او یارا امارا بات سنو۔بوت دن بعد تمارا پاس آیا،امارا بات سنو۔ ایک قصہ کرے۔ام سنگت کا لوکل بس میں بیٹھا۔ آں آں یارا وہی بس جس نے اپنا سٹاپ پاطمہ جناح روڈ سے بدلا اور شیر مامد روڈ پر آیا۔ تو ام تم کو بتا را تھا کہ ایسا کھوب صورت بس تھا۔ اس پر پشین کا بس کا طرح ہر رنگ نئیں۔ اس پر ام تم کو بتاوے کہ ایسا سوکا سوکا لکڑی تا اور اس پر دو سرخ پھول بنا تھا۔ ام کو خدا قسم ایسا مزہ دیا ایسا مزہ دی آ۔ امارا دل بولے کہ کچھ بھی او جاوے بہار زرورآئے گا۔ اور ار طرپ پھول اوئے گا۔ او دو پھول بہار کا نشانی لگ گیا ام کو۔

ام جیسا ای بس میں چڑھا بس روانہ او گیا،خانہ باد ام گرتا تھا فیر کیا اوتا تھا۔او کنڈیکٹر بھی آوازیں دیتا را مچ مونا مچ مونا۔ ہم مچے مونا ہوا تو اودھر کیا دیکھتا اے کہ ڈاکٹر شاہ محمد، سیف وطن دوست، ضیاء اللہ شفیع، ارشد خانم، نبیلہ عصمت، نبیلہ کیانی بیٹا ہواتھا۔ امارا دماغ کام نئیں کر را۔ تم صبر کرو یارا  ام سوچ لگاوے۔ آں۔۔۔ام کو یاد آیا وہ اور او ساہیوال سے امارا ایک ساتھی مصباح، مختیار دانش، مہتاب جکھرانی، کلثوم بوت دوسرا سواری نے بس میں اپنا اپنا سیٹ سنبھالا تھا۔ امارا دل بوت خوش ہوا۔

ام نے شونگال والا ڈرائیور سے حال حوال شروع کیا۔حال حوال کیا تو بھئی اس کا تو دل بھرا ہوا تھا۔گوادر والا تحریک کا قصہ کیا اور بولنے لگا، ”بابا یہ تحریکیں محریکیں ایک دن کا بات نئیں اے آلات پکتا اے پھر کدھری جا کر تحریک کامیاب ہوتا اے۔ اب ’حق دو‘ لے لیو۔ بچارا ماہی گیر کا سارا بستی سمندر سے دور پھینکا اور اس غریب لوگ کو ٹائم ٹیبل دیا گیا کہ اس وقت ماہی پکڑو۔ اور غیر ملکی بے بختوں کواللہ مارے ٹرالر لایا او سارا مچھلی کا نسل ختم کیا۔ادھر کا ٹریڈ یونین بھی تو کام کا نئی اے۔ آخر تنگ آکر زینب مائی نے ہمت کیا۔وللہ ایسا تحریک چلایا ایسا تحریک چلایا کہ تیس دن تک جاری را۔او تمارا زبان میں اس میڈیا بے بخت نے کوئی کوریج ای نئیں دیا۔ اس کا ڈر اور منافقت کا اندازہ لگاؤ۔اماراطبیعت خوش او گیا وللہ اس تحریک سے۔اڑے ے ے  بابا لوگوں کا خوف ختم او گیا۔“

اس پر امارا بھی دل ٹیٹ ہو گیا۔ ہم نے اس کا جان کو پکڑا کہ یارا مانگائی بوت ہے، یہ تبدیلی والا سرکار تو ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔ شونگال والا ڈاکٹر بولا، ”عمران اس لیے ناکام کہ اس کا کیپٹلزم ناکام اے۔ اڑے ناکامی ماکامی تین سال کا نئیں اے بابا ستر سال سے اے۔ معاشی حالات، بحران، بھوک، مہنگائی سے ام بے وس لوگ کا دھیان ہٹانے کا واسطے بے بخت ایسا سنسنی والا خبرے دے گا۔ شرمندگی …… شرمندگی اڑے بابا کس بات کا شرمندگی……؟ او اردو والا کیا بولے گا؟ آں تم تو چکنا گڑا ہے۔ تم پر کب اثر اوئے گا۔ او بھائی لوگ ام تم کو بتاوے مہنگائی کا تعلق اوئے گا معیشت سے اور معاشی نظام کا اوئے گا کیپٹلزم سے۔ بس تم کو کیا بولے آگے خود سوچ لگاؤ۔بس جس کا حکومت، ناکامی بھی اسی کا سیدا سیدا بات اے۔“

ڈریور سے حال حوال لے کر ہم آگے بڑھا۔ دیکھا تو ’16دسمبر سقوطِ ڈھاکہ‘ کا مساپر رؤف خان آگے بیٹا ہوا اے۔توڑا آگے اقصیٰ غرشین بھی موٹا شال پہنے اس مہینے کا سنگت بس  میں آ یا ہوا ہے۔ رؤف بھائی اپنا سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ ام اس کا پاس پہنچ گیا۔ وہ کوئٹہ کا سردی سے کانپ را تھا۔ایسا موٹا کوٹ پہنا تھا وللہ امارا  ہسی چْوٹ گیا۔ او بچارا ابھی تک پرانا غصے میں تھا بولا،”پاکستان جو ٹوٹا اے بھائی لوگ سخت استحصال کا وجہ سے ٹوٹا۔ مشرقی پاکستان کو سوشلزم کا نعرہ بازی سے ہٹا کر خود اقتدار پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔پاکستان میں تو اصل تاریخ کو بھی نئیں پڑایا جاتا“۔ ام نے اس مساپر کو بوت تسلی دیا کہ چْرت نئیں مارو بابا اللہ خیر کرے گا۔ او ام کو بھی غصے سے دیکھا بولا اتنا سال سے ام یہی بات سن را اے۔ کچھ نئیں بدلے گا۔

ام ڈر کرجلدی سے اگلا والا سیٹ پرمسعود الرحمان کا پاس جا کر بیٹھ گیا۔او تکمیل کا بات کرتا تھا۔ ایسا خوب صورت آواز میں گانے لگا ”تکمیل؛کہیں بہتے ہوئے انڈس میں میرا یہ ادھورا پن، ہے یوں تجھ میں، کہ تو مرا مدفن، میری آغوش میں تیرا ادھورا پن“۔ خانہ باد کا ایسا زخمی آواز تھا کہ مارا آنسو گرنے والا تھا۔اس واسطے کو ام ’غسان کنفانی‘ کا ساتھ سیٹ پر بیٹھنے کے لیے آگے بڑھا۔ پیچھے سے ام کو او درد بھرا آواز آتا را ’ادھوراپن یہ اپنے درمیاں سے، کاش یوں اٹھے‘۔ اس مسافر نے ام کو ایک نیا ادیب شاعر غسان کنعانی کا بتایا۔بولا، نظریہ اور فکر کا بغیر ادب کس کام کا؟۔اس نے بولا غسان ایک فلسطینی ادیب شاعر تھا۔ وہ خدا قسم خالی خولی لکھتا نئیں تھا او مزاحمتی لکھتا تھا۔ او بولتا تھا ناول نگاری اور سیاسی تحریک خدا قسم ہو جاوے ایک دوسرے سے جدا نئیں۔اس نے پانچ ناول اور بوت سارا کانیاں لکھا۔

اسی وقت یاراڈاکٹر مری نے ’کلات نیشنل پارٹی کچل دیا گیا‘کا درد ناک آواز لگایا او ارتقا بھائی امارا پاس آؤ امارا بھی غم میں شریک ہو جاؤ،آخر ام بھی تمھارا بلوچ بھائی اے۔ ام جلدی جلدی اٹھا،اس کا پاس گیا۔او کیا بولتا اے ’کلات نیشنل پارٹی کو توڑنے موڑنے میں خان بے بخت سردار او انگریز کا ساتھ ملا ہوا تھا، سچ بولے وے او تم لوگ کا زبان میں اس لوگ کا ٹٹو ہوئے گا۔ادھر کان لاؤ ام تم کو ایک بات بولے گا، اس کا وجہ یہ تھا کہ وہ بے بخت جیونی پر قبضہ کرنا مانگتا تھا جو پارٹی نے نئیں کرنے دیا۔ دوسرا وجہ سردار لوگ کو ٹیکس کا وصولی سے محروم کیا تھا۔ اس کابدلہ او پاگل لوگ نے لیا۔ مسلم لیگ کا شاخ بنا دیا۔ خدا مارے وے اس لوگ کو۔ڈاکٹرنے ام کو پارٹی کا رپورٹ بھی دیا۔ اس میں اتنا ضروری باتیں ام کیا بولے۔

پیچھے سے امارا کان میں زور زور سے رونے کا آواز آیا جیسا کوئی آدمی ہو جاوے عورت ہو جاوے، آگ پر چل را اے۔ ام جلدی کان میں انگلی ڈال کر اٹھا کہ اگلا سیٹ پر شان گل نے ام کو ہاتھ سے پکڑا اپنا پاس بٹھایا۔ اس کا آنسو گر را تھا۔ بولا،”امارا بلوچستان میں ’آس و آف‘ کا گندا رسم ابھی بھی چل را اے بلکہ سچ بولے وے کہ زیادہ او رہا ہے۔ اپنا آپ کو سچا ثابت کرنے کا واسطے لوگوں کوآگ میں سے گزارا جاتا ہے۔ اگر ملزم کا پاؤں میں چھالا پڑ گیا تو مجرم اور اگر کوئی اثر نئیں تو بے گناہ ثابت“۔اللہ کا مار ہوئے ایسا رسم پر اور ایسا رسم کرنے والا پر۔ امارا تو سانس بند او گیا یہ سب سن کر۔

ام جلدی سے اٹھا کہ ساتھ والا سیٹ سے کسی نے نعرہ لگایا ’جواب لیں گے‘ ہماری آنکھوں کے نیم وا سے، تاریک عدسوں میں، آج تک بھی ڈر کے موتی نئییں اگے ہیں …… امن پنچھی اڑا اڑا کے، وحشتوں کا حساب لیں گے“۔ جواب لیں گے‘ امارا و غم کم کر دیا اس نعرے نے۔ام بھی’جواب لیں گے‘ گاتا ہوا  اگلا سیٹ پر گیا۔ادھر کیا دیکھتا اے کہ ایک خوب صورت خاتون بوت اداس نظروں سے ام کو دیکھتا ہے۔اے بولتا اے ’امارا کشتی گیا کہ کنارہ گیا‘ ام نے پوچھا کیا او گیا خانہ باد ام کو بھی کوئی خبر وبر دیو۔ امارا بلوچستان میں اور مصیبتیں کیا کم اے تم سیلاب کا بات کر رہا اے۔ او خانہ باد کدھر گیا کشتی کدھر گیا کنارہ۔او یارا قاری ام بولتا اے کہ یہ یادیں آدمی کو کتنا خراب کرتا اے جب اپنا کوئی پیارا ہو جاوے اور ام سے دور او جا وے تو خدا کاقسم خانہ خراب ہو جاتا اے۔

او اپنا مصباح تھا اس نے ایک نیا شاعر سے ملوایا۔ ہاں نیا بولے گا نا کیوں ام تو نئیں جانتا تھا اس کو۔ملتان کا لوکیں فرتاش سید کا ایسا خوب صورت خاکہ سنایا ایسا خوب صورت خاکہ سنایا وللہ امارا دل ایسا باغ باغ او گیا۔ سچا بات اے شعر اچھا ڈالا تھا امارا دل کو لگاکیوں جوٹ بولے وے۔ سچ بولے وے اپنا نالائقی کو ام مانتے،ام کو فرتاش سید کا بارا میں پتہ نئیں تھا۔ایسا مزیدار جملہ بولا مصباح نوید نے، بولا ’چاہت بھی تو چند سرپھروں میں رہ جاتا اے ورنہ سجدے ہی ماتھوں سے تڑپتا ٹپکتا اے۔ صنم پتھر کے ہوں یا تصور کے ا س کا مینیوفیکچرر ان پر ایکسپائری ڈیٹ لکھنا بھول جاتا اے‘۔

ابی ام نے دیکھا آگے ضیاء شفیع،ارشد خانم او نبیلہ عصمت بیٹھا اے۔ سیٹی کا زوردار آواز کا ساتھ بس واپس چلا۔

ام شاہ محمد کا پاس گیا۔ او اپنا پاس سبز چائے ترماس میں لایا تھا۔ام کو بھی اس نے پیالہ بھرا۔ اور مجلس شروع کیا۔بولا؛ امارا سنگت یہ تبدیلی مبدیلی ایک دم سے خانہ باد کدھر آتا اے۔یہ تو مسلسل چھوٹا چھوٹا تبدیلی اوتا رہتا اے پھر کدھری آتا اے۔سماجی طور پر وللہ ایسا اچھا سمجھایا۔کیا بولتا اے؟ بولتا اے قدیم کمیونزم کا کوالٹی اور خصوصیت یہ تھا کہ ملکیت مشترک تھا، محنت بھی مشترک تھا اور اس کاحاصل شدہ پیداوار بھی مشترک تھا۔اور بھی ایسا اچھا اچھا بات کیا۔ کوانٹٹی اور کوالٹی کا پرق پر امارا سر خلاس کیا۔“  ایک تو ڈاکٹر نے اس باری بوت بات کیا۔ دوسرا سنگت جو بات نئیں کرتا، نازوانی کرتا اے۔یہ ڈاکٹربابا ایسا اچھا کامیں کرتا اے۔ او سکتا اے ام کو اچھا لگتا ہو۔ او یہ کہ بابا امارا پرانا بڑا لوگوں کا بارا میں او تم لوگوں کا زبان میں اپنا ’تحریریں‘ سنگت میں دیتا اے۔اس نے ام کو گرامچی کا زندگی کا بارہ میں بھی بتایا کہ او مارکسی نظریہ و فکر رکھتا تھا اور اٹلی کا کمیونسٹ پارٹی کا بانی بھی رہ چکا تھا۔ اس نے ام کو ہانی شہہ مرید کا قصہ شروع کیا کہ چاکر نے کس طرح شہہ مرید کا ساتھ دھوکا کر کے اپنا تاریخ پر کالا داغ لگایا۔

ابی ام ادھر سے اٹھا تاکہ اپنا سیٹ پر جا کر بیٹھے کہ سیف وطن نے ام کو آواز لگایا بولا ا’ذرا دیکھ کے چلو ا م بھی پڑا اے راہوں میں‘ سب ایسا زور دار قہقہہ لگایا۔ نجیب اور وصاف نے ہاتھ پر ہاتھ بھی مارا۔ ام کو بوت مزہ دیاوللہ۔ سیف بولا ’امارا بیوی بچارا نے ام کو پیسہ میسہ دیا کہ خانہ باد تمارا کوٹ پھٹا اے جا کر لیو۔ام نے بھائی لوگ پیسہ جیب میں ڈالا او ر کتابوں کا سیل جدھر لگا تھا ادھر جا کتابیں لے لیا۔ام گھر گیا بیوی نے کوٹ کا پوچھا اور امارا ہاتھ میں کتاب دیکھا بے بس چپ او گیا‘ ام کو اس کا یہ بات بوت اچھا لگا۔

ایک اور مسافر بھائی ضیاء اللہ نے بھی ام کو عابد میر کا کتاب ’وفا کا موتی‘ کا بارہ میں میں بتایا کہ بوت اچھا کتاب اے۔اس میں ادیب، شاعر اور سیاست دانوں کا مشہور والا کا محبت کا خط اے جو اس دوست لوگو نے اپنا محبوب کو لکھا اے۔ بوت اچھا اے ام سارا سنگت کو بولتا اے ضرور پڑو‘۔

ام بھی تک گیا پورا بس کا چکر لگا لگا کر۔ سوچ لگایا توڑا اپنا کتاب پچار کا سنگتو کا پاس بیٹھ جاوے۔ام نے ادھر بیٹھ کر سارا مسافروں کو  سبطِ حسن کا کتاب موسیٰ سے مارکس تک کا قصہ سنایا۔ بتایاکہ اصل میں موسیٰ سے مارکس تک سوشلزم کا تاریخ اور ارتقا کا حوال اے۔مختلف دور میں انسانی معاشرہ کا نظام، معاشی ضروریات اور ان کے واسطے اپنایا گیا اشتراکی نظام کا ارتقا بیان کیا اے۔

ارشد خانم نے نجیب جمال کا بارے میں حال سنایا۔ام کو سن کر بوت مزہ آیا۔ یہ بندہ ام کو اپنا اپنا سا لگا۔

نبیلہ عصمت اپنا سیٹ سے بولنے لگ پڑا۔ او مصباح نوید کا کتاب چندن راکھ کا بارہ میں بولا۔اچھا بولا لیکن یار لوگ توڑا بولا۔امارا سیری نئیں ہوا۔

یارا کوئٹہ کا سردی بوت بڑھ گیا اے۔ آخر جنوری اے۔سب وختی گھریں بند کر لیتا اے، روڈیں موڈیں خالی ہوتا ہے۔ ام کو پرانا زمانہ کا کوئلہ کا سٹوپ یاد آتا اے۔ جیسا جیسا سردی بڑھتاجاتا اے ام کو قصے کہانیاں پڑھنے کا شوق ہو جاتا اے۔ام سنگت بس کا قصہ والا پورشن میں چلا گیا۔ ادھر تین ساتھی بیٹھا تھا۔ نبیلہ کیانی بین نے ام کو عورت کا احساس کرنے والا اچھا آدمی کا قصہ کیا۔او نرم دل کا پھول، خوشبو سے پیار کرنے والا آدمی تھا۔ عورت کا سارا کامیں بوت خوشی سے کرتا تھا۔اور آدمیوں کا موافق انسان مانتا تھا۔ ام کو بوت اچھا لگا۔مہتاب جکھرانی نے ام کو بلوچی میں قصہ کیا امارا جو سمجھ لگا،اچھا تھا۔مختار دانش بھائی نے ام کو جو قصہ کیا ام کو ایسا مزہ دیا خدا قسم پوچھو مت۔ امارا وطن میں بوت غریب لوگ مزدور لوگ کا قصہ تھا جو محنت مزدوری کرتا تھا اپنا خاندان کا واسطے خوار تھا۔ اپنا محبوبہ منگیتر کا یاد میں سارا دن مزدوری کرتا تھا۔ توڑا بوت کمایا۔اپنا پیارو کا واسطے چیزیں میزیں لیا اور راستے میں بے بخت حادثہ میں مر گیا۔ ام غریب لوگ کا کیا زندگی اے غمو میں غریبی میں پھسا اے۔ امکو مختار بھائی کا اس بات رلایا ”کتا آازد اے بابا…… آزاد اے کتا لوگ“۔

نجیب سائر اور کلثوم بلوچ جو ابھی توڑا دیر پہلے بس میں چڑھا تھا، حال احوال کیا سب سے۔ تم کیوں ہنسے گا ام سچ بات کر رہا اے۔نجیب نے پوہ زانت کا رپورٹ دیا او دوسرا سنگت کلثوم نے سنڈے پارٹی کا حوال دیا۔

ام کو ایسا لگتا اے ام نے بھائی بہن کو بور کر دیا۔ سچ بتانا تم کو خدا کاقسم اے۔ خیر اے چْرت نئیں مارو ام ابھی شاعری مائری کا بات بھی کرے گا۔ایسا نامی شاعر بیٹھا اے امارا بس میں:

ڈاکٹر منیر ایسا ایسا شعریں بولتے آدمی دنگ رہ جاوے۔

پیار کا رت عجیب اے جس میں …… ایک چہرہ جہان بھرتا اے

اووووو منیر بھائی قسم خدا غا اوستِ کنا ٹپی مرے۔

ابھی وصاف کا سنوکیا بولتا اے۔۔۔۔

وجد اے دیوانگی اے رقص اے…… وحشتوں کا سلسلہ موجود اے

ابھی خود بولو اچھا ہے کہ نئیں۔ابھی کدھری جاؤ نیئں نا، بیٹھو ام تم کوڈاکٹر فوقیہ سے ملاتا اے۔ اس کا نظم ’شاید اسکو ٹی بی اے‘ سنو۔اس گھر کا بے ترتیبی،ناامیدی اور کیا بولے وے اداسی، اور مایوسی، اور محرومی اور تاریکی، جیسے امارا پورا دیس میں پھیلا او۔ بوت اچھا نظم تھا۔احفاظ الرحمان نے ’یادیں کہاں جاتا اے‘ سنایا۔ بوت مزہ دیا۔ لیکن امارا خیال اے اگر اس کاجگہ پر پروفیسر مسعود الرحمان کا سیٹ اوتا۔ او سکتا ام غلط بول رہا اوے تم بڑا لوگ اے ام سے اچھا سوچ لگاتا اے۔ دوسرا سنگت حشمت لودھی،رؤف قیصرانی، قمر ساجد فاطمہ مہرو، رخشندہ نوید، صفدر صدیق نے بوت اچھا شعریں میریں سنایا۔

ام آخر میں ایک بات کرے گا بھائی لوگ ناراض نئیں ہو جاؤ۔ امارا سٹاپ نزدیک اے۔ اپنا بات کرے گا اتر جائے گا۔ تو ام بول رہا تھا امارا کچھ سنگت بین بھائی توڑا شارٹ مارٹ اے ماہتاک سنگت سے۔ام پہلے بھی ایک واری بولا تھا۔ایک واری پھر بولتا اے تم لوگ تو بوت اچھا لکھتا اے۔ توڑا ٹیم میم نکالو، لکھو۔ ام کو لکھنا آتا خدا قسم ہو جاوے ام اتنا بوت لکھتا۔ایسا نئیں کرو ام بھی تم سے کچھ سیکھے وے۔ابھی دیکھو بس میں تم سنگت لوگ کا سیٹ خالی اے۔خالی بس جھٹکے مٹکے بھی بوت لیتا اے۔ سمجھو بھائی لوگ امارا خیال کرو۔ بھائی او جاؤ۔

او ڈریور بھائی ای چاندنی چوک پر بریک دیو ام اترے گا۔

سب سنگتو کو روش وَش۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے