شہرسورج کا ہوں

بحرو برکی سبھی وسعتیں

مجھ سے منسوب ہیں

گوات کا در ہوں میں

دور نزدیک

ہراک کوازبرہوں میں

مجھ کو اپنوں سے دوری کی

دے کر سزا

کبھی بیچاگیا پھرخریداگیا

پر مری چاہتوں میں

کوئی فرق آیا نہیں

گیت گاتا رہاگنگناتا رہا

ساحلوں،کشتیوں پانیوں پر

صبح شام جیون بتاتا رہا

 

 

شہرسوج کا ہوں

پریہاں

نیلگوں پانیوں سے مری دوستی

جینے مرنے کا سامان ہے

ساحلوں پرچمکتی ہوئی ریت پر

لیلڑی کے لئے گیت گاتے ہوئے

رقص کرتے ہوئے گنگناتے ہوئے

خود میں سرشار تھا

تیز موجوں سے لڑنا مرا کام تھا

زندگی کو برتنا مرا کام تھا

شام کے سائے جب ساحلوں پر

مری کشتیاں تھامتیں

ناکو لالہ کے ساتھ

شنبے ہانْل کے ساتھ

ھالو ھالو کے گیت روزگاتاتھا میں

زندگی کو لبھاتا تھا میں؛؛

 

 

شہرسورج کا ہوں

ساحلوں کشتیوں ریت پر

پرندوں کی چہکار سے

سیپ موتی کی مہکار سے

گنگناتی فضا

رْخ بدلنے لگی

دیو قامت مشینوں نے

سب راستوں کو مقفل کیا

میں سمٹنے لگااور گھٹنے لگا

سوگ کا روگ کا سامناہوگیا

جو شناسے تھے ناآشناہو گئے

اپنے ہی گھر میں

میں اجنبی ہوگیا

آس بکنے لگی؛خْواب بکنے لگے

میں تماشا بنا دیکھتا ہی رہا

کشتیاں ساحلوں پر کھڑی زنگ آلود ہونے لگیں

بھوک بڑھنے لگی پیاس بڑھنے لگی

گوات کے در میں اب سانس گھٹنے لگا۔۔۔۔۔۔۔دم نکلنے لگا

شہر سورج کا

اب مصنوعی روشنی کی نظرہوگیا

درد دکھ بے بسی اور آہیں ملیں

بولنے سوچنے روکنے پرسزائیں ملیں

 

 

شہرسورج کا

پھر

روشنی آگہی زندگی کے لئے

بزم سے رزم سے

اک نئے عزم سے

ایک انبوہ کی صورت نگل آیاہے

اپنے پرکھوں کی صورت سنبھل آیا ہے

زندگی کے لئے

…….  روشنی کے لئے

آکہی کے لئے!!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے