کتاب کا نام:  پاکستان میں تہذیب کا ارتقا

مصنف:  سبطِ حسن

صفحا ت:  337

قیمت 350 روپے

مبصر:    عابدہ رحمان

سبطِ حسن صاحب 1912ء میں اعظم گڑھ ہندوستان میں پیدا ہوا۔وہ علی گڑھ یونیورسٹی کا ڈگری یافتہ تھا۔ سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقی پسند تحریک کا آغاز کیا۔ سبطِ حسن صاحب نے کئی کتابیں لکھیں۔اس کی کتابیں محض کتابوں کی تعداد بڑھانے والی بات نہیں تھی۔ بلکہ اس کی ہر کتاب قاری پرجہاں تاریخ کے بہت سے در وا کرتی ہے، وہیں اسے ایک نئی سوچ نئی فکر سے بھی ہم کنار کرتی ہے۔

ہمارے خطے کے لوگ ہمیشہ سے پاکستانی تہذیب کے بارے میں مغالطوں کا شکار ر ہے ہیں۔ سبطِ حسن کی کتابیں ہمارے ذہنوں سے شک کے جالے صاف کرتی ہیں اور غلطیاں سنوارنے کا موقع دیتی ہیں۔ اس کی زیرِ نظر کتاب ”پاکستان میں تہذیب کا ارتقا“ پڑھنے سے پہلے میرا یہ خیال تھا کہ شاید پاکستان کی تہذیب اس دن سے شروع ہوئی جب 14 اگست 1947ء کا سورج چڑھا۔میری طرح بہت سے لوگ یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ محمد بن قاسم جب سندھ فتح کر گیا تو شاید اس دن سے پاکستان کی تہذیب کی بنیاد پڑی۔اور اس طرح جذباتی لوگ اسے پاکستانی تہذیب کا نام دے دیتے ہیں۔ کس قدر سنگین غلطی پر تھی میں اور مجھ جیسے دوسرے لوگ۔ اور کس قدر محدود کر دیا ہم نے لفظ تہذیب کو۔

”پاکستان میں تہذیب کا ارتقا“نامی اس کتاب میں سبطِ حسن صاحب نے برصغیر پاک و ہند کے اس خطے کی طویل تاریخ کو تقریبا 300  صفحات میں جس طرح سمیٹا ہے، اس کی کیا تعریف کی جائے کہ الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ ان مغالطوں سے جان چھڑانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم تہذیب کے ان بنیادی عناصر اور عوامل کا مطالعہ کریں کہ جن کے زیرِ اثر مختلف تہذیبیں ارتقائی عمل سے گزر کر پروان چڑھتی ہیں۔سبطِ صاحب کتاب میں بتاتا ہے کہ تہذیب کوئی اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے، نہ یہ خواہش کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے۔نہ ایسا ہے کہ برصغیر میں جب پہلے مسلمان نے قدم رکھا تو تہذیب بھی ساتھ ہی آگئی یا پھر قیامِ پاکستان سے تہذیب کی ابتدا ہوئی۔یہ ہمیشہ قانون اور حالات کا نتیجہ رہی ہے۔ دراصل اس زمیں پر صدیوں سے مختلف قومیں آباد رہیں۔ان قوموں کے آپس کے تعلقات، شادی بیاہ، مذاہب، زبان، لباس اور بہت کچھ اور ان کے معروضی حالات سے گزر کر ہی تہذیب کی موجودہ شکل بنی۔ مختلف ادوار کے تھپیڑوں کے نتیجے میں ہی تہذیب کا جنم ہوا۔

کتاب کو کو کُل آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا باب: تہذیب کی تعریف:۔

اس باب میں وہ کہتا ہے کہ قوم کسی ریاست کے نقشے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ دو یادو سے زیادہ ریاستوں میں بھی ایک قوم ہو سکتی ہے۔ اس کی مثال وہ اس طرح دیتا ہے کہ جرمن قوم دو ریاستوں میں جب کہ سوویت یونین میں ازبک، تاجک، روسی وغیرہ پائے جاتے ہیں۔وہ کہتا ہے کہ ریاست کی سرحدیں کبھی بھی ایک سی نہیں رہتیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں جس کی مثال وہ کشمیر کی صورت میں دیتے ہیں کہ اب وہ پاکستان کا حصہ نہیں۔انگریزی میں تہذیب کے لئے کلچر کا لفظ ہے جسکے معنی شہد مکھیوں، زراعت،جسمانی و ذہنی اصلاح وغیرہ کے ہیں جب کہ تہذیب اردو، فارسی اور عربی میں کلچر کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں یعنی پہلے باب میں سر سید احمد خان، محمد میر لکھنوی،مولوی عنایت اللہ، بکل اور دوسرے مصنفیں کے حوالوں سے تہذیب کی اصلاح، خصوصیات، عناصر ترکیبی یعنی طبعی حالات، آلات و اوزار، نظام فکر و احساس اور سماجی اقدار کا جائزہ لیا ہے۔

سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو تہذیب یافتہ بنانے کے لیے مضامین بھی لکھے لیکن سبطِ صاحب کہتا ہے کہ تب وہ خود بھی کلچر اور سولائزیشن میں کلیئر نہیں تھا۔

بکل نے ایک طرف تو یہ ثابت کیا کہ انسانی تہذیب پر طبعی ماحول اور موسم کا گہرا اثر ہے لیکن ساتھ ہی اس نے سماجی مفادات کے لیے نظریاتی جواز اس طرح پیش کیا کہ سفید فام قوموں کے غلبے اور ایشائی قوموں کی غلامی کو قانونِ قدرت کی شکل دی اور یہ اس کی بہت بڑی غلطی تھی۔

دوسرا باب:وادی سندھ کی تہذیب:۔

دوسرا باب ہمیں وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں بتاتا ہے۔ جس کے آثار تقریباً چار لاکھ سال پرانے ہیں۔ یہاں سے ہوتے ہوئے وہ موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں تک جا پہنچا جس کی زندگی ایک ہزار برس بتائی گئی اور یہاں ساٹھ سے زیادہ آثارر دریافت ہوئے۔

اس باب میں مصنف سبطِ حسن صاحب لکھتا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کا سب سے حیرت انگیز پہلو اس کی یکسانیت اور جمود ہے۔جس کااندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہزار برس کے طویل عرصے میں یہاں کی سماجی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس دور میں سندھ میں اموی نظام قائم تھا یعنی حسب نسب اور وراثت کا سلسلہ ماں کی طرف سے چلتا تھا۔لہٰذا معاشرے میں عورت کا مرتبہ مرد سے اونچا تھا۔اس وقت دو قومیں یا نسلیں آباد تھیں؛داسی اور آسور یا ایشور۔ داسیو یا داس کا لفظ غلام کے لیے اس وقت رائج ہوا تھا جب آریوں نے داسیوں پر حملہ کر کے اپنا غلام بنایا جب کہ اسور کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ ترقی یافتہ لوگ تھے، دھاتوں کے ماہر تھے اور ان کی زبان بھی منفرد تھی۔

تیسرا باب:آریا تہذیب:۔

آریا کا آبائی وطن خوارزم اور بخارا کا خطہ تھا۔ دو ہزار قبل مسیح کے آس پاس وسطی ایشیا کی چراگاہوں سے نکل کر جنوب مغربی  ایشیاکا رخ کیا۔۔اشوک اعظم،ٹیکسلارامائن، مہا بھارت، بھگوت گیتا، کورووں کی جنگ اور پانڈوؤں کی جنگ، ایرانی تسلط اور ہخا منشی عہد، سکندر اعظم کا سندھ پر حملہ، گوتم بدھ اور بدھ مت کی تحریک۔ آریا تہذیب کا باب ہمیں یہی کچھ بتاتا ہے۔مصنف بتاتا ہے کہ آریوں کے غلبے کے آثار وادی سندھ میں اب تک نہیں پائے گئے لیکن محققین کا خیال ہے کہ دنیا کی سب سے پرانی کتاب رگِ وید کی تصنیف یہیں ہوئی تھی۔پرانا زرعی نظام نہیں بدلا گیا بلکہ اسی طرح زمین گاؤں یا قبیلے کے مشترکہ تصرف میں رہی۔فنِ تحریر کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک اتفاقیہ ایجاد ہے کیوں کہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ انھوں نے مغلوبین سے تحریر کا فن نہیں سیکھا۔شاید اس لیے کہ اس سے پہلے اس کی ضرورت نہیں رہی لیکن جب عبادت گاہوں میں چڑھاوے اور نذرانوں کے انبار لگنے لگے اور پروہتوں کو اس فاضل دولت کا حساب رکھنا پڑا، تب تحریر کی ضرورت پیش آئی۔پدری نظام رائج کرنا آریوں کا ہی کارنامہ ہے۔ذاتی ملکیت کو اسی دور میں فروغ حاصل ہوا۔کھیتی باڑی اور بیوپار کے فروغ پانے سے ذاتی ملکیت کا نظام مضبو ط ہو گیا۔(یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ سبطِ حسن نے یہ کتاب اُس وقت لکھی تھی جب آریا ؤں کی آمد کی تھیوری غلط ثابت نہ ہوئی تھی)

چوتھا باب: یونانی، ساکا اور کشن اثرات:۔

سندھ اور یونان کے درمیان رابطے اور یہاں کی تہذیب پر یونانی، ساکا اور کشن قوم کے اثرات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔میرے لیے ایک نئی بات یہ تھی یہاں کہ چاروں ذاتوں کی تقسیم کوئی مقدس یا آفاقی چیز نہیں تھی نہ کوئی آسمان سے یہ ذاتیں نازل ہوئی تھیں بلکہ ذاتیں دراصل پیشہ ہیں۔ آدمی کا پیشہ بدل جائے تو اس کی ذات بھی بدل جاتی ہے۔چھٹی صدی قبل مسیح اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ چین سے یونان تک لوہے کی تہذیب،کانسی کی تہذیب پر پوری طرح غالب آئی اور اس طرح مہذب دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔اسی دور میں صرف تبادلہ اشیائے ہی نہیں بلکہ تبادلہ عقائد و افکار بھی ہوا۔اس دور کی گندھارا تہذیب کی بات کی جائے تو اس کا مرکز تو ٹیکسلا تھا لیکن یہ پشاور، مردان، سوات اور افغانستان تک پھیلی تھی۔اشوک کا بدھ مت قبول کرنے کے بعد اس میں سے بھی امیری جھلکنے لگی اور اس طرح بدھ مت کا بھی بیڑا غرق ہو گیا کیوں کہ گوتم بدھ کی زندگی کے واقعات کی منظر کشی کو چھوڑ کر صرف اس کی شبیہیں بنانے پر زور تھا اور ذات پات اور چھوت چھات کی سختیاں پھر سے شروع ہو گئیں۔ ہندوستانیوں نے یونانیوں سے علمِ نجوم، جنتری، سات دن کا ہفتہ،، راس منڈل کے بارہ برج،سنگتراشی اور سکہ سازی کے علوم سیکھے۔یونانیوں اور دوسری اقوام میں آپس میں شادیاں بھی ہوتی رہیں۔

پانچواں باب: عربی تہذیب کا اثر و نفوذ:۔

اس باب میں سبطِ حسن صاحب سندھ اور عرب کے تعلقات کے بارے میں بتاتا ہے۔ان کے تجارتی رابطے، لشکر کشی کے ابتدائی واقعات، محمد بن قاسم کی فتوحات، اسماعیلی داعیانِ اسلام،قرامتہ کی تحریک اور عربی تہذیب کے اثر و نفوظ کے بارے میں بتایا ہے۔وہ بتاتا ہے کہ عرب سندھ کے راستے گزر کر چین میں تجارت کیا کرتے تھے جس کے لیے انھیں یہاں کی زبان بھی سیکھنا پڑتی تھی اور یہاں رہنا بھی پڑتا تھا۔ایک راستہ عدن سے ملابار، لنکا اور چین تک کا تھا جب کہ دوسراخلیج فارس سے گزر کر ساحلِ مکران کے کنارے کنارے سندھ کی بندرگاہوں تک آتا تھا۔سندھیوں اور عربوں میں آپسی شادیوں کی وجہ سے دونوں زبانوں پر مکمل عبور حاصل کیا گیا۔سلطان شہاب الدین غوری کی آمد کے بعد عرب حکومت ختم ہوئی۔تین سو سال کی مدت میں عربوں اور سندھیوں نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔سبطِ صاحب کہتا ہے کہ سندھ کی تہذیبی تشکیل میں دریائے سندھ کا تاریخی کردار رہا ہے کیوں کہ اہلِ سندھ کی معیشت کا انحصار اسی دریا پر ہے۔

چھٹا باب؛ ترکی اور ایرانی تہذیب کے اثرات:۔

مصنف یہاں ہمیں ترکی اور ایرانی تہذیب کے بارے میں بتاتا ہے۔جس کی داغ بیل ماورائے النہر کے ترکوں نے ڈالی تھی۔ترک اپنے ساتھ ایرانی تہذیب کی چھاپ لائے۔اس نسبتاً طویل باب میں سبطِ حسن صاحب محمود غزنوی کی آمد،تبلیغ کے لیے ایرانی صوفیا کی خدمات، حضرت داتا گنج بخش، بابا فرید، شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی، قطب الدین ایبک کا دلی پر قبضہ، مغلوں کے پانچ خاندانوں کی حکومت ذکر، سیاست اورتہذیب کے مراکز ملتان اور لاہور سیدہلی اور آگرہ منتقلی، بھگتی تحریک، علاقائی اور قومی زبانوں کی ترقی، سکھ قوم اور گرو نانک کی زندگی، ادب اور علوم و فنون کی ترقی،امیر خسرو، سماع کی محفل اور بابر کا تفصیلی احوال ہے۔مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں شکست کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں۔سبطِ حسن صاحب کہتے ہیں کہ ایرانی تہذیب ہم پر تقریباً 800 سال تک غالب رہی اور آج تک بھی ہم فارسی کے اثر سے آزاد نہ ہو سکے۔اس دو ر میں یہ غوغا بھی اٹھا کہ سلطنتِ دہلی کی نوعیت کیا ہونا چاہیے؟ آیا شرعی یا پھرسیکولر؟یعنی مذہب کو امورِ سلطنت میں مداخلت سے باز رکھا جائے۔ اس سے ملاؤں کو بھی موقع مل گیا جو کہنے لگے کہ ہندو نہ اہلِ کتاب ہیں نہ اہلِ ذمہ۔شرع میں تو ان کے لیے ایک ہی حکم ہے کہ اسلام قبول کریں یا پھر قتل کیے جائیں۔خیر التمش اور اس کی بیٹی رضیہ سلطانہ نے اس معاملے کو سنبھال لیا۔سلاطینِ دہلی کے دورمیں دو بڑی اہم خصوصیات میں سے ایک بھگتی تحریک اور دوسری علاقائی تہذیبوں اور زبان کی ترقی تھی۔بھگتی تحریک کو تصوف کی ہندوستانی شکل بتایا گیا کیوں کہ ہندوؤں کو سمندری سفر ممنوع تھا اور عرب اس سے فائدہ اٹھا کر بحری تجارت پر قبضہ کیے بیٹھے تھے، تب تجارتی مفاد کی خاطر کہا گیا کہ ماہی گیروں کے ہر خاندان میں کم از کم ایک لڑکے کی تعلیم و تربیت عربوں کی طرز پر ہو۔

عورتوں کا پردہ غزنوی دور میں شروع ہوا۔ بیوہ کی دوسری شادی ممنوع تھی اور املاک میں عورت کا کوئی حصہ نہ تھا۔رقص و موسیقی کو منع قرار دیا گیا۔چکلے کی بنیاد بھی تب ہی پڑی اور اسے شیطان پورہ کا نام دیا گیا تھاجب کہ اسے بنایا خود شیطانوں نے تھا۔

اس پورے باب کا احاطہ دراصل سبطِ حسن صاحب کا یہ فقرہ بخوبی کرتا ہے کہ، ”ریاست در حقیقت ہر دور میں ایک طبقاتی ادارہ رہی ہے۔ اس کا مقصد برسرِ اقتدار طبقوں کے مفاد کی حفاظت کرنا ہے“۔

ساتواں باب: مغلیہ تہذیب کا عروج و زوال:۔

نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس باب میں مغلیہ دور کے عروج و زوال اور مشہور واقعات و شخصیات کی تفصیل ہے۔وہ لکھتا ہے کہ ہندوستان میں سلطنت قائم کرنے کی چار وجوہات تھیں؛ ملک کی وسعت، زمین کی زرخیزی، سونے چاندی کی فراوانی اور ہنر مندوں کی افراط۔مغل بڑے باذوق تھے۔ انھوں نے عمارتیں بنوائیں، باغ لگوائے،نہریں، تالاب اور کنویں، درخت مسافروں کے لیے چوکیاں، کارواں سرائے، شعر و شاعری، موسیقی، مصوری۔ ان کا یہی شوق ملک کا تہذیبی مزاج بن گیا تھا۔

آٹھواں باب؛ مغلیہ تہذیب ہم عصر مغربی تہذیب کے آئینے میں:۔

اس چیپٹر میں جدید دور کی شروعات، نئے فلسفے اور سائنسی ایجادات پر بحث کی گئی ہے۔آنے والے دور کی تشکیل میں اس کا نمایاں کردار ہے۔کارل مارکس کہتا ہے کہ کسی معاشرے کا خود کفیل ہونا بھی بعض اوقات اس کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔زوال کے اسباب تو اورنگ زیب کے عہد میں نمودار ہونا شروع ہوئے لیکن اصل اسباب یہ تھے ملک و عوام کی کی قسمت کے فیصلے کے تمام اختیارات بادشاہ و امرا کو حاصل تھے اور رعایا کو نمائندگی کاحق نہ تھا، افکار و عقائدجس کے باعث پڑھا لکھا طبقہ بھی کنویں کا مینڈک تھا،بادشاہتوں کے بدلنے کے ساتھ طریقہ پیداوار نہیں بدلے بلکہ جوں کے توں رہے،بحری طاقت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی، انگریزوں کی بحری طاقت غلامی کا سبب بنی، سرمایہ دار طبقہ اور حکمران طبقہ صبر و قناعت اور فقر و فروتنی کی تعلیم دیتا تھے۔ دنیاوی حالات کو بدلنے کی کوئی بھی تلقین نہیں کرتا تھا۔

پاکستانی تہذیب کی تشخیص اور اس سے متعلق سوالات ضمیمہ کا حصہ ہیں۔جو قاری کو ایک سوچ اور فکر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ سبطِ صاحب کہتا ہے کہ ”پاکستانی تہذیب کی تلاش اس مفروضے پر مبنی ہے کہ پاکستان ایک قومی ریاست ہے اور چوں کہ ہر قومی ریاست کی اپنی ایک علیحدہ تہذیب ہوتی ہے اس لیے پاکستان کی بھی ایک قومی تہذیب ہے یا ہونی چاہیے۔“ وہ کہتا ہے کہ پاکستانی تہذیب دو نظریوں پر مبنی ہے۔ ایک ان لوگوں کا جو پاکستانی تہذیب کی اساس اسلام پر رکھتے ہیں اور اسلامی تہذیب وہ محمد بن قاسم کی آمد کو کہتے ہیں۔ یعنی وہ اس سے پہلے کی تہذیب سے صرفِ نظر رکھتے ہیں۔دوسرا نظریہ اُن لوگوں کا ہے جو پاکستانی تہذیب سے انکاری ہے۔ پاکستان کو ریاست تسلیم کرتے ہیں، اس کی سا المیت کے حق میں بھی ہیں لیکن پاکستان کو تہذیبی اکائی نہیں مانتے۔

برصغیر میں مختلف تہذیبیں کس طرح ارتقائی عمل سے گزرتی رہیں، کیا کیا عوامل برسرِ پیکار رہے اور کس طرح آج کی تہذیب کا وجود بنا، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا ان تمام کڑیوں کو ملاتی ہے اور قاری کو دعوت ِ فکر دیتی ہے۔

اگر آپ اپنے ذہن کے کونوں سے مغالطوں کا میل نکالنا چاہتے ہیں تو اسے اس کتاب کی ہوائے تازہ دیں تاکہ ہمارا آپ کا رخ سیدھا ہو جائے۔

سبط ِ حسن کی وفات 20اپریل 1986ء میں ہوئی لیکن وہ اپنی مضبوط تصانیف کے ساتھ آج بھی زندہ ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے