بلند و بالا سرمئی چھب دکھلاتے پہاڑوں کے دامن میں ، ایک تنگ اور تاریک راستے پر مدقوق بدن اور سیاہ چمکیلی جلد والے انسانوں کا انبوہ کثیر جسے ایک گٹھے ہوئے بدن کا درمیانی عمر کا گائیڈ پہاڑ کی دوسری سمت میں ہانکتا ہوا کوئی کہانی سناتا چلا جا رہا ہے- ان کے قدموں تلے سوکھے پتوں کی چرمراہٹ گائیڈ کی آواز کے ساتھ مل کر عجیب سی کھنکنا ہٹ پیدا کر رہی ہے – یہ اس گہرے سبزی مائل چکنے پتھر کی کہانی ہے جو ان سرمئی پہاڑوں اور پانی کے ملاپ سے پیدا ہوا – ان پہاڑوں پر کبھی کوئی سبزہ نہیں اگتا بس کاہی سے بھی گہرے سیاہی مائل سبز پتھروں کی پرت در پرت جنھیں انگنت صدیوں سے زمین نے اپنی کوکھ میں چھپا رکھا ہے۔ اگر کوئی جوہری انہیں دیکھ لے تو سونے سے بھی مہنگے دام چکا کر خوب صورت گردنوں اور کانوں کی زینت بنانے کو ایسے حسین آ ویزے تراشے جو ان کا حسن ہی نہیں قسمت کو بھی کبھی گہن نہ لگنے دے۔
چھوٹے قد کے پیلی رنگت والے اس گائیڈ کی آنکھوں میں ان پتھروں کے ذکر پر عجیب سی چمک دیکھ کر ان لاتعداد انسانوں میں سے ایک نوجوان اوچو ٹھٹھک سا گیا – اس نے اپنے آس پاس نگاہ دوڑائی تو دور تک انسانی سروں کو سحرزدہ انداز میں ہلتے دیکھ کر فکر سے گردن جھکا لی – وہ سب کے سب چابی بھرے ہوئے گڈوں کی طرح گائیڈ کے پیچھے سر ہلاتے چلے جا رہے تھے –
اوچو نے خود کلامی کی ” کیا وہ اکیلا ہی اس طرح سوچ رہا ہے کہ یہ سب کچھ ایک دلفریب جال سے زیادہ کچھ نہیں” –
لیکن گائیڈ کی باتوں پر یقین کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں۔
وہ تو ایسے بد نصیب گروہ تھے جو اپنے گھر ہی نہیں وطن سے بھی دربدر ہوئے ، جنھیں بھیڑ بکریوں کی طرح جہاں چاہے ہانک دیا جائے۔ ان کے پاس سر چھپانے کو چھت ہے نہ مٹھی بھر زمین ، ایسے میں اگر کوئی چند لمحے کو ہی سہی ، سکھ بھری زندگی کے خواب دکھائے بھی تو کیا برا ہے۔ لیکن اسے معلوم تھا کہ اس انگار وادی کے باہر سچ مچ ایک ایسی دنیا آباد ہے جہاں ان کی جاں گسل محنت کے عوض پہاڑوں کی تہوں کو کھرچ کر نکالے گئے گہرے سبز کا ہی اور دودھیا رنگوں کے پتھر قیمتی تحائف کی شکل میں پیش کئے جاتے ہیں۔ زمین کے چھپائے گئے یہ صدیوں پرانے راز اعلی ترین نسلوں کی خوش بختی کے ضامن بن کر سنگھا سن پر سجائے جاتے ہیں۔لیکن وہ جو گدلے پانی کی سیاہ گہرائی میں ننگے بدن اترتے ہیں – پہاڑوں کی تہوں کو کھرچنے میں ہاتھ ہی نہیں اپنی زندگی بھی گنواتے ہیں۔ ان کے لئے یہ بے قیمت پتھر ہی رہتے ہیں – کوئی خوش بختی کیوں نہیں لاتے؟ یہ اور ان جیسے کئی دوسرے سوال کسی جواب کے انتظار کے بغیر ہی سوکھے چرمرائے ہوئے پتوں کی سرسراہٹوں میں گم ہو گئے –
فضاءمیں گائیڈ کی آواز کی گونج سنائی دے رہی تھی جو زمانہ قدیم کاکوئی قصہ سنا رہا تھا – وہ کہہ رہا تھا ” سبز پتھروں کی اس وادی میں کہیں سے بھٹکتا ہوا ایک نوجوان آنکلا جس کا نام ہم بیان فرض کر لیتے ہیں – وہ کئی دن سے بھوکا تھا لیکن جوں ہی اس وادی میں پہنچا اسے عجیب سی توانائی کا احساس ہوا۔ اس نے دیکھا ایک سبزی مائل دودھیا پتھر سے روشنی کی لہریں نکل کر اس کے اندر جذب ہو رہی ہیں اس نے یہ پتھر اٹھا لیا اور اپنے دور کے حکمران کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کیا – بادشاہ اس تحفہ کو اپنی توہین سمجھا – اسے بیان پر اتنا غصہ آیا کہ اس کے دونوں پاو¿ں کٹوا دیئے – اور اس پتھر کو تہ خانے میں پھنکوا دیا جو لڑکھتا ہوا کسی ندی کی گزر گاہ کے قریب جا پڑا – پتھر کی شعاعیں ندی کے پانی میں ملنے لگیں – ندی کا یہ پانی جہاں سے گزرا وہ علاقہ زرخیز ہو گیا -اور وہاں خوب خوشحالی آگئی –
گائیڈ اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا – یک بارگی اس نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا جو صحیح سلامت تھے – ٹھنڈی سانس بھری اور پھر دوبارہ کہانی کا سرا وہیں سے جوڑا – "کئی نسلیں گزر گئیں – بادشاہ کے پڑپوتے کو کسی جوہری نے اس پتھر کی اعلیٰ صفا ت سے آگاہ کیا تو اسے ڈھونڈ کر ایک پلیٹ کی شکل میں ترشوا کر اپنے محل میں سجا لیا "-
اتنا کہہ کر گائیڈ نے اپنے سننے والوں کی طرف دیکھا مگر ان کے چہروں پر پھیلی بے زاری دیکھ کر بقیہ کہانی سنانے کا خیال ملتوی کر دیا اور اپنی زور دار آواز میں پتھروں کی عظمت کے گیت گانے لگا –
اے سبز سنگ سیم !!!
جب تو
میری محبوبہ کی
نرم و نازک انگلیوں میں
نگینہ بن کے چمکتا ہے
میرے دل کے تار
انوکھی راگنی چھیڑ دیتے ہیں
ہوا کی لہروں پر تیرتے نغمے
اس کے کانوں کی اویزوں سے ٹکراتے ہیں
جھومتے ہیں زمیں آسماں
گائیڈ نے یک دم گیت ادھورا چھوڑ دیا اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے – ایسا لگتا تھا جیسے سانپ کینچلی بدل کر اپنی اصل جون میں آگیا ہو – در اصل وہ ایئر پیس لگائے کسی سے فون پر اجنبی زبان میں گفتگو کر رہا تھا جسے صرف اوچو سمجھ سکتا تھا۔
اوچو کے لئے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا البتہ گائیڈ کی قصہ گوئی سے مسحور ہونے والے کان اس کی بدلتی ہوئی کیفیات سے ہراساں کھڑے تھے – جو انہیں ان دیکھے خوابوں کے تعاقب میں کسی انجان راستے کی طرف لے جا رہا تھا -گائیڈ کے بدلتے ہوئے تیور انہیں کسی خطرے کی گھنٹی کی طرح محسوس ہوئے جسے بھانپ کر اس نے ایک نیا گیت چھیڑ دیا – اوچو نے درزیدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو … او نہہ … چالاک شکاری اپنے شکار کو بے خبری کے جال سے آسانی سے نکلنے نہ دے گا –
کہیں قریب سے پانی کا چشمہ پتھروں سے ٹکراتا ہوا بل کھائی ہوئی وادی کی تہہ میں گر رہا تھا – فضاء میں پانی کے گرنے کے ارتعاش سے عجیب سی موسیقی ابھر رہی تھی –
جیسے وائلن کے سر ہوا کی لہروں پر کوئی گیت سنانا چاہتے ہوں – گائیڈ اب باقاعدہ گیت گا رہا ہے
سبز الوہی رنگ سنگ سیم !!
ایک پتھر نہیں
دیوتاو¿ں نے پاکیزگی اور وفاداری کے پانی سے گوندھا
اور خوش نصیب مورت میں ڈھال دیا –
وہ اب بھی
قدیم عجائب گھر میں سجی ہے
اوچو کو گائیڈ کی بے سری راگنی سے الجھن سی ہونے لگی ” شاید وہ جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا تھا – وہ سوچ رہا تھا ” ہوں – اگر یہ گیت ماوی نے اپنی مدھر آواز میں گایا ہوتا تو کوئی بات بھی تھی -اس نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا جیسے ماوی کا خیال اپنے ذہن سے نکال کر پھینک دینا چاہتا ہو- اس کے دل نے پھر سرگوشی کی ” ہونہہ سب جھوٹ ہے — ماوی بھی اس کی وفا بھی اور گائیڈ کی راگنی بھی –
وہ تھک کر ایک پتھر کے کنارے پیٹھ لگا کے سستانے لگا – اور اس وقت کو یاد کرنے لگا جب اس کا باپ ڑاک اور دادی آساں اس کی انگلی تھامے ان خطرناک راستوں کے پیچ و خم سے آگاہ کیا کرتے تھے وہ کچھ دیر کے لئے اپنے آس پاس سے بے خبر ماضی کی وادیوں میں کھو گیا –
دیو قامت ٹرک سے مٹی اور پتھر لڑکائے جا رہے تھے اور سوکھے مارے انسانوں کا جم غفیر ان کی طرف دیوانوں کی طرح لپک رہا تھا – وہ سبز پتھروں کی تلاش میں اپنی بے وقعت زندگی داو¿ پر لگائے ہوئے تھے – اس وقت جس بلند اور سیدھی چڑھائی پر کھڑے تھے ایک ذرا سی غلطی ہزاروں فٹ گہری کھائی میں بہتی ہوئی اس غصیلی ندی میں پھینک سکتی تھی جو ان کی ہڈیوں کو پل بھر میں سرمہ بنانے کو تیار تھی – ستواں جسم والے جانے کہاں کہاں سے ہانک کر اسی کام کے لئے لائے گئے تھے –
ان میں بہت سے تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کس لئے اتنی سخت محنت کرنے پر مجبور کئے گئے تھے – لیکن کچھ جو عرصہ دراز سے اس امید پر دن و رات کسی نشئی کی طرح اس کام میں جتے تھے انہیں معلوم تھا کہ پیٹ میں لگی آگ ہی نہیں نشے کی ہڑک بجھانے کا سستا ذریعہ یہی پتھر ہیں – پہاڑوں کی چکنی سطح کھرچ کر لائے گئے اس ڈھیر کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے چھوٹے بڑے ٹکڑے ان کے ہاتھ زخمی کئے دیتے تھے –
انہی میں کوئی ایک ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اس بدرنگ زندگی کو سنوار کر آبدار موتی سا بنادے مگر ابھی تک تو وہ صرف اپنا پسینہ بہا رہے تھے -اگر ایسا کوئی پتھر انہیں مل بھی جاتا تو سپروائزر چند سکوں کے عوض لے جاتا اور یوں ان کے دن بھر کی مشقت کو بھلانے کا سامان بن جاتا – ان میں سے اکثر پرانے نشئی تھے جو سیدھے بانس اور ترپال سے بنی جھونپڑیوں کا رخ کرتے – سرنجوں میں ناچتی مدہوشی کچھ دیر کے لئے ان کی سسکتی ہوئی زندگی کا غم بھلا کر کسی سلطنت کا شہزادہ بنا دیتی جہاں بس وہ ہوتے اور کیف و سرور کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ –
دھوپ ڈھلنے لگی تھی اور ابھی تک ان میں سے بیشتر اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام تھے – اندھا دھند کھدائی نے پہاڑوں کو زخمی کر دیا تھا اور جیسے زمین سے الگ ہونا شروع کر دیا – اب کیچڑ ندی میں جمع ہوتی جا رہی تھی – دیو پیکر مشینوں کے نوکیلے سرے پہاڑوں کی رگوں میں جوں جوں خراشیں ڈالتے ، پتھروں کے طلب گاروں کے قدموں تلے مٹی پھسلتی جا رہی تھی – بوڑھی آساں جس نے رات ڈھلے پہاڑوں کے غصے کو محسوس کر لیا تھا اپنے بیٹے ڑاک کو کام پر جانے سے روک رہی تھی – مگر وہ اور سب گاو¿ں والے ایک جھکی اور ہر وقت بک بک کرنے والی بڑھیا کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کر گئے –
آساں اب بھی سرمئی پہاڑی کے سرے پر کھڑی دونوں بازو ہوا میں لہراتے ہوئے دریا میں آنے والی طغیانی سے انہیں آگاہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی – اس کی بڑبڑا ہٹ تیز چیخوں میں بدل چکی تھی – پہاڑ کی گہرائی میں بہنے والی چشمہ نما ندی اب بڑی جھیل کا منظر پیش کر رہی تھی جس کی غضبناک لہریں اچھل کر اپنا دائرہ بڑھاتی جا رہی تھیں -لگتا تھا پانی اور پہاڑوں کا گٹھ جوڑ کوئی بڑی تباہی لانے کو تیار ہو گیا ہو –
ابھی وہ اس اچانک بدلتی ہوئی صورتحال کو ٹھیک طرح سمجھ بھی نہیں پائے تھے کہ بہت بڑا مٹی کا تودہ ایک دھماکے سے پہاڑ کی چوٹی سے الگ ہو گیا جو تیزی سے لڑ ھکتے ہوئے پتھروں کے ساتھ مل کر ایک بڑے ریلے میں تبدیل ہو گیا- جو انہیں اپنے نرغے میں لینے کو بڑھتا چلا جا رہا تھا – ان کے قدم اکھڑ چکے تھے – مشینیں اور ٹرک خطرے کو بھانپ کر پہلے ہی وہاں سے رفو چکر ہو چکے تھے – سارا منظر دھول کے دبیز مرغولوں میں دب کر رہ گیا – کچھ گھنٹوں بعد جب طوفان کا زور ڈھلا- وہاں کچھ بھی نہیں تھا – دور تک مٹی اور پتھر کے ملبہ کے ڈھیر تھے – وہ اپنے خواب اور مدقوق جسموں کے ساتھ کیچڑ اور پتھروں کے اس سیلاب میں بہہ گئے تھے –
شام ہوئی تو دریا کے ساحل پر بہہ کر آنے والی لاشوں میں زندگی کی رمق ڈھونڈنے کو کچھ چیتھڑوں جیسی لنگیوں اور بوسیدہ ٹی شرٹس سے اپنے نیم عریاں بدن چھپاتی عورتیں اور سوکھے چرمرائے ہوئے سے بچے روتے بین کرتے ان کے گرد منڈلانے لگے – دس سال کا اوچو اور اس کی بوڑھی دادی آساں بھی سیاہ ہوتی ہوئی شام میں گم ہوتی روشنی کو ڈھونڈنے والے ہجوم میں شامل تھے – مٹی اور پتھروں کے ڈھیر میں معمولی سی حرکت ہوئی جسے آساں پہچان کے تیزی سے اس طرف بڑھی – ڑاک کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے پنجر میں ابھی تھوڑی سی جان باقی تھی – قبل اس کے کہ روح کا پرندہ اڑ جائے آساں ڈھیری سے لپٹ گئی -تب ہی ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے اوچو کے ننھے ہاتھوں میں بالکل غیر محسوس انداز میں کچھ تھما یا – سب اپنے اپنے مردوں کو رو رہے تھے کسی کو ارد گرد کا ہوش نہ تھاکہ اوچو وہاں سے نکل کر کہاں پہنچا – ماں تو پہلے ہی انہیں چھوڑ کر جا چکی تھی – قطرہ قطرہ زندگی جینا اسے پسند نہ تھا وہ سیر ہو کر اسے پینا چاہتی تھی۔ سو زندگی کی تلاش میں بیٹے اور شوہر نام کی زنجیروں کو پیچھے چھوڑ گئی – دادی آسان کے لئے یہ پتھروں سے بھری وادی ایک دیوی کی مانند تھی جس کی پوجا اسے مرتے دم تک کرنی تھی – حالانکہ بیٹے ڑاک کی موت نے اسے ادھ موا کر دیا تھا- پھر بھی پڑوسیوں کے کھانے پینے کا انتظام کرنے میں اپنے کھانے کو چند نوالے مل ہی جاتے – ان حالات میں اوچو کے سکول اور اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کوئی اٹھانے کو تیار نہ تھا – سو رات کی تاریکی جہاں بہت سے نیم مردہ اجالوں کو کھا گئی وہیں اوچو کچی پکی پگڈنڈیوں پر اپنی بقاءکا سفر کرنے نکل کھڑا ہوا –
مگر اس کی کمزور ٹانگوں نے جلد ہی اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا – یوں بھی غربت کی جس گہری دلدل میں وہ پھنسا تھا اسے لگتا تھا جیسے ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو دو قدم پیچھے دھنس جاتے ، ایسے میں اس کی مٹھی میں دبے سنگ سیم کہاں تک ساتھ دیتے – پھر بھی بچپن سے جوانی کا سفر کسی نہ کسی طرح کٹ ہی گیا – زندگی کی خار دار راہوں پر چلتے چلتے وہ پیلی رنگت اور گٹھی ہوئی جسامت والے گائیڈ کے گروپ سے جا ٹکرا یا اور بھوک کی آگ بجھانے کو اپنی جان خطرے میں ڈالنے کو تیار انبوہ کثیر میں شامل ہو گیا – وہ ان کے قدم پر قدم رکھتا سرمئی پہاڑیوں کی سب سے اونچی چوٹی کی طرف بڑھ رہا تھا۔

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے