بلوچستان وہ چوتھا کھونٹ ہے جس طرف جانے کی ممانعت ہے۔دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کے لیے تو شجر ممنوعہ ہے۔بلوچستان سے میری پہلی شناسائی مست تؤکلی کی شاعری پر لکھی گئی شاہ محمد مری کی کتاب "مستیں تؤکلی” کے طفیل ہوئی۔ جیسے دم گھٹنے کی کیفیت میں تنگ تاریک کمرے میں دریچہ وا ہوجائے۔دور تک نگاہوں کے سامنے سمندر کی ابھرتی لہراتی مست لہریں ہوں،جیسے پت جھڑ میں سوکھی ٹھٹھری شاخ سے نکلتی سبز کونپلیں زندگی کا پیام دیں۔جیسے دلبر کا  بوسہ کسی ماہ جبیں کو برسوں کی نیند سے جگا دے۔  یہ شناسائی عام سی شناسائی نہ تھی،مہر سے شناسائی کوئی عام سی بات ہوتی ہے کیا!.

مستیں تؤکلی پر لکھتے ہوئے  شاہ محمد نے اپنا اپ مست تؤکلی میں ضم دیا۔تخلیقیت کے معراج پر دو روحیں ہم آہنگ ہوئیں۔پوری کتاب میں جذب کی کیفیت ہے۔ مست کے کلام  میں ایسی تاثیر برق حسن ہے کہ اس پر لکھی گئی ہر سطر لرزش خفی سے لرزاں ہے۔

تاثیر برق حسن جو اُن کے سخن میں تھی

اک لرزش خفی میرے سارے بدن میں تھی

شاہ محمد مری مست تؤکلی کو محبت کا شاعر قرار دیتا ہے۔بیان محبت کا ہو تو پھر شاہ محمد کا قلم دھمال ڈال دیتا ہے۔دھریس چاپ میں ڈھول کی تھاپ پر بلوچ بے اختیار لیکن ہم آہنگ ہو جاتا ہے،جیسے برستی بارش میں بن میں مور اپنے خوش رنگ پر پھیلائے جوش بہار میں ہوتا ہے۔مست پر مست ہوئے بنا لکھنا ممکن ہی نہیں:

"میں ان بیس پچیس برسوں میں مست پر لکھتے ہوئے ہر لمحہ تڑپا ہوں،جاگا ہوں،ہر لمحہ محظوظ ہوا ہے۔میں اس کتاب کے ہر ہر صفحہ کو لکھتے وقت ڈوبتا رہا ہوں۔دل کا ڈوب جانا جانتے ہیں آپ؟.”(ص13)۔

” چار سو صفحے لکھنے میں،میں کم از کم چار سو بار مرنے کی حد تک مرا”(13)۔

” اضطراب میں اطمینان،تشنگی میں آسودگی بیقراری میں قرار۔۔ایک نشہ ایک خمار۔مست ایک ٹرانس ہے!! مہر کا ٹرانس!”(ص14)۔

مست کی شاعری  میں مہر ایسے ہے جیسے من مندر میں دیے کی جلتی لو ہو۔یہ وہ آگ ہے جو پرومی تھیئس انسانوں کے لیے چرا لایا تھا۔یہ محض آگ نہیں یار کا چو مکھیا دیوا ہے جو ندی کے پار جلتا ہے۔جس دل میں یہ دیوا روشن ہوجائے تو وہ یہ ندی ڈوب کر پار ضرور کرتا ہے۔اس بے کنار ندی کو پار ہی وہ کر سکتے ہیں جو ڈوبنے کا ہنر جانتے ہیں۔وہ باپ تو شاید  نہیں جانتا تھا کہ  اس کے متجسس آنکھوں والے بیٹے  کے دل میں مست تؤکلی کے کلام نے وہ دیا روشن کر دیا ہے جو بجھنے کے لیے نہیں جلا کرتا  اور اس دیے کی لو کو سالوں کی تپسیا  شمعِ فروزاں بنا دے گی۔ماوند میں موسم گرما کی چاندنی میں نہائی راتیں مست کے نغمے گنگناتی تھیں:

۔”” یہ ایک باپ تھا جو اپنے خوش قسمت بچوں کو اس دھرتی کے عظیم فلسفی شاعر "تؤکلی” کا کلام گا گا کر سناتا تھا "(ص7)

مست تؤکلی کی شاعری نے ذہن ودل پر لگے زنگ کو کھرچ کر اتار پھینکا۔ مست تؤکلی کی شاعری میں محبت کا بیانیہ انوکھے رنگ میں نظر آتا ہے۔مست کی محبت افلاطونی ہے نہ سقراطی،یہ محبت کی ایسی کیفیت ہے جس کے دکھ میں بھی سکھ ہے اس کی بیقراری میں قرار ہے۔مست تؤکلی نے بہ وسیلہ محبت ولائیت پائی۔لفظ ولایت سے اسے مابعدالطبیعاتی  رنگ دینا مقصود نہیں،یہ خالص زمینی،دھرتی سے جڑی ہوئی   محبت ہے۔یہ وہ مہر ہے جو سمو کے آہنگ سے کائنات کی ہارمنی میں انسانیت کے راگ کے ساتھ مدغم ہوتی ہے۔مہر کی راگنی نے مست  کے  گوش دل ایسے حساس کر دیے کہ وہ سوکھی تڑختی آب کو ترستی دھرتی کی آہ و بکا سن لیتے ہیں۔

بارغ و تنی ایں سمیناں عرضے کناں

شواگوں مئیں عرضا بندیں ژہ کیچ و مکران

(پتلے اور پیاسے بادلوں سے عرض کرتا ہوں

تم میری درخواست پہ کیچ و مکران سے امڈنا شروع کر دو)

مست تؤکلی کے کلام کی نمایاں خصوصیات کو عنوان دے کر ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک عنوان جسے قابل توجہ نہیں جانا گیا وہ سمو بیلی تھا۔مست اپنے آپ کو سمو بیلی کہواتا تھا۔سمو کو دوست کہتا تھا۔ مست نے مہر پر دوستی کی نہ کھلنے والی مضبوط گانٹھ لگا ئی۔”سمل“ نام کا ورد مست ایسے کرتا  ہے  جیسے کسی نیک کام کے آغاز  میں برکت  کے لیے کوئی مبارک لفظ پڑھا جاتا ہے۔ سمو وہ منتر ہے جس کا الاپ انسانیت کو سر سبز کرتا ہے۔زخمی دلوں کا درماں ہے۔مست کی شاعری کا اسم اعظم سمو ہے۔ مست کی شاعری میں عورت بازی یا تماش بینی نہیں،رکھشا ہے،دلداری ہے۔وہ  دوست کی خاص پہلی ترجیحی  دیکھ بھال چاہتا ہے:

‘ایسی دیکھ بھال جیسے بیٹوں کی کی جاتی ہے

ایسی دیکھ بھال جیسی کہ گھوڑی کے شیر خوار بچوں کی،کی جاتی ہے_

دوست  کی مشکلات،کٹھن زندگی پر شاعر کا دل بے چین ہوتا ہے۔محض سمو ہی  کے لیے  نہیں  وہ سمو کے ارد گرد سارے ماحول کے فلاح کا تمنائی ہے۔یہ وہ جہت ہے جہاں سے مست کی مہر کتھا عام عشقیہ داستانوں سے جدا ہو جاتی ہے۔

دیذ نت و گنداں پہ پڑی آنی جینہراں

نرونت منداں ژہ وثی کہنیں جُوسراں

،(پیاسی ہیں ہرنیاں ،دشوار چٹانوں پہ

آنکھیں گھما گھما کر دیکھتی ہیں

بادلوں کو بوند کی آس میں)

*(اللہ بارش دے سمو کے پالتو بکرے دنبے  پیاسے ہیں۔)

سمو کے ننگے پیروں تلے مست کا دل لہو لہو ہوتا ہے۔

ٹلی مئیں دوست ماں گزدریں بٹیاں

(میری دوست گز نامی درختوں والی ریت پر گھسٹتی ہے)

یہ دو روحوں کی وابستگی ہے۔جیسے فاصلوں  پر  اپنی جگہ قائم قدیم  درختوں کی جڑیں  آپس میں پیوست ہوجاتی ہیں،یہ ایسی  ہی قلبی پیوستگی ہے،جس میں  دوری بے معنی ہوجاتی ہے۔ ہجر بھی  وصال  کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

اس بے مثال مہر نے سارے کلیے سارے فارمولے بدل دیے۔

ہمارے پسماندہ سماج میں جہاں عورت  بااختیار نہیں اس کے گلے میں  مالک کے نام کی  پٹی  گل گھوٹو کی طرح لپٹی ہے۔ اک شے یا کماڈٹی کا سٹیٹس پانے والی   عورت کو  مست دوست کہہ کر انسانی سطح پر لے آتا ہے۔ورنہ عورت کو تو ایسا کمزور کر دیا گیا کہ وہ تو قول قرار نبھانے کے قابل بھی نہیں رہ گئی:

استیں زالے آں ہچ ہورا پیلہ نیاں

(عورت ہوں،اس لیے اپنے کسی قول کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہنے دی گئی ہوں)۔

مست کی محبت کا اعتبار اور احترام پا کر یہ چیز  ایک شخصیت بن جاتی ہے۔ مست ایک بے چہرہ عورت کو اپنی ذاتی  پہچان اور شناخت  دیتا ہے۔ وہ اب سر اٹھا کر کہتی نظر آتی ہے:

عہد ناں ذالی دست ماں گیوارہ پٹاں

مں تئی آن و تی گنڑا ہیچ کسی نہ یاں

عہداں پاریزاں چو قرانانی اکھراں

(میں اپنی مانگ پہ ہاتھ رکھ کر عورت والا عہد کرتی ہوں

میں تمہاری ہوں اور کسی کی نہیں

میں اپنے قول نبھاؤں گی قرانی الفاظ سمجھ کر)

سمو کے یہ الفاظ قابل توجہ  ہیں۔ ایک  بڑی تبدیلی کے شاہد ہیں۔ہمارے پدرسری سماج میں مرد،  مردانگی یامردانہ وار جیسی خوبیوں کا متضاد   تضیحیکی الفاظ زنانہ یا زنانہ پن ہیں۔ کہاوتوں اور محاوروں نے بھی ڈس کر عورت کا بدن نیلا اور دماغ سن کر دیا ہے۔”اپنی گھوڑی اور عورت کی کون سانجھ کرتا ہے”,جدید کہاوت بھی ملاحظہ کریں "اپنی گاڑی اور اپنی بیوی کا سٹیرنگ اپنے ہاتھ ہی میں رکھنا چاہیے”۔گھوڑی اور کار کے مساوی بیوی ہے۔ ستم یہ بھی ہے کہ گاڑی اور گھوڑی کی قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے۔

مست اس عورت سے دوستی کا دعوی دار ہے جو کسی اور کی مالکی میں ہے۔وہ اپنے آپ کو سمو بیلی کہلواتا ہے۔مروج سے اتنی بڑی بغاوت محبت کے بل بوتے ہی پر کی جا سکتی ہے _۔ایسی روشن  خیالی تو ہمارا آج کا سماج  بھی نہیں سہ سکتا کہاں قبائلی قدیم سماج  جو عورت  کو گائے بکری سے بڑھ کر نہ سمجھتا تھا۔ بظاہر اس سماج کا ایسا تہذیب یافتہ ہوجانا قرین قیاس نہیں۔لیکن محبت تو ایک معجزہ ہے جو ہمیشہ اپنے اندر وسیع امکانات سمیٹے ہوتا ہے۔دیکھا جائے تو ادب محبت کا  اور محبت تہذیب کا پہلا قرینہ ہے۔ایک مردانہ سماج میں اپنا  تعارف’ سمو بیلی”  کروانے واسطے اعلی ترین شعوری بالیدگی، اور بڑی اخلاقی جرات  چاہیے اور سماج کو بھی اس تعارف کو قبول کرنے کے لیے ذہنی بلوغت درکار ہوتی  ہے۔خاص طور پر ایسے سماج میں جہاں زن مرید ہونا ایک طعنہ ہو۔ وہاں "سمو بیلی "کی قبولیت کرامت ہے۔ہمارا سماج تو آج بھی ‘عورت خور’ ہے اور بدترین تنزلی کا شکار ہے۔ یہاں آج بھی عورت اپنے مالک کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔دو سو برس تو بہت دور کی بات ہے نا!۔آج بھی مسجدوں میں سوشل میڈیا  پر اعلان کیا جاتا ہے فلاں (مرد)کی والدہ فلاں کی اہلیہ فلاں کی ہمشیرہ وفات پا گئی  ہیں،دعا کیجیے۔۔بھئی!  کیسے دعا کیجیے،جانے والی کا کوئی نام بھی تو ہوگا!۔ قبروں کے کتبے دیکھ لیجیے زیادہ تر باپ اور شوہروں کے ناموں کے ساتھ زیر زمین ہیں _ اکثر عورتوں کی زندگیاں بھی  محاورتاً انڈر گراونڈ ہی گزرتی ہیں۔وہ مالکوں کے نام پر  ان کی  زندگیاں  جیتی ہیں۔ ایسی جامد صورت حال میں سمو کو دوست کہ دینا بغاوت ہی تو ہے۔ عورت کو جنسی پراڈکٹ کا درجہ دے کر سماج میں اس کی فعالیت کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اس لیے عام طور ہر ہمارے سماج میں عورت مرد کے مابین ایک نارمل انسانی  تعلق نشونما نہیں پاتا۔عورت صرف ان مردوں سے تعلق  واسطہ یا رابطہ رکھ سکتی ہے جن سے جنسیاتی تعلق حدِ امکان سے پرے ہو یعنی باپ بھائی بیٹے یا پھر صرف اس مرد سے تعلق رکھنے کی اجازت ہے جو نئی نسل کی پیدائش  واسطے سوشل کنٹریکٹ کے ذریعے اس  حد بندی میں آتا ہے۔ اس دائرے سے باہر کی زندگی اس پر حرام کر دی گئی ہے۔ ہاں سمو ایک استثنائی مثال بن کر سامنے آتی ہے۔مست نے  اس  سرکل کو اٹھا کر اسی شاخ پر لٹکا دیا جس پر ہیر نے کمان  اٹکایا تھا۔ایک پسماندہ سماج میں عورت سے محض دوستی کا اذن حاصل کر لیا۔ایسی دوستی  جس پر  عورت کے  بزعم خود  مالکان خاوند،خاندان ،قبیلہ بھی مزاحم نہ ہو سکے۔۔

تہ نوئے بدنام گوں وثی جیڈی امسراں

سچوئیں دوستی آ تئی شرمندغ نیاں

(تم ہر گز بدنام نہ ہوگی اپنی سہیلیوں میں

میں تمہاری سچی دوستی پہ شرمسار نہیں ہوں)

شرمندگی نہیں شرمساری نہیں ہے بس شکر گزاری ہے  کہ رب مہربان ہوا اس اپنی   رحمت  سے نوازا۔

مہر تہ مولائے درہ وسی

انسان کو  مہر، عام سے خاص  بناتی ہے۔شاعر کے آبخورہ میں مہر مئے  بھرتی ہے۔بنا مہر تخلیق پتھرائی ہوئی ہوتی ہے۔اس میں روح محبت ڈالتی ہے۔۔مست  اپنے بارے کہتا ہے:

” کاہان کا (عام) کوہستانی مری ہوں راضی تو (خود) ہوگیا،بہانہ سمو کا بنایا ”

سمو بہانہ بنی اور مست کے دل سے مہر کا چشمہ پھوٹا۔ اس چشمے نے نہ صرف مست کے دل کو بلکہ اس کی مہر بھری  بابرکت شاعری پڑھنے والوں کے دلوں کو بھی سر سبز کردیا۔مہرواں باث و وذ گہیں راہاں شوں دیا

مست

(خدا) خود مہربان ہو جائے اور اچھے راستے دکھائے

خزاں رسیدہ شجر پُربہار ہوئے، جڑوں کے پھیلاؤ نے بکھری  زمینوں کو ہم وصال کیا،شاخیں بارآوری کی سرشاری میں  دھرتی کو بوسے دینے لگیں،انسان مہر کے صدقے انسانیت کے چھتناور شجر کی چھاؤں میں شانت ہوا۔

مست تؤکلی محبت کو فلسفہ  بنادیتا ہے۔ محبت انداز زیست بنتی ہے،تہذیب بنتی ہے۔ محبت آزادی ہے۔ذہن کو جکڑی ہوئی ان دیکھی  زنجیریں توڑ ڈالتی ہے،محبت مساوات ہے۔ کالے،گورے،زعم، غرور،قبیلہ،قوم سب اپنے جوتے کی نوک پر رکھتی ہے۔

"۔۔مست کا حوالہ سمو،سمو کا حوالہ امن،امن کا حوالہ زندگی اور زندگی کا حوالہ انسان،انسان کا حوالہ انسانیت،انسانیت کا حوالہ ہارمنی،مسرت اور اطمینان-” (ص339)

تؤکلی نام کا چرواہا مہر کے صدقے انسانوں کے بیچ مساوات اور احترام کی نئی ریت ڈالتا ہے۔

ایک اور دلچسپ اور فکرانگیز ایکٹیویٹی "سمو کی شادی "ہے_

سمو کے نام منعقد کی گئیں یہ تقریبات لفظ’ شادی” کو ایک نئی معنویت دیتی نظر آتی ہیں۔

سمو کی شادی کے مناظر دیکھیے۔۔”بغیر دعوت کے بغیر کارڈ بغیر کسی واحد میزبان کے ایک ہی نشست میں ہزاروں روپے والا فنکشن ہوتا ہے۔  سارا جشن سمو کے نام پر منعقد ہوتا۔آس پاس سے ہر شخص اس فرضی شادی کے لیے اپنے اپنے خیمے سے ایک ایک دنبہ اٹھائے مرکزی اجتماع کی طرف چلتا آتا ہے”۔سانجھداری ہے۔  سب انسان باہمی عزت احترام کے ساتھ سر جوڑے بیٹھے ہیں۔حال احوال ہوتا ہے جھگڑے تصفیے میں ڈھل جاتے، سیاسی سماجی مسائل پہ بحثیں ہوتیں ہیں, موسیقی،دھریس اور کلام مست گایا جاتا ہے "۔ (ص206)

ایک تہذیب کی نشوو نما کے لیے آبیاری جاری  ہے۔ابھی ادھر سے فارغ ہوئے نہیں کہ اگلی وادی میں ایک اور میرج ہال تیار ہے۔ سارا فنکشن سمو کے نام پر ہوتا۔مست تؤکلی ٹھہرے پانیوں جیسے سڑاند دیتے  ویلیو سسٹم  کا باغی ہے۔وہ محفل سجا کر اپنے انقلابی ایجنڈے کا  مرغوب فقرہ ضرور کہتا ہے:” یک بریں  سمو را جا جھاڑ، ناتیں ما گوژ دہ نہ وروں ” _(ص206) (پہلے سمو کی رعیت یعنی آس پاس خیموں میں موجود عورتوں کو کھانا  کھلادو،وگرنہ ہم نہ کھائیں گئے)

سمو کی رعیت کا حصہ منصفانہ طور پر بانٹنے کے بعد،مست محفل میں موجود لوگوں میں بانٹ دیتا ہے۔

مست لیڈیز فرسٹ کا ایٹی کیٹ جدید دور کی بناوٹ دکھاوٹ کے بغیر   دیانت اور خلوص  کے ساتھ اپلائی کرتا نظر آتا ہے۔پھر سمو بیلی اپنا اور اپنے دوست کا کھانا وصول کرتا ہے اور محفل سے ذرا دور جاکر بیٹھ  جاتا ہے۔اپنے نادیدہ دوست سمو کو کھانا پیش کرتا اور محو گفتگو نظر آتا ہے۔یہاں عورت چوڑیاں چھنکاتی پازیب بجاتی نظر نہیں آتی۔   وہ پارٹنر ہے وہ دوست ہے ، بیلی  ہے، وہ ہمدم دمساز ہے،ہم نوالہ ہم پیالہ ہے۔

آج بھی ہمارے دیہاتی اور قصباتی علاقوں میں تقریبات میں پہلے کھانا مردووں کے لیے کھلتا ہے۔آج بھی بچے اور عورتیں دوسرے درجے میں شمار ہوتے ہی۔آج بھی اس عورت کو آئیڈیلائز کیا جاتا ہے  جو ننگی پیری،سر پر روٹیوں کا چھابا اور کمر پر مٹکی لسی کی اٹھائے  کھیتوں میں جاتی ہے۔شوہر (مالک) کھانا کھاتا ہے وہ نزدیک بیٹھ کر پنکھیاں جھلتی ہے۔آج بھی اشتہاروں  میں عورتیں کھانا سرو کرتی  ہیں۔مرد  برانڈڈ مصالحوں کی تعریف کرتے ہوئے  تناول فرماتے ہیں۔ آج بھی کام سے واپسی  پر مرد صوفے پر نیم دراز استراحت کرتا ہے عورت کام کی واپسی پر سیدھا کچن میں  جا بسرام کرتی ہے۔ ہمارے ہاں تو عورت  ایک استعمال کی چیز سے بڑھ کر کچھ نہیں۔اس کی مامتا  کو ڈالڈا کا ہم پلہ قرار دے کر جذباتی بلیک میلنگ سے اُسے قربانی کی بکری بنا  دیا جاتا ہے۔ اور اگر  بد قسمتی سے عورت کا شمار استحصال زدہ طبقے میں  ہے تو اس کو دوہرے  تہرے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہمارے سماج میں آج بھی بے نظیروں کو دیکھ کر افسران اپنی ٹوپیاں بغل میں دبا لیتے ہیں کہ کہیں احترام کے اظہاریے میں سیلوٹ نہ کرنا پڑ جائے۔ شاید کبھی ایسوں پر مست کے  اس ایک مصرعے کی مار پڑے: ہے تئی دست بھراثاں،تہ سمو سری پرینتہ

(ارے تیرا ہاتھ ٹوٹ جائے،تو نے سمو کی چادر گرادی)

سماج  میں سر کی چادر عورت کے احترام کی علامت ہے۔سر سے چادر اور دستار کا گر جانا  بدشگونی اور تضحیک کی علامت ہے۔

مست عورت کی عزت اور احترام پر کہیں بھی کمپرومائز کرتا نظر نہیں آتا۔چاہے احترام کی کمی  انجانے میں سرزد ہو۔

دوستہ پڑدایئے مں فکرداراں

(دوست کے وقار کی فکر میں رہتا ہوں)

مست سمو کے ہاں مہمان ٹھہرتا ہے۔ سمو مہمان سے ملنے آتی ہے۔ ساتھ سمو کا بیٹا بھی ہے۔ سمو مست سے ہاتھ ملاتی ہے۔ مست اور سمو کی مہر کتھا میں کہیں بھی لک چھپ جانا نظر نہیں آتا ہے۔اگر نظر آتا ہے تو سر اٹھا کر جینا نظر آتا ہے۔سمو حال احوال کرنے کے بعد جانے کی اجازت مانگتی ہے۔مست نے کہا” ہا موکلیں ترا_ اب چلی جاؤ ” ماں کے دوپٹے کا پلو پکڑے بیٹا بھی ساتھ تھا۔رفتار کی تفاوت کے سبب سر کی چادر کھچ گئی  مست بے اختیار پکار اٹھتا ہے:” ہے تئی دست بھرا، تہ سمو سری پرینتہ”۔

مست کسی تعلق، کسی رشتے کو  اجازت نہیں دیتا کہ وہ عورت کی تکریم میں کمی کریں۔ ڈھور ڈنگروں سا رویہ رکھنا ایک انسان کے ساتھ انسانیت کی توہین ہے۔مست ساری زندگی ان سارے کوڑھ زدہ ریت رواجوں کو دامے درمے سخنے قدمے سماج کے بدن سے کاٹ کر  الگ کرنے کی سعی میں رہا۔

دوست منی بیواکاں کثہ وانڈھو گوں بزاں

پاذ شفاذیا کوہ بن و کوڑان و گراں

ترجمہ: غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں نے میری محبوبہ کو بکریوں کے ساتھ گھر سے بہت دور کاشر (چراگاہ) روانہ کیا ہے

وہ ننگے پیر ہے اور چٹانوں،پہاڑوں اور میدانوں میں چلنے پہ مجبور”۔

مست تو سمو کے لیے دلکشا خواب دیکھتا رہا:

سمو مں دوشی دیثہ گوں وھاو و شاذہاں

سیر سالو کی کرہ کنت بے دوشی  گذاں

بریخہ کاں چماں گوں ہزار لونیں سیر مغاں

(میں نے رات سمو کو خواب میں دیکھا

وہ بہت خوش شاداں تھی

دلین بنی ہوئی تھی اور اس نے بہت اچھے کپڑے پہن رکھے تھے اس کی انکھیں بہترین کاجل سے چمکتی تھی)۔

سمو محض ایک عورت نہیں ہے۔سمو بلوچ عورت کا استعارہ ہے اس بات کو مزید وسیع کیا جائے تو سمو عورت کا استعارہ ہے۔اس بات کو ذرا اور وسعت دی جائے تو  سمو انسان کا استعارہ ہے۔ایک  پسے ہوئے  سماج میں مجبور مہجور،  انسان کا،جس کا تعین بطور دوسرے درجے کا انسان طے کر دیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں عام  عورت،تعلیم یافتہ عورت،مڈل کلاس  ورکنگ وومن یا دیہاڑی دار کھیت مزدور عورت یا پھر گھروں میں اجرت پرکام کرنے والیاں، اپنے بچوں کی   پرورش اور تعلیم کی  معاشی ذمہ داری بھی برابر اٹھا رہی ہیں۔  خیال آتا ہے کہ کیا وہ  معاشرتی رویے جو دو سو برس قبل کی عورت سے روا رکھے گئے آج کی عورت کے لیے   مختلف ہیں؟

” سمو کو دو سو برس گزر گئے مگر اب بھی اس کی رعیت کابڑا حصہ مال مویشی چراتی ہے۔انھیں پینے کا صاف پانی گھر میں  نصیب نہیں ہے۔  وہ اب بھی دوراز فاصلوں سے گندہ اور کیڑوں اور جراثیم آلود پانی مشکیزوں گھڑو ں اوربالٹیوں میں سر پر  رکھ کر ڈھو کر لاتی ہیں۔آج بھی "سمو کی قوم” کی اکثریت پاپوش سے محروم ہے اور ننگے پیر بھیڑ بکریوں کے پیچھے ٹھوکریں کھاتی رہتی ہے۔سیاہی سیاہ کاری،لب و فروخت غیرت و پابندی کی اسیر،سموکی یہ رعایا کسی ایسے نجات دہندہ مست کی منتظر ہے  جو اپنی بڑی اور منظم عوامی مدد سے مساوات اور عدل پہ مبنی معاشرہ قائم کرے”۔

اب تو سماج نے عام عورت کے سر پر رکھی گٹھڑی مزید بھاری کر دی ہے۔آج کی عورت کماڈٹی بھی ہے اور پراڈکٹ بھی۔

جانے کب سمو آ ہنی دروازے والے قید خانے سے رہا ہوگی!

مست کی شاعری میں کہیں بھی سمو پر مالکیت جمانے کی کوشش  یا اسے ملکیت رکھنے کی چاہ  نہیں ہے ۔بس اپنائیت اور اپناپن۔

عرض مئیں گوں شوا بدروی بے ہوشیں جڑاں

ساکنیں سیماں گواریں سموئے بوذناں

کندغیں سمو گوں وثی جیڈی امسراں

کیزاں تئی لوڈاں گنداں گوں جیڈی امسراں

(بدرہ کے مست  بادلو،تم سے درخواست  کرتا ہوں

سایہ کر دو اُس کے علاقے کو، برسو سمو کے چراگاہوں پر

ہنس رہی  ہے سمو اپنی سہیلیوں سنگیوں کے ساتھ

کاش میں تمیں تمہاری سہیلیوں کے بیچ  حسین چال چلتے دیکھ سکوں)

یہ ایک مختلف بات ہے کہ عورت کو اس کے جسمانی زاویوں کی کشش سے بالاتر ہو کر بھی محسوس کیا جائے۔

_۔” بہار خان نے پوچھا: تؤکلی کیا ہوگیا تھا؟۔۔۔۔۔سمو سمو پکارتے تھے۔سمو آئی تو بے ہوش ہو گئے۔وہ بیٹھ بیٹھ کر بالآخر چلی گئی” کہا: ‘ بہار خان! عشق گدھا گدھی والی جنسی بات نہیں ہے۔دوست تھی،آنکھیں ملیں ملاقات ہوگئی۔اس نے مجھے دیکھا میں نے اُسے دیکھا  بس ہو گیا وصل'”۔(ص235)

۔   تؤکلی مست اپنی محبوبہ کو چوری چھپے ملنے واسطے انگیخت نہیں کرتا، نہ جلتی تپتی دوپہر میں اُسے ننگے پیروں چھت پر بلاتا ہے۔ بلکہ  وہ تو اس کی ننگے پیروں کے لیے جتڑی کی تمنا رکھتا  ہے  اس  کے لیے آزادی خوشحالی شادمانی  کا طالب ہے:

بتکہ ژہ سمو آسنیں واڑا

(رہا ہوگئی سمو آ ہنی دروازے والے قید خانے سے)

مست   اپنی دوست کو جان توڑ مشقت جھیلتے،سہتے ہوئے دیکھ کر رنجیدہ ہوتا ہے۔محنت ایک اعلی انسانی صفت ہے۔گڑبڑ وہاں ہوتی ہے جہاں اس محنت کا استحصال شروع ہوتا ہے۔ اندوہناکی واں ہوتی ہے کہ جب اس محنت کا صلہ نہیں ملتا۔

دوست منی پالوشاں شتہ سندھا

دیم پہ دیریں الکہاں داثئی

پیاذغی دوست گوں امسراں ٹلی

بول تفسی ماں شیفغیں پونزا

ملغی ڈیلا جنت لوارگرمیں

ترجمہ: میری دوست  جھلسا دینے والی سندھ گئی ہے

اس نے دور دراز علاقوں کا سفر کیا

پیدل گھسٹتی ہے میری محبوبہ اپنی ہم عمروں کے ساتھ

بول نامی ناک کا زیور اس کی ستواں ناک میں تپ جاتا ہے

اس کے نازک بدن کو گرم لو مار دیتی ہے

سمو کے  لیے مست ایک عمدہ خوشحال زندگی تصور کرتا ہے۔

مست بلوچ سماج میں عورتوں کے حقوق کا اولین مرد چپمپئن تھا“۔

کاہان کا مری  عورت کے ساتھ دکھ سکھ کی سانجھ کرتا نظر آتا ہے۔۔

” تؤکلی مست سمو کے حوالے سے عورت کی پوری زندگانی،اس زندگانی کے حالات اور شرائط  کو یک دم بدل کر انسانی بنانا چاہتا تھا۔اس کی ساری بنیادی ضرورتیں پوری کرنے والا ایک نظام قائم کرنا چاہتا تھا۔وہ اپنی دوست کے لیے عمدہ زندگی کی چاہت رکھتا ہے:

قادرئے کنڈھی شلوخیں

سملئے بیلی گنوخیں

قادر کی کنڈھی(گھوڑی) سبک رفتار ہے

سمو کا بیلی دیوانہ ہے

سمو مست کے پیار میں مدہوش ہے

سمو کے گلے میں بڑگڑی (زیور) ہے

سمو کے ناک میں پلڑی (زیور)ہے

سمو کے سر پر چنری ہے

سمو کے پیروں میں جتڑی ہے

سملئے دوست مریوں کے ساتھ ہے

سملئے کا گھر گھروں کے ساتھ ہے

سمو! چلتی ہو تو ساتھ لے چلوں

تمیں لڑکوں کی سی بالیاں پہنادوں

سمو حج کرنے جاتی ہے

سنگتی مست کو لیے

قدیم بلوچ سماج (شاید اب بھی) اپنے دل مراد چہیتوں بیٹوں کے کانوں میں سونے کی بالیاں پہناتا ہے۔ اسے بیٹیوں پر اولیت دیتا تھا۔سمو بیلی ان اشعار میں سمو کے لیے صنفی امتیاز سے قطع نظر پہلے درجے  کا متمنی ہے۔اس کے لیے  ہر طرح کا سکھ امن سکون آسائش  تصور کرتا ہے۔پیار کو خیرات نہیں حق سمجھتا ہے۔ مست کی تمناؤں میں سمو با اختیار رہتل بسر کرتی نظر آتی ہے۔

"‘حیف ہے تم پہ سست پروئی قبیلے والو

تمہاری سٹی گم ہے اور تمہاری ساری امارت حرام ہے

سمو خشک گھاس کاٹنے،راستے سے گزرتی ہے

میری محبوبہ دشوار گزار بلند چٹانوں پہ چڑھتی ہے

درد کی موجیں میرے جسم میں سانپ کی طرح بل کھاتی ہیں۔'”

مست کو ہجر کا دکھ ہی لاحق نہیں وہ تو سمو کی لاحاصل مشقت بھری زندگی پر بھی برابر آرزدہ ہے۔وہ سمو کے لیے ایک اچھی زندگی کی تمنا کرتا ہے۔ جس سیٹ اپ میں سمو موجود ہے اس سارے سیٹ اپ کی بہبودی کا خواہاں ہے۔سمو قریب رگ جاں دوست ہے۔اس لیے دوری بے معنی ہے کہ دوری تو ہے ہی نہیں۔

‘اپنے نازک ہونٹوں سے جام نوش کرتی ہے

ایک پیالہ خدا کے واسطے

ایک پیالہ مجھ دیوانے کے نام پی

تاکہ وہ جام میرے پیاسے دل تک پہنچے’

شاہ محمد لکھتا ہے:” مست تو اپنی سمو کو یہ سب کچھ نہ دے سکا۔ہماری نسل بھی وہ سماج قائم نہ کرسکی جہاں آج کی سموئیں اپنے عہد کی ساری نعمتوں سے بہرہ ور ہوسکیں ”

” سمو کی زندگی کی کھٹنائی کو محسوس کرنا، اس کی مشقت کا وزن و ناپ بیان کرنا،اور ان پر کڑھنا ہی تو افضل انسانیت تھی۔ بلاشبہ جب بھی  بلوچستان میں عورتوں کی نجات کی تنظیم  قائم ہوگی تو مست ِمقدس کا نام سرخ روشنائی میں اس کے بانی کے طور پر لکھا جائے گا۔”

آج کا انسان کیپلٹلزم  کی عفریت کی گرفت میں ہے۔ اب  تو رشتوں اور محبتوں کی  بھی سٹاک مارکیٹ قائم ہوگئی ہے۔انسان نہ مٹنے والی بھوک میں مبتلا ہو کر ویمپائر بن گیا ہے۔

اک پیشہ عشق تھا سو غرض مانگ مانگ کر

رْسوا اسے بھی کر گئی سوداگروں کی ذات

محبت طوائف بن گئی ہے پیسوں سے خریدی جاتی ہے پیسوں پہ ہی بیچی جاتی ہے ایکسپائری ڈیٹ سمیت سودا بد و بدی ہوتا ہے۔

بظاہر فکرِ مست پاش پاش ہے۔لیکن کلام مست کا دیا کئی دلوں میں روشن ہے۔یہ ہی روشنی بڑھ کر سورج بنے گی۔سچ پر جانکنی تو طاری ہے پر سچ کو کبھی موت نہیں۔شاہ محمد لکھتا ہے: ” منڈی جس قدر چاہے وسیع و طاقت ور ہو،دنیا میں کچھ چیزیں ترازو کے لیے ہوتی ہی نہیں۔محبت ان میں سے ایک ہے_”(361)

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے