مرگِ شہرِ دانش کا مرثیہ لکھا جائے
اور کیا ہے لکھنے کو اور کیا لکھا جائے
کچھ بھڑاس تو نکلے دل کی چاہے جو بھی ہو
وہ برا لکھا جائے یا بھلا لکھا جائے
رات ہی سہی لیکن اس کو رات کیوں کہیے
ہر طرف چراغاں ہے رَت جگا لکھا جائے
اپنی اصطلاحوں میں کیجیے ذرا ترمیم
حرف کی کمی ہے کیا کچھ نیا لکھا جائے
اپنے سارے عیبوں کو ڈھانپ کر ہی رکھا جائے
اور لہو کے داغوں کو خوشنما لکھا جائے
سخت سست باتوں سے حوصلہ نہیں ملتا
ہم سے پوچھیے بی بی آج کیا لکھا جائے
جشنِ مرگِ اسرافیل ہم منائیں گے ، پہلے
بے حسی کے عالم کا ماجرا لکھا جائے
جب کتابِ چہرے سے آپ کو نہیں فرصت
خاک ایسی صورت میں کچھ پڑھا لکھا جائے