دو جنوری کو صبح گیارہ بجے بلوچستان سنڈے پارٹی کی نشست پروفیشنلز اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ سنڈے پارٹی کی انچارج کلثوم بلوچ کی صدارت میں نشست کا آغاز کیا گیا۔ ایجنڈے میں ریکوڈک اور گوادر کی صورتحال پہ بات کرنا شامل تھا۔

شرکاء نے کہا کہ گوادر اور ریکوڈک بڑے موضوع ہیں۔ اس کے علاوہ مسنگ پرسنز کا معاملہ ہے، میڈیکل کالجوں کے طلبہ احتجاج پہ بیٹھے ہوئے ہیں، مہنگائی اور بیروزگاری بھی تباہ کن سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

عام آدمی تو انہیں اخبار کی سرخیوں کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ مگر اہلِ دانش جانتے ہیں کہ چیزیں زیر سطح تبدیل ہوتی رہتی ہیں جو نظر نہیں آتیں۔ ان کا نتیجہ نکلتا ہے۔ ہمیں ان مسائل اور موضوعات کے پیچھے جانا پڑے گا۔خبر تاکہ خبر اور پھر نتائج کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ سماجی تبدیلیاں کسی پہلوان کی تلوار یا کسی درویش کی کرامت یا وڈیرہ کے حکم سے نہیں آتیں۔ تبدیلی پراسس سے آتی ہے۔ایک جگہ پہ پہنچ کر کوانٹٹی کوالٹی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

پروفیسر محمد حسین نے کہا کہ گوادر کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ویسے بھی جہاں وجود کو خطرہ ہو تو انقلاب کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔

وحید زہیر نے کہا کہ ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے۔ وسائل پہ محدود طبقہ قابض ہو تو پھر انقلاب ضروری ہوتا ہے۔ انقلاب وہی لوگ لاتے ہیں جن کی یہ ضرورت ہے۔کوئی فرد یا جماعت انفرادی طور پر انقلاب نہیں لاسکتا۔

نجیب سائر نے کہا کہ بالادست طبقہ نہیں چاہتا کہ سماجی تبدیلی آئے۔ کلثوم بلوچ بولیں کہ استحصالی قوتیں سماجی انقلاب کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

عابد میر نے کہا کہ جب تک آخری آدمی تک سرگرم نہیں ہوتا تب تک تبدیلی نہیں آتی۔ انقلاب کا سر چشمہ خالی پیٹ ہے۔ یعنی کسان، مزدور، ماہی گیر، کان کن اور عام آدمی کا خالی پیٹ۔پھر عوامی تحریک اپنے اندر سے لیڈر پیداکرتی ہے،لیڈر تحریک نہیں پیدا کرتا۔

گوادر کی موجودہ تحریک کے روح رواں ستر سالہ بوڑھی زینب ہے جس نے سب سے پہلے ماہی گیر خواتین کو گھر سے نکال کر تحریک شروع کردی۔ مولانا تو بہت بعد میں آیا۔

اس تحریک کی حکمت عملی اور داؤ پیچ دونوں مثالی رہے۔کسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا۔مائی زینب کی لیڈری مثالی تھی۔

عبدالحئی کاکڑ نے اپنی بات اس شعر سے شروع کی:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ یک دم نہیں  ہوتا

چیزوں سے جب دھول ہٹتا ہے تو رد عمل آجاتا ہے۔ گوادر تحریک کے پیچھے برسوں کا پروسس ہے۔ انقلاب وہی لاتے ہیں جن پہ گزر رہا ہوتا ہے۔

رفیق کھوسہ نے کہا کہ گوادر کے ماہی گیروں کا معاش کا مسئلہ ہے، وہاں نہ زراعت ہے اور نہ روزگار کے دوسرے ذرائع ہیں، سوائے ماہی گیری کے۔ حکومت کی حکمرانی کا طریقہ نوآبادیاتی ہے۔ حکومت کا رویہ مختلف ہوتا ہے گوادر کے انہی مطالبات پہ سیاسی لوگوں کو مار پڑی۔

وہاں باہر کے مہمان مقررین اور مقامی لوگوں کے انداز اور گفتگو کے مفہوم میں بڑا فرق تھا۔

عابد میر نے کہا کہ کیا سیاسی پارٹیوں کے اندر گوادر کے بعد کوئی بحث چلی ہے یا اندر سے کوئی سوال آیا؟۔پارٹیوں کو غور کرنا چاہئے اور حکمت عملی بنانی چاہئے۔

ریکوڈک کے بارے میں جو باتیں گردش کر رہی ہیں یا معاملات کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے لگتا ہے کہ کوئی انتہائی غلط معاہدہ کیا گیا ہے۔

آخر میں کلثوم بلوچ نے قرار دادیں پیش کیں جو متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔

۔1۔۔بلوچستان کا مسئلہ سیاسی سطح پر حل کیا جائے اور بلوچوں کو بلوچستان کے وسائل اور ساحل پر حق ملکیت دیا جائے اور ریکوڈِک معاہدہ عوام کے سامنے لایا جائے۔

۔2۔۔ اٹھارویں ترمیم کو بلوچستان میں عملی طور پر نافذ کیا جائے اور صوبائی خودمختاری کی ضمانت دی جائے۔

۔3۔۔ گوادر بچاؤ تحریک کے مطالبات کو حل کیا جائے۔

۔4۔۔ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور مسنگ پرسنز کو بازیاب کیا جائے۔

۔5۔۔ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے اور منی بجٹ میں نافذ کردہ ٹیکسوں کو واپس لیا جائے۔

۔6۔۔بیروزگاروں کو روزگار فراہم کیا جائے اور جب تک کوئی بیروزگار ہے اسے بیروزگاری الائنس دیا جائے۔

۔7۔۔ بلوچستان کے کسانوں کو مفت بیج، کھاد اور زرعی ادویات فراہم کی جائیں۔ بلوچستان کے بے زمین کسانوں کو اس زمین پر حق ملکیت دیا جائے جس پر وہ آبا و اجداد سے کاشت کرتے چلے آئے ہیں۔

۔8۔۔ پی ایم سی کی جانب سے میڈیکل سٹوڈنٹس کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کا نوٹس لیا جائے اور مطالبات تسلیم کیے جائیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے