سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو کی صدارت میں سنگت کا ماہانہ پوہ زانت منعقد ہوا۔ سٹیج سیکرٹری سیف اللہ کھوسہ نے وصاف باسط کو اپنی غزل تنقید کے لیے پیش کرنے کی دعوت دی۔اور پھر ایک ایک شعر پر الگ الگ بات ہوتی گئی۔ ایک شعر پر بیرم غوری صاحب کا کہنا تھا کہ، سائنس علم ہے، ادب فن ہے۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہا کہ شاعری میں 2 اور 2 کبھی بھی 4 نہیں ہوتے۔ وجود موجود نہیں ہوتا لیکن احساس رہتا ہے۔غزل کے ہر شعر پر تمام ساتھیوں نے سیر حاصل گفتگو کی۔

سٹیج سیکرٹری سیف اللہ نے ڈاکٹر منیر رئیسانی کو دعوت دی کہ وہ اپنا مضمون پڑھ کر سنائیں جو کہ اس  نے عابد میر کی کتاب’دو رنگی‘ پر لکھا۔ڈاکٹر منیر نے کہا کہ عابد ہمیشہ ایسے موضوعات پر لکھتا ہے کہ جس پر لوگ عموماً بات نہیں کرتے۔عابد کی کہانی کا دوسرا رنگ ہی اصل میں اس کا پہلا رنگ ہے۔ یوں ایک بہت خوب صورت مضمون پیش کیا گیا جسے سب نے پسند کیا۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ ادب میں تنقید اوور آل احاطہ کرتی ہے کسی بھی فن پارے کا۔ اس میں پوزیٹو یا نیگٹو کا کیا مطلب ہے؟۔ کوئی بھی تحریر جب تنقید کے لیے چنی جاتی ہے، یہ بذاتِ خود ایک مثبت علامت ہے کہ آپ اسے کوئی اہمیت دیتے ہیں۔

سیف اللہ نے وحید زہیر کو ٹیلر کا افسانہ پڑھنے کی دعوت دی جسے نسیم سید نے ’مصنوعی ذہانت کی ذہانت‘کے نام سے ترجمہ کیا تھا۔

ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ہو یا کوئی اور ٹیکنالوجی جب تک اس میں انسان کی خیر نہ ہو، وہ بے کار ہے۔

بیرم غوری نے کہا کہ اس افسانے میں ماحول نیا ہے۔ فضا نئی ہے۔ ٹریٹمنٹ نئی ہے اور میرے خیال سے آج کی نشست کی سب سے اہم چیز ہی یہی تھی۔

جیئند خان نے کہا کہ آنے والا دور مشین کا دور ہے، موبائل کا ہے،یہی ہمارامستقبل ہے۔

عابدہ رحمان نے قراردادیں پڑھی اور ساتھیوں سے منظور کروایا کیا گیا۔

 

قراردادیں:۔

۔1۔ ادیب، شاعر، کالم نگار بالخصوص پشتو کالم نگار عمر عسکر کی وفات پر تعزیت

۔2۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے

۔3کوئٹہ کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی  Strikeکو مذکرات کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ مریضوں کے لیے آسانی ہو۔

۔ 4۔ گوادر کے عوام کو جائز حقوق دیے جائیں۔

۔5۔ بلوچستان کے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔

۔6۔ جو دوست ممبرزطویل عرصے سے غیر حاضر ہیں، ان کا سختی سے نوٹس لیا جائے۔

پوہ زانت کے آخر میں ڈاکٹر بزنجونے صدارتی کلمات میں کہا کہ وصاف نے زبردست غزل برائے تنقید پیش کی۔ یہ ایک لرننگ پراسیس ہے اور ہم سب اس سارے پروسیس میں سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹر منیر کے مضمون کی بات ہے تو اُس نے ایک خوبصورت مضمون لکھا ہے۔ وحید زہیر کے پڑھے ہوئے طویل افسانے کے مضمون کے بارے میں کہا کہ مصنوعی ذہانت بھی دراصل نیچرل ذہانت ہی سے آتی ہے۔ یہ کہانی روایتی کہانیوں سے بالکل ہٹ کر ہے اور پڑھنے سننے والوں کو ایک نئی سوچ نیا خیال عطا کرتی ہے اور قاری ایک بالکل نئی نہج پر سوچنے لگتا ہے۔نسیم سید نے عالمی ادب سے اس افسانے کا انتخاب کر کے اردو کہانیوں میں ایک خوش گوار اضافہ کیا ہے۔

اور یوں ایک خوب صورت اور بھرپور پوہ ذانت کا اختتام ہوا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے