مے کے سرد سرائے میں دھوپ ملتی ہے
کسی بزرگ کے سائے میں دھوپ ملتی ہے
نہ چھت، نہ چاردیواری کا خرچ آتا ہے
بہت ہی تھوڑے کرائے میں دھوپ ملتی ہے
مرا قصور نہیں ہے مرا نصیب ہے یہ
مجھے ہمیشہ پرائے میں دھوپ ملتی ہے
میں نیکیوں کی ندی پھینکتا ہوں دریا میں
سمندروں سے بقائے میں دھوپ ملتی ہے
گلے کا نم کبھی دریا دعا نہیں کرتا
اسیرِ دشت نوائے میں دھوپ ملتی ہے
بدن کی آگ میں ٹھنڈک تلاش کرنے پر
بجائے چھاؤں اْپائے میں دھوپ ملتی ہے
نماز، لمس، جنوں، زخم سب مآخذ ہیں
سبھی کو اپنے ذرائع میں دھوپ ملتی ہے
کوئی بھی فصل حرارت بغیر پکتی نہیں
مری غزل کو کنائے میں دھوپ ملتی ہے