پارٹی پر خان کلات کے جان لیوا حملے کے بعد کلات نیشنل پارٹی کی ہائی کمان نے فیصلہ کیا کہ پارٹی کے تمام ممبران خان ِ کلات کی نوکریوں سے استعفے دیں۔ اور میدان عمل میں نکل آئیں۔ ان کی تعداد دو تین سو کے لگ بھگ تھی۔ پارٹی کے اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے بذریعہ تار استعفے بھجوائے گئے۔پارٹی خاموش نہ رہی بلکہ اس نے سرداروں کی سفا کی، اور خان کلات کی اُن کی پشت پناہی کرنے کی مذمت کی۔ اور اس سارے فاشزم کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔
اسی موقع پر تو میر گل خان نصیر نے خان ِ کلات احمد یار خان کے بارے میں لکھا:
بیا کہ شولہ برافروخت آتش ِ نمرود
شہ بلوچ، پریشان و آستیں آلود
نہالِ حریت ازدستِ نا کساں برکند
پہ خسرویست نہ داند بجز رکوع و سجود
تب ریاستِ کلات سے جلاوطن کردہ قیادت نے پارٹی کا ہیڈ کوارٹر کوئٹہ منتقل کردیا۔ کوئٹہ اس لیے کہ اُسے خان سے انگریز نے چھین رکھا تھا، اور وہاں اُس وقت خان کے نہیں بلکہ انگریز کے قوانین نافذ تھے۔ چونکہ کوئٹہ میں خان کلات کی جاری کردہ سیاست پہ پابندیوں کا حکم نہیں چلتا تھااس لیے کلات نیشنل پارٹی نے وہاں کوئٹہ سے اپنی سر گرمیاں جاری رکھیں۔
ایک دوسری بات یہ ہوئی کہ گوکہ پہلے بھی بالواسطہ طور پر ایسا تھا،مگر اب انجمنِ وطن اور کلات نیشنل پارٹی مل کر کام کرنے لگے۔
مگرایک اور بدقسمتی سیاست اور سیاسی عمل پہ آنے والی تھی۔ وہ یہ کہ اسی دوران دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔ برطانیہ بھی اس جنگ میں شامل تھا۔ اس لیے وہ اب ساری توجہ جنگ جیتنے پہ مرکوز رکھنا چاہتا تھا۔ لہذا اُس نے اپنی اِس کالونی میں سیاست اور سیاسی سر گرمیوں پرپابندی لگا دی۔ چنانچہ اب نیشنل پارٹی نہ ریاستِ کلات میں کام کر سکتی تھی اور نہ برطانوی کنٹرول والے بلوچستان میں۔تو راستہ کیا بچا تھا؟۔ایک بار پھر خفیہ طور پر سیاسی سرگرمیاں کرنا۔ لہٰذا اب نیشنل پارٹی انڈر گراؤنڈ ہوگئی۔
سیاست نہ ہونا، سیاسی سرگرمیاں نہ ہونا، اور نیشنل پارٹی کا نہ ہونا سرکار کے لیے عید تھی۔خان اور انگریزکی ایک بڑی سردردی دور ہوگئی۔
مگر تابہ کئے؟۔دوبارہ ایسی قوت ابھرنے کے امکانات تو موجود تھے۔ اس لیے ایک ایسے بڑے وار کی ضرورت تھی جس سے کہ بلوچ کی کمر ٹوٹ جاتی۔۔۔ اور انگریز نے ایسا ہی کیا۔ اُس نے لسبیلہ کو متحدہ بلوچ مرکز‘ کلات سے کاٹ کر اسے الگ ریاست بنادیا۔ اور یہ اقدام اس کو ہضم بھی ہوگیا۔ اس لیے کہ لسبیلہ میں نیشنل پارٹی کی جڑیں ہی نہ تھیں۔وہاں تو عرصے سے ایک بہت ہی سخت گیر فیوڈل حکمرانی نے انسانوں کی زندگیاں جانوروں کی بنا رکھی تھیں۔ کوئی سیاسی شعور،آرگنائزیشن اور عوامی لیڈر شپ موجود نہ تھی۔نہ تب، نہ اب۔
بدقسمتی دیکھیے کہ آج بلوچستان کی تقریباً پوری انڈسٹری وہاں ہے۔ وہاں یونیورسٹی ہے، سمندر وساحل ہیں۔ اچھی خاصی زراعت ہے۔ وہ میٹروپولٹن شہر کراچی سے متصل علاقہ ہے۔ مگر وہاں سیاست موجود نہیں ہے، سیاسی سرگرمیاں نہیں ہیں، سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں۔ نہ قوم پرست نہ ملّا، نہ بورژوا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ، اور نہ ہی کوئی انقلابی پارٹی۔بس بھوتار اور آقا،وائسرائے کی مرضی سے نام نہاد الیکشن جیت جاتے ہیں، حکمران پارٹی سے چپک جاتے ہیں اور پھر ریاستی زور سے اپنے مفتوحہ علاقے میں سیاست کے دخل کو روکتے ہیں۔
چنانچہ ایک بے سیاست اور سامراج دشمنی کی کمزور ترین کڑی کو کامیابی کے ساتھ کلات سے کاٹ دیا گیا۔
بعد میں انگریز نے یہی کھیل دوسرے کنفیڈریٹنگ یونٹس سے بھی کھیلنا چاہا۔ اُس کا خیال تھا کہ اگلا آسان شکار خاران ہوگا۔ چنانچہ اُس نے خاران کو علیحدہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
مگر، 25اگست1941 کو نیشنل پارٹی نے برطانوی سرکار کے خاران کو علیحدہ ریاست میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر شدید احتجاج کیا۔ پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات بابو عبدالکریم امن نے ایک اہم پمفلٹ لکھا۔ایسا پمفلٹ جو ابد تک بلوچوں کے لیے ایک منشور کا کام دیتا رہے گا۔ اسے ضمیمہ میں لے جانے کے بجائے یہاں متن میں شامل کرنا اس کی بے حد اہمیت کا ثبوت ہے:
”جس طرح کہ ایک انسانی جسم میں سے کسی ایک عضو کو کاٹ کر اس کو جسم کے دوسرے اعضاء سے علیحدہ کیا جائے تو لازمی ہے کہ اس عضو کے علیحدہ ہونے کی صورت میں اس کو جسم کے کسی اور عضو کے چوٹ کھانے یا لگنے پر درد اور بے چینی محسوس نہ ہوگی۔ کیونکہ جب اس کا سلسلہِ ربط و تعلق ہی توڑا گیا تو اس کو چوٹ کھائے ہوئے عضو کی بے چینی اور درد کیونکر محسوس ہو۔ بالکل اسی طرح جب سے کہ متحدہ ہندوستان علیحدہ علیحدہ ریاستوں اور چھوٹی چھوٹی راجدھانیوں کے نظام ہائے حکومت ایک دوسرے کے نظام حکومت سے مختلف صورت اختیار کرچکے ہیں تو اس قطع و برید اور ردوبدل کا لازمی نتیجہ یہی ہوا کہ ان ریاستوں میں رہنے والے باشندے نہ صرف علیحدہ ہوکر ایک دوسرے کے دکھ اور درد میں ہمیشہ کے لیے شریک نہیں ہوسکے ہیں۔بلکہ وہ برطانوی ہند کے تغیر پذیر حالات او ر باشندوں کے دکھ درد سے بھی ناآشنا و بیگانہ چلے آرہے ہیں جیسے کہ ہم ہندوستان میں ریاستوں کی بنیاد پڑنے کے وقت کی تاریخ او رواقعات سے اندازہ لگاسکتے ہیں۔ کسی اور مثال کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔ ہم برطانوی ہند کے باشندوں کی مثال کو سامنے رکھ کر اچھی طرح دیکھیں کہ انہوں نے اپنے ایکے اور متحد رہنے کی بدولت نہ صرف ہندوستانی ریاستوں کے باشندوں سے مقابلتاً بہت سی مراعات حاصل کی ہیں۔ بلکہ انہیں ایک دوسرے کی تکالیف اور مصائب کا بھی پورا پورا احساس رہا ہے۔ چنانچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر پنجاب کے برطانوی علاقہ کے باشندے کبھی کسی دکھ میں مبتلا ہوئے ہیں یا انہوں نے کسی تکلیف کے پیش نظر کوئی مطالبہ کیا ہے تو ضرور اس کا احساس مدراس کے باشندوں کو ہوا ہے۔ اور انہوں نے پنجاب کے باشندوں کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح سے بنگال کے باشندے اگر کسی مصیبت میں پڑے ہیں تو برطانوی سندھ کے باشندے اس تکلیف سے بے چین ہوئے ہیں۔ یہ فرضی مثال نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی ہمیں سکھاتی ہے کہ سارا ہندوستان جس میں ریاستیں بھی شامل ہیں ایک جسم ہے اور اس میں رہنے والے سارے باشندے اس کے اعضا۔ اس موٹے اصول اور نظریہ کے پیشِ نظر جبکہ ہم سارے ہندوستان کو ریاستوں سمیت ایک متحد لڑی میں پروکر آزاد وخودمختار دیکھنے کے آرزو مند ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ خاران اور مکران یا جھالاوان کی ریاستِ کلات سے علیحدہ ریاستوں کی شکل میں ہم کیسے اور کیونکر جدا دیکھ سکتے ہیں اور یا اپنے خارانی اورمکرانی بلوچ بھائیوں سے اپنے برادرانہ تعلقات کو ہمیشہ کے لیے کیسے منقطع کرسکتے ہیں۔فرض کرو آج خاران میں ایک چھوٹے رقبہ کا علاقہ جس کا کل رقبہ اٹھارہ ہزار مربع میل اور آبادی تیس ہزار اور آمدنی ایک لاکھ کے قریب ہے وہ خود ایک ریاست کی پوزیشن حاصل کرلیتا ہے تو خاران کے علیحدہ ہونے اور ایک علیحدہ ریاست کی پوزیشن حاصل کرنے کی نظیر کو سامنے رکھ کر کل کو اس سے یہ امکان نہیں ہوسکتا ہے کہ نواب بائی خان بھی یہ کہہ کر مکران کو ایک علیحدہ ریاست بنانے کی مہم شروع کردے کہ جس صورت میں خاران ایک چھوٹے رقبہ کا علاقہ ایک علیحدہ ریاست بن سکتا ہے تو مکران جس کا رقبہ خاران سے بڑا ہے اور آبادی بھی تگنی‘ آمدنی بھی زیادہ۔ علاوہ اس کے‘تجارتی بندرگاہ بھی رکھتا ہے کیسے ایک علیحدہ ریاست کی پوزیشن حاصل نہ کرے۔ جہاں تک میری اطلاعات کا تعلق ہے مکران میں بھی یہ شوشہ اٹھایا گیا ہے۔ ممکن ہے اور خدا کرے کہ غلط ہو۔ بہت ممکن ہے کہ جہلاوان کے سردار صاحبان بھی خاران اور مکران کی دیکھا دیکھی اپنی علیحدہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی جدوجہد شروع کردیں۔کیا پھر اس افراتفری او رریاست گردی کا یہ نتیجہ نہ ہوگا کہ ریاست کلات جو موجودہ وقت (اگرچہ صحیح معنوں میں نہیں) ایک رہا سہا بلوچی محاذ کا نام ہے اور وقت آنے پر ہم اسی محاذ کے نام پر متحدہ بلوچی محاذ قائم کرسکتے ہیں چھ ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر ہمارا بلوچی شیرازہ ہمیشہ کے لیے تار تار ہوجاوے۔ اگر یہی لیل و نہار رہے تو اس بلوچی شیرازہ کا بکھر جانا ضروری اور یقینی ہے۔ گوکہ ریاست کلات کی موجودہ بد نظمی اور ناعاقبت اندیشی سے مجھے انکار نہیں ہوسکتا اور کہ اسی ناعاقبت اندیشی اور بدنظمی ان غلط کار مشیروں کے ان غلط مشوروں جن سے متاثر ہوکر خاران کے نہتے باشندوں پر حملہ کیا گیا‘ کی بدولت آج یہ نامسعود صورت حالات درپیش ہوئی ہے۔
مگر کیا انصاف اور دور اندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم حکومت کلات کی موجودہ بدنظمیوں اور غیر مآل اندیشانہ روش کو دور کرنے کے بجائے اور غفلت کے مرتکب ہوجائیں جو ابدالابداد ہماری ذلت و افتراق کے اسباب لیے ہوئے ہو۔ میر ے خیال میں بلکہ ہماری بلوچی شان او رروایات کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنے کردار و عمل سے حکومتِ کلات کی موجودہ بدنظمیوں اور غلط روشانہ خامیوں کو دور کریں۔ اور بلوچ قوم کے سارے منتشر عناصر کو اتحاد و برادری کی ایک لڑی میں پرونے کے لیے اپنی جدوجہد شروع کردیں۔
”اس کے علاوہ آج جب کہ دنیا کی صورتِ حالات ہی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم سوائے ایک ہونے اور متحد رہنے کے زندہ نہیں رہ سکتے تو ایک ایسے نازک مرحلے پر اس سے بڑھ کر ہماری غیر مآل اندیشی اور غفلت کیا ہوسکتی ہے کہ خاران کے بلوچ بھائی جہلاوان اور ریاست کلات کے دوسرے باشندوں سے یا مکران جہلاوان کے بلوچ بھائی خاران اور ریاست کے دوسرے باشندوں سے بیگانوں کی طرح الگ رہیں اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے غم و شادی میں شریک نہ ہوں۔
”آج سب سے ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست کلات کے تمام بلوچ ہی نہ صرف اپنے جہلاوانی اور مکرانی نیز سراوانی وغیرہ سردار صاحبان کو متحدہ صورت میں یہ کہہ کر آگاہ کریں کہ موجودہ بین الاقوامی پیدا شدہ نازک صورت حالات کے پیش نظر یہ امر کسی طرح قرینِ مصلحت نہیں ہوسکتا کہ مکرانی یا جہلاوانی بھائی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جدا جدا مسجدیں بنائیں اور ہمیشہ کے لیے بلوچ قوم کے افتراق کے باعث بنے رہیں۔ بلکہ حکومت انگریزی جس کے حکم سے خاران جو حال ہی میں اور لسبیلہ جو اس سے پہلے ریاست کلات سے کٹ کر علیحدہ علیحدہ ریاستوں میں تقسیم ہوئے ہیں، سے پرامن اور آئین کے اندر رہ کر ریاست کے کونے کونے میں جلسے کرکے مطالبہ کریں کہ وہ خاران اور لسبیلہ کو ریاست کلات کی طوائف الملوکی اور ریاست گردی کے دور دورہ کو ختم کرے گی اور ریاست کلات کے غریب باشندوں کو اپنی ترقی کا موقع دے گی۔
اے کے۔ ابو الانقلاب بلوچستان
(بابو عبدالکریم امن)“
***
اِس درمیان اور بھی بہت سے واقعات ہوتے رہے۔ 1939میں قاضی عیسیٰ نے مسلم لیگ کی شاخ کوئٹہ میں قائم کی۔ یہ شاخوں کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ اس خطے میں سیاست کے سب سے بڑے درخت (بلوچستان)میں کسی بے ثمر پارٹی کی شاخ قائم کرنے کا چلن سو سال سے جاری ہے۔ جن پارٹیوں تنظیموں کی جڑ پوری دنیا میں موجود نہیں وہ بھی اپنی شاخ بلوچستان میں قائم کرنی چاہتی ہیں۔ چنانچہ مسلم لیگ جو کہیں بھی نہ تھی۔ بلوچستان میں ایک شاخ قائم کرچکی۔ اخوندزادہ عبدالعلی اس میں تھے، پیسہ خان کلات احمد یار کا۔ نواب، سیٹھ، بے پیندے والے دانشور۔جناح صاحب نے ٹھیک کہا تھا۔ اُس کی جیب ہی ایسی تھی کہ کھوٹے سکے بے دھڑک اس میں داخل ہوجاتے تھے۔
۔1943میں قائد اعظم بلوچستان آتے ہیں، کلات میں خان کا مہمان بنتے ہیں اور خان اُس کی تصور سے بھی بڑھ کر مالی مدد کرتا ہے۔