چلتے چلتے کیسے موڑ پہ آنکلی ہوں

شہرِ جبر کے ان سنگین حصاروں سے باہر آئی تو

دل کو کیسی خوش فہمی تھی

میرے ساتھی یہ سمجھے تھے

ہم منزل تک آپہنچے ہیں

لیکن اب تو سارا چہرہ دھول ہوا ہے

سر پر خاک ہے

پاؤں کے چھالے اب تو دل تک آپہنچے ہیں

 

میری ماں کے شانوں پر بوسیدہ چادر

بکل مار کے  خاموشی سے بیٹھ گئی ہے

میرے باپ کی نابینا آنکھوں میں پھیلی تاریکی بھی

کالی رات سے خوف زدہ ہے

میرے بیٹے نے کل اک تتلی پکڑی تھی

لیکن مٹھی کی گرمی سے اُس کے پر بھی جھلس گئے ہیں

اور مری بیٹی تو اب تک

پیچھے مڑ کر دیکھ رہی ہے

شاید اُس کی گڑیا کوئی واپس لادے

میرے سر کا تاج تو پہلے ہی شعلوں میں پگھل چکا ہے

 

چلتے چلتے کیسے موڑ پہ آنکلی ہوں

سامنے ایک گھنا جنگل ہے

اور جنگل میں

کتنی ہی تاریک گپھائیں میرا رستا دیکھ رہی ہیں

 

جنگل بھی ہے  حمبابا کا

حمبابا ، جو ایک مہا ساونت ہے شاید

کتنے ہی بہروپ بدل کر

حمبابا ، جو چھوٹے اور معصوم پرندوں کے پر نوچ کے رکھ دیتا ہے

آنکھوں کی وادی میں پھیلا منظر نوچ کے رکھ دیتا ہے

 

سوچ رہی ہوں

کب تہذیب مناروں سے آوازیں دے گی

کوئی کہاں تک پُر وائی کو قتل کرے گا

رات کا لشکر آخر کب تک

بینائی کو قتل  کرے گا

سوچ رہی ہوں

گلگامش  اور ان کیدو تم کب آؤگے؟

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے