہوتی تھیں۔کسی قسم کی پریشانی نہ تھی سکون تھا امن تھا۔ جب انسان نے ایجادات شروع کیے جدت توخاندانی زندگی پر اثرات پڑنے لگے۔لوگ بجائے اجتماعی کے انفرادی طور پر سوچنے لگئے۔وسائل کم اور ضروتیں  بڑھنے لگیں۔ یوں انسان نے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا شروع کیا۔انسانوں کی جگہ مشینوں نے لے لی۔ زندگی کی راہوں نے ایک اور جانب رخ موڑ لیا۔ تو ہر آدمی  اپنے کل کے بارے میں سوچنے لگا۔ اور سماج یکسر بد ل گیا۔

کوہِ سلیمان کے شوانک (چرواہے)  کی زندگی پر بھی ان بدلتے حالات کے اثرات مرتب  ہوئے۔

حالات وہیں کے وہیں ہیں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ہاں کچھ عرصہ ہواکہ چند ایک لوگوں نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دیا۔ تعلیم حاصل کرنے کی جستجو میں لگے ہیں اور اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں۔عورتوں کی تعلیم علاج اور دوسرے بنیادی سہولیات کیلیے جدوجہد کرنے لگے ہیں، اَب  انھیں بھی ہوش آنے لگا کہ ہمیں تو دنیا کے ساتھ چلنا چاہیے۔

چرواہاصرف ایک جملہ ادا کرتا ہے کہ(اڑے شہرا  مڈی گرانوں یا اَڑزانوں، مالا بہائے استؤ چِینا۔ یعنی شہری زندگی سے اسکا کوئی خاص تعلق نہیں سوائے نرخوں کے اتار چڑھاکے اور مویشیوں کی منڈی میں قیمت کے علاوہ کچھ غرض نہیں!

چرواہاکی بھی کیا زندگی ہے،کیسے کیسے اصول ہیں! سادہ زندگی۔صبح کا وقتی اٹھنا۔ اپنے مویشیوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں پہ لے جانا۔اور پھر شام کو اپنے مویشیوں کے میٹھی گھنٹیوں کی آوازوں کے ساتھ گھر لوٹ آتا ہے۔

مویشی میں سے اگر ایک آدھ گھر نہ لوٹا ہو تو وہ واپس جا کر اپنے دن گزارے جیذ میں تلاش کرتا ہے، بے تاب ھوتاھے جب نہ ملے تو اپنے ہم پیشہ دوسرے شہوانک سے بذریعہ(گؤانگ) یعنی اونچی  آواز میں نام لیکر اسکو پکارتا ہے اور دریافت کرتا کہ (مئیں سْہر گوشیں میش گاریں تؤ نہ دیثا) میرا وہ سرخ کانوں والا بھیڑ گم ہے آپ نے نہیں دیکھا۔آج وہ گھر نہیں آیا۔

اس نے بھیڑوں کے نام رکھے ہوتے ہیں۔ وہ ان ناموں سے انکو پکارتا ہے۔آواز دیتا ہے۔

صبح پھر اسی اصولِ زندگی کا آغاز کرتاہے

نئی ایجادات نے اس کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ اس نے  موبائل کا استعمال شروع کیا ہے۔ وہ کال پیکجز کے بارے میں سوالات کرتا ہے۔ وہ  مختلف کمپنیوں کے کوڈ یاد کرتا ہے۔ البتہ وہ سوشل میڈیا سے دور ھے۔وہ جیو نیوز نہیں سنتا۔وہ فیس بک  کے جھوٹے دعوؤں کا عادی نہیں۔وہ سوشل میڈیا کے جذباتی شعر و شاعری سے ناواقف ہے۔

اگر آپ کو اتفاق سے کبھی اس کے ساتھ بیٹھنے کا اور گفتگو کرنے کا موقع ملے تو سادہ اور روایتوں میں گم ہے۔اتنی سادہ باتیں کرتا ہے جن پر یہ شہری بابو یقین نہیں کریں گے۔ لیکن اب اس کی زندگی میں  کافی تبدیلیاں آئی ہیں وہ اپنے بہت سے روایات پہ سمجھوتا کر چکا ہے۔ اب وہ دنیا میں ہونے والے تبدیلیوں کو دل ہی دل میں قبول کرنے لگا ہے۔اسے بھی یقین ہونے لگا ہے کہ دنیا میں بہت کچھ باقی ہے جو ابھی تک وہ نہیں جانتاہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چرواہے کا بیٹا کبھی بے روز گار نہیں ہوتا اسکا بچہ جب چلنے کے قابل ہوتا ہے تو باپ(چرواہا) اسکو اپنے ساتھ پہاڑوں پہ ٹریننگ دیتا ہے۔ اور وہ جوان ہوتے ہی اپنے ذریعہ معاش کیلئے ایک الگ ریوڑ کو سنھبالتا ہے۔ اپنے چرواہی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ اور یہی سلسلہ نسل در نسل چلا آرہا ہے۔ یعنی انھیں سرکاری نوکری کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی۔

یہاں ہم نے مرد چرواہے کی زندگی کا ذکر تو کیاہے۔ اب اگر چرواہے سے جڑی عورت کی زندگی پہ چند جملے۔ وہاں عورت آج بھی بِے بس ہے لاچار ہے  وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق آج بھی نہیں رکھتی اسکی شادی کبھی بھی اسکے مرضی سے نہیں ہوتی۔جو بڑوں نے کہا بس اسی کو قبول کرتی ہے۔بات کرنے کا،سوال کرنے کا،مزاحمت کرنے کا آج بھی اسکے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔وہ اندر ہی اندر اپنا سب کچھ سہہ لیتی ہے۔برداشت کرتی ہے۔عورت آج  بھی علاج کی سہولت سے محروم ہے وہ اپنی بیماری کھل کے نہیں بتا سکتی۔وہ دورانِ زچکی  مر جاتی ہے وہ حمل کے دوران مختلف تکلیفیں برداشت کرتی ہے۔ اسکی خوراک  صرف اور صرف دو وقت کی روٹی ہے اْسی پہ انحصار کرتی ہے۔روٹی بھی پیٹ بھر کر قسمت والوں کے نصیب میں ہے۔

وہ صبح سویرے اٹھتی ہے مویشیوں کے چارے کا بندوبست کرتی ہے۔بچوں اور شوہر کے لیے کھانا تیار کرتی ہے پھر مشکیزہ اٹھا کے میلوں دور چشمے یا کچے تالاب سے پانی بھر کے لاتی ہے۔پھر پہاڑ میں جاکر سبزہ کاٹ کر لاتی ھے۔تھکی ہاری عورت جب گھر لوٹتی ھے تو مشکل سے کسی کے منہ سے اس کیلئے دو میٹھے بول نکلتے ہیں۔لیکن کیا کرے روایات میں جکڑی ہے کچھ بول نہیں سکتی سب کچھ ذہن نے پہلے سے قبول کیا ہوتا ہے اس کے لاشعوری میں یہ تمام چیزیں موجود ہوتی ہے۔ شاید اس لیے وہ اپنے بارے میں سوال بہت کم کرتی ہے۔وہ ان تمام باتوں کو اپنی مقدر سمجھتی ھے۔وہ سمجھتی ہے قدرت نے ہم عورتوں کے نصیب میں ازل سے یہ سب کچھ لکھا ہے۔کیونکہ وہ دوسری دنیا سے بہت دور ہے۔ آج باہر کی عورت اپنے بارے میں ہر فیصلے کا اختیار رکھتی ہے۔ وہ اپنی شادی،خوشی،غمی،تعلیم، کاروبار خرید وفروخت کا  قانوناً حق حاصل کر چکی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت کو یہ حقوق دنیا والوں نے یوں نہیں دیے۔ عورت نے جدوجہد کی مشکلات جھیلیں جنگوں میں حصہ لیا اپنے مقدر کی ازل سے تبدیلی کیلئے ہمیشہ سے عملی مزاحمت کی اور آج تک کرتی آہی ہے۔

لیکن افسوس ہمارے کوہِ سلیمان کی عورت ان تمام باتوں سے ناواقف ہے اس کیلئے یہ فلمی باتیں ہیں۔ لیکن یہ سب تعلیم و شعور نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔جہالت ہے، ناخواندگی ہے، رویات کی پاس داری ھے، کہ جی عورت ہماری عزت ہے اسے ہم  تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیسے شہر میں یا گاؤں کے سکول میں بھیجیں وہاں سب اجنبی لوگ ہیں،وہ ماسٹر غیر ہے۔لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہی عورت جب پہاڑوں پہ مویشی چرانے جاتی ہے اکیلی ھوتی ہے۔غیر محفوظ ہوتی، دوسروں کے نظروں میں ہوتی ہے، ہر وقت اسکی عزت خطرے میں ہے۔پھر معاملہ عورت پر ہی آجاتی ہے۔ اْس پر کاروکاری(سیاہ کاری) جیسے،الزامات لگتے ہیں وہ قتل ہوجاتی ہے، علم و شعور کی ضرورت ہے جس کیلئے کوئی اقدام ابھی تک نہیں ہو رہا ہے۔۔

ماضی میں ہماری بلوچی روایات میں عورت کو بہت سے اعلیٰ مقام حاصل تھے جنہیں فراموش کرنا  زیادتی ہوگی۔عورت کے کسی کے گھر میں جانے سے  قتل یعنی خون معاف کیے جاتے ہیں۔ اور ایسی بہت سی روایات اب موجود ہیں لیکن سماج میں لالج اورذات پرستی اس قدر بڑھ گئی کہ روایات پہ عمل کرنا شاہد بہت مشکل ہوگیا ہو لیکن ناممکن نہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اب ہم اس مقام سے بہت دور چلے گئے اب ایک سوچ نے جنم لیا ہے جس مقصد صرف دولت کمانا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے