ترے نور مکمل کے لیے ہر دو جہاں کھونے دیا جائے

مورخ داغ دامن کا مجھے دھونے دیا جائے

نہیں معلوم اس میں مصلحت کیا تھی خداوندا

جو ہوتا ہے اسے تو آج پھر ہونے دیا جائے؟

غبار غم سے پتھرائی ہوئی آنکھوں کو آپھر سے

شکست غم کی خاطر سے بہت رونا دیا جائے

مرے خوابوں کی تعبیریں اسی عقدے میں مضمر ہیں

سرہانے ہاتھ رکھ کے مجھے سونے دیا جائے

یونہی لکھی نوشتوں میں سمندر پیاس تھی تیری

تو پھر پانی کو سر کہ سنج ہی ہونے دیا جائے؟

بہاریں لوٹ لیں ساری سمیٹی فصل گل ساری!۔

سدا  رہتی بہاروں کو بھی اب بونے دیا جائے

مسیح کے خون ناحق سے کسی نے ہاتھ دھوئے ہیں

مورخ تو بتا! ایسا عمل ہونے دیا جائے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے