اوئی اللہ! شمع خالہ چئیں چھوڑ، اچھل کر سفید چادر پر کھڑی ہوگئیں۔ وہ دیکھو اُس طرف! اُدھر!مواتمام باپردہ عورتوں کے سامنے سے دندنا تا ہوا گیا ہے۔ یہ لمبی کڑک مونچھیں، گھورتی آنکھیں، کالا کلوٹا۔۔ تو بہ توبہ۔۔ گھن آرہی ہے مجھے۔ اب تو تمہارے گھر کا پانی بھی حرام ہے مجھ پر صغریٰ۔۔ کہہ دیا میں نے۔۔ چلو پاک بیبیو۔۔ ٹُکر ٹُکر میرا منہ کیا دیکھتی ہو۔ اٹھاؤ اپنے برقعے اور نکلو یہاں سے۔ غلاظت کی انتہا ہے۔۔ دن دیہاڑے چوہے چھپکلیاں سینہ تانے گزر رہے ہیں اور یہ چلیں آیت کریمہ کا ورد کروانے“۔ شمع خالہ چل پڑیں۔

”بڑا جلالی وظیفہ ہوتا ہے۔ اس میں ناپاکی کہاں چلتی ہے بہن۔۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں شمع خالہ“۔ میری والدہ جو شمع خالہ کی خاص مُرید تھیں، فوراً اُن کی پیروی میں کھڑی ہوگئیں۔ میں نے امی کی آستین کھینچی ”امی! امی! رک جائیں ناں۔۔ ریحانہ بتا رہی تھی کہ بشریٰ باجی نے دہی بڑے اور بھجیئے تلے ہیں۔ بالو شاہی بھی ملے گی چائے کے ساتھ، کھا کر چلتے ہیں ناں! بس دعا ہی تو ہونے والی ہے“۔ امی نے جھڑک کر مجھے پیچھے دھکا دیا اور شمع خالہ کی چپلیں تلاش کرنے لگیں، کہ کوئی اور عورت یہ سعادت نہ حاسل کرلے۔

آن کی آن میں پاکیزہ ماحول میدانِ حشر میں تبدیل ہوگیا۔ سلمیٰ نے بچے کے منہ میں چُسنی گھسائی، جو چپ ہوکے نہیں دے رہا تھا اور چلنے کے لیے پوتڑوں سے بھرا بھاری پرس اٹھالیا۔ مہر خالہ جو کہ بہری تھیں اور ”بہری مہر“ کی عرفیت سے مشہور تھیں، حالات سے بے بہرہ آنکھیں موندے مسلسل چئیوں پر ”لااِلہِ الا انت“ باآواز بلند پرھے جارہی تھیں۔ انہیں قیصر آپا نے جھنجوڑ کر حالات کی سنگینی کا احساس دلایا۔ وہ اٹھ کھڑی تو ہوئیں لیکن چائے کے انتظا رمیں اُن کا سردرد سے پھٹا جارہا تھا۔ شمع خالہ کے غیض وغضب سے سب واقف تھیں، ناچار اُن کے فوجی دستے میں شامل ہو کر بنا کھائے پئے سب کی سب پاکیزہ بیبیاں باہر کی طرف چل پڑیں۔ آناً فاناً صغری باجی کا بڑا سا ہال خالی ہوگیا۔ جہاں دو  دن سے اس جلالی وظیفے کے ورد کی تیاریاں تھیں۔ صوفے برابر میں جگنو چچی کے ہاں رکھوائے گئے تھے۔ دریاں، چاندنیاں حاجی صاحب کے ہاں اور چئیوں کے تھیلے محلے کی طیبہ مسجد سے شاکر دوڑ کر لے آیا تھا۔ دراصل صغریٰ خالہ کی اکلوتی بیٹی بشریٰ کا رشتہ کسی طور ہو کے نہ دے رہا تھا۔ عمر تیس سے اوپر تھی مگر اماں کے ڈر سے وہ بیچاری بیس سے آگے کا نہ بتا پاتیں۔ کسی نے کہہ ڈالا کہ بشری پر بندش ہے، سوا لاکھ مرتبہ، یہ وظیفہ ایک ہی نشست میں پڑھنے سے پہاڑ جیسی رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں، بشریٰ کا رشتہ کیا چیز ہے۔ استخارے میں بھی اچھی علامات آئی تھیں۔ دو دن لگا کر ساری صفائیاں ماں بیٹی نے مل کر کی تھیں، مگر خدا جانے وہ نامراد چوہا وہاں کیوں رستہ بھول پڑا اور مردود  آبھی گیا تھا تو شمع خالہ کی عقابی نظروں میں کیوں آمرا؟ صغریٰ خالہ بڑ بڑاتی ہوئی نم آنکھوں سے سب کے حصے تام چینی کی رکابیوں میں نکال رہی تھیں۔

”عالیہ! یہ رضیہ چچی، یہ کڑی پتے والی خالہ، یہ لنگڑے فیض کی اماں، یہ حاجی صاحب کے، یہ رشیدہ ماجدہ کے ہاں اور یہ تمہارے گھر جائے گا بیٹا۔ ٹرے سنبھال کر لے جانا اور پلیٹیں ہاتھ کے ہاتھ واپس لے آنا“۔ بے چاری بہت ملول تھیں۔ انہیں صاف طور نظر آگیا تھا کہ اب بشریٰ کی ڈولی کبھی نہیں اٹھے گی۔ اب تو وہ کسی رنڈ وے اور دو ہاجو کے لیے ذہن بنا چکی تھیں مگر ہائے وہ کم بخت چوہا۔ جس نے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔

خالہ! پہلے میرا حصہ الگ نکال دیں، مجھے تو بہت بھوک لگ رہی ہے۔ سکول سے آکر میں نے ہوم ورک بھی نہیں کیا تھا، کھانا بھی نہیں کھایا کہ امی مجھے آیت کریمہ پڑھنے یہاں لے آئیں۔ آپی اور بجو کے دن چھوٹ رہے ناں“ میں نے ندیدے پن سے اُنہیں ضرورت سے زیادہ تفصیل سنا ڈالی۔ ابھی گھر جا کر ”سر سید احمد خان، پر پورے تین صفحات کا مضمون بھی لکھنا ہے وہ بھی انگلش میں“۔چھوٹی چوکی پر بیٹھ کر وہی بڑے ہڑپتے ہوئے میں نے دیکھا کہ بشریٰ باجی رو رہی تھیں۔ سفید چاندنی لپیٹتے ہوئے، سفید دو پٹے میں وہ ایک دم بیوہ لگ رہی تھیں۔ انیسہ خالہ کی طرح، جن کے شوہر اکہتر کی جنگ میں مر گئے تھے۔ بشریٰ باجی کی شکل صورت بھی بس عام سی اور رنگ خاصا دبتا ہوا تھا اُن کا۔ جسم اور خاص کر سینہ تو خاصا بھاری تھا۔ عجیب بے ڈول سی تھیں، آگے تھل تھل کر تا پیٹ بھی تھا۔ پتہ نہیں ان آپاؤں کو شادی کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے۔ مجھے تو زہر لگتے ہیں سب لڑکے۔ ان کے پاس سے سڑی بد بو آتی ہے اور چھچورے الگ۔ بہانے بہانے سے ہاتھ لگاتے ہیں، فضول گانے گاتے ہیں، پان چبا کر سگریٹ پیتے ہیں اور خود کو ہیرو سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی میری جان تو بس عنبر مین اٹکی تھی، جو میری سب سے عزیز اور پکی سہیلی تھی۔ ہم دونوں ایک ہی کلاس، ایک سیکشن اور ایک ہی محلے یعنی کہ لالو کھیت میں رہتے تھے۔ آج وہ اپنی نانی کے ہاں ملیر گئی ہوئی تھی، اس لیے نہیں آسکی تھی۔  میں نے صغریٰ خالہ سے پوچھ کر دوبالو شاہی اُس کے لیے بھی اخبار کے کاغذ میں باندھ لیں اور ٹرے اٹھا کر باہر چل پڑی۔

***

شمع خالہ کی اس محلے میں بڑی اونچی ناک تھی۔ کیونکہ دو منزلہ پکے مکان کی وہ مالکن تھیں، جس کی چھت آرسی سی کی تھی۔ صفائی کی تو خبطن تھیں۔ ہر وقت ہاتھ میں جھاڑو، یا پانی کی بالٹی ہوتی۔ ذرا عمر بڑھی تو ایک یتیم بھانجی ذاکرہ گھر لے آئیں۔ روز انہ موٹر لگا کر صحن کا پکا فرش دھونا، برتن راکھ سے مانجھ کر، ٹوکرے میں ڈال کر، صحن میں دھوپ دکھانا، پھر اُن کو واپس سجانا اُس غریب ہی کا حق تھا۔ صبح فجر سے رات تہجد تک بے چاری کو لہو کے بیل کی طرح جُتی رہتی۔ شمع خالہ کے دو ہی لڑکے تھے کلیم اور نعیم۔ لڑکے کیا راجکمار تھے بلکہ شہزادے۔ نعیم انجینئرنگ پڑھتا تھا اور محلے میں لوگوں سے کم ہی ملتا تھا۔ ایسے میں کلیم کے لیے لڑکی تلاش کرنے کا غلغلہ اٹھا۔ محلے کی تمام بیٹیوں والوں ماؤں نے اپنے اپنے مکانات پر رنگ و روغن اور سالانہ صفائی شروع کروا دی کہ جانے قرعہ کس کے نام نکل آئے۔ شمع خالہ بھی وہ دائی تھیں جس سے کسی کا پیٹ چھپانہ تھا۔ انہیں سب معلوم تھاکہ راشدہ کے ہاں کتنے کے پرائز بانڈز رکھے ہیں؟ بڑی کمیٹی سلمیٰ کے دلہا نے کہاں ڈال رکھی ہے؟ رضیہ چچی کے میاں کی لیاقت آباد میں غلے کی سب سے بڑی دکان ہے تو بیٹیوں کو کتنا نقدو جہیز ملے گا؟۔ ساتھ ہی ساتھ حیلے بہانے سے ہر گھر کے چکر لگا کر وہ یہ بھی جائزہ لیتی رہتی تھیں کہ کس کے ہاں چھت سے جالے لٹک رہے ہیں، کس کے ہاں قالین کے نیچے منوں دھول مٹی دفن ہے، کس کے دیگچیوں اور پتلیوں کے پیندے کالے ہیں، کس کے باورچی خانے میں کاکروچ کلبلاتے ہیں؟ اور کس کے پلنگ کے نیچے اور مچان پر کتنا کباڑ جمع ہے۔ لہذا ایسے پھوہڑ اور بدسلیقہ گھر والوں کی بیٹی وہ کیونکر بیاہ لاتیں۔ گندے گھروں میں رہ کر، منہ پر میک اپ اور سرخی تھوپنے والیوں سے تو وہ یوں بدکتی تھیں جیسے وہ انسان نہیں کوئی بچھو سانپ ہوں۔

شہزادہ کلیم کسی بینک میں افسر تھے۔ اُنکے اوقات کار اور زندگی کا ڈھب دیکھ کر لوگ گھڑیاں ملا لیتے، آدمی کم، روبوٹ زیادہ لگتے تھے۔ صبح چھ بجے اٹھنا، پاس کے گراؤنڈ میں دوڑنے کے لیے جانا، وقت پر نفاست سے ناشتہ کرنا، پھر استری شدہ پتلون، اجلی قمیص، سرخ ٹائی اور چرمراتے و چمکدار جوتے پہن کر، چمڑے کا ستھرا بریف کیس اٹھا، چھوٹی سی دمکتی گاڑی میں بیٹھ، بینک کی طرف نکل جانا یہ ان کا روز مرہ کا معمول تھا۔ سوائے یومِ تعطیل کے۔ ساتھ ہی پانی کا تھرماس اور گھر کے صاف ستھرے کھانے کا ٹفن الگ جاتا۔ پھر اسی طرح دفتر سے واپسی پر شام کا اخبار چائے کے ساتھ پڑھنا، پی ٹی وی پر نو بجے خبرنامہ دیکھنا اور کوئی معلوماتی کتاب پڑھتے ہوئے سوجانا۔ بال ہمیشہ برل کریم سے جمے ہوئے، جسم پر گرمیوں میں تبت پاؤڈر کا چھڑ کاؤ اور پھر ہلکا مردانہ پرفیوم غرض دیسی گورا صاحب لگتے، جس کی ٹپ ٹاپ سے تمام اہلیانِ محلہ مرعوب تھے۔ یہ اور بات کہ دونوں بیٹے کماؤ پوت ہونے کے  باوجود ماں کی مٹھی میں تھے۔ کلیم اپنی تنخواہ اور نعیم ٹیوشن کے پیسے تک پہلی تاریخ کو ماں کی ہتھیلی پر دھرتے  اور پھر بے فکر ہوجاتے۔ والد ان کے بچپن ہی میں تپ دق میں مدتوں مبتلا رہ کر چل بسے تھے۔

کلیم ٹھہرے پہلو ٹی کی اولاد، ”تو میرا کمو“۔۔ ”میرا کمو“ کہتے کہتے اماں کا منہ سوکھتا تھا۔ کلیم صفائی میں ماں سے دو ہاتھ آگے تھے۔ بستر پر ایک شکن ہوتی تو وہ ساری رات کروٹیں بدلتے۔ قمیص کی آستین پر استری کی دو کریز بن جاتی تو غریب ذاکرہ کا جینا اجیرن ہوجاتا کہ اندھی ہے، دیکھ کر کام نہیں کرتی اور مفت کی روٹیاں توڑتی ہے۔ حمام گیلا ہوتا تو یہ الٹے پیروں لوٹ آتے کہ پہلے ذاکرہ سوکھا پونچھا لگائے پھر وہ غسل فرمائیں گے۔ چائے کبھی زیادہ اونٹ جاتی تو بھڑک کر اُسے کاڑھا کہتے۔ کم ابالی جاتی تو شیوکا پانی کہہ ڈالتے۔ ویسے اب ذاکرہ کی ترقی ہوگئی تھی،گھر کے تمام کام کاج کے بعد، باہر کے سودا سلف کی ذمہ داری بھی اُسی پر لادی جاچکی تھی۔ شمع خالہ کو روز کے روز گوشت، سبزی، دودھ، دہی اور آٹا، چاول، تیل تک منگوانے کا شوق تھا۔ غریب ٹوٹی چپل، پھٹی ایڑیاں، سوکھے بال اور پچکے گال لیے سارا وقت اندر باہر ہوتی۔ کبھی پٹھان موچی کے پاس بیٹھی شمع خالہ کی چپل سلوا رہی ہے، کبھی استر کا کپڑا لینے لالو کھیت کی مارکیٹ تک پیدل جارہی ہے۔ غرض دن رات کام کرتے، بارش مین بھیگتے اور دھوپ میں سوکھتے، ذاکرہ کی جوانی کہیں جھلس کر سوختہ ہوگئی تھی۔ اب وہ ایک کبڑی عورت کی طرح، ہاتھ میں سودے کا تھیلا لیے  سوچوں میں گم،پنجوں کے بل چلتی ایک عجب مخلوق لگا کرتی۔ جس کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور جو بس آسمان سے کہیں خلائی مخلوق کی طرح ٹپک پڑی ہو۔

***

ہم میٹرک میں آچکے تھے۔ میں اور عنبر سلطانہ اُس دن سکول سے واپسی میں بس سٹاپ پر، گول گپے کھاتے ہوئے خراماں خراماں اپنی گلی میں داخل ہوئے کہ وہاں ایک جم غفیر جمع دیکھ کر پریشان ہوگئے۔دل دھک سے رہ گیا۔ دونوں آگے بھاگے کہ ماجرا کیا ہے کہ بشریٰ باجی کے گھر کے آگے ایمبولینس کھڑی دکھائی دی۔ پولیس بھی وہاں موجود تھی۔ پتہ چلا کہ صغری خالہ نے خودکشی کر لی۔ لونڈے ایک طرف کھڑے سرگوشیاں کر رہے تھے کہ چوہے والی خالہ نکل لیں۔ کوئی بولے ”بیٹی کے  کرتوت دیکھے نہیں گئے ماں زہر نہ کھاتی تو کیا کرتی؟“۔ ایک کیل مہا سے والے لڑکے نے ہم دونوں کو ساتھ آتے دیکھا تو بولا، ”لویا جوج ماجوج بھی آگئے“ میں اُسے مارنے کو آگے بڑھی تو عنبر نے نرمی سے مجھے روک لیا کہ موقع محل تو دیکھو عالیہ!

دراصل ہوا یوں تھا کہ بہت پہلے آیت کریمہ اور چوہے والے واقعے کے بعد، شمع خالہ نے چوہے کا اتنا واویلا کیا تھا کہ صغری کا نام چوہے والی خالہ پڑ گیا۔ پڑوسیوں کی اکثریت نے اُن کا بائیکاٹ کر رکھا تھا کہ اُن کا گھر گندا ہے۔محلے میں میلا د ہو یا قوالی، یٰسین کا ختم ہو یا کسی کی روزہ کشائی، مہندی یا مایوں، صغریٰ اور بشریٰ کو مکمل نظر انداز کردیا گیا۔ ایک دن دونوں عورتیں صبح جاگیں تو شریر لونڈوں نے چھت پر چودہ اگست کو لگایا ہوا قومی جھنڈا ہٹا کر، وہاں چوہا بنا جھنڈا لہرا دیا۔ اُس دن تو صغریٰ خالہ بپھر کر نیم پاگل ہی ہوگئیں۔ پھر آئے دن باضابطہ پتھر یا جوتی اٹھا کر ان لفنگوں کے پیچھے بھاگا کر تیں۔ ادھر بشریٰ باجی کی عمر کیا ڈھلی وہ جوانوں سے بھی زیادہ جوان ہوگئیں۔ کراچی میں ہر طرف پارلر کھلنے لگے تھے۔ انہیں ناظم آباد کی طرف ایک بڑے پارلر میں نوکری مل گئی۔ وہاں شاید کوئی gymبھی تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کمر پتلی، پیٹ چپاتی اور کولہے بھاری ہوگئے۔ انتہائی فٹنگ کی زپ والی قیمض کے گلے بہت بڑے ہوگئے، خندق کی طرح گہرے، جس میں سے ابلتے دو پہاڑ آتے جاتے اہالیان محلہ کو بھرپور دعوت نظارہ اور کوہ پیمائی کا بلاوہ دیتے۔ چُنا ہوا دوپٹہ ہمیشہ حسین گلے میں کوڑیا لے سانپ کی طرح اُن کی گویا نگرانی کیا کرتا۔

ایسے میں جگنو چچی نے اپنی بیٹی کی شادی کا بلاوہ دے ڈالا کہ بالکل ساتھ والا مکان تھا کیسے منع کریں۔ بشریٰ ناگن کی طرح بل کھاتی وہاں آئی۔ ناف سے نیچے کھسکتی، شیفون کی سرخ ساڑھی پر، بروکیڈ کا مختصر سا بلاؤز تھا۔ شمع خالہ جو میک اپ کرنے والیوں کے نام سے چڑتی تھیں، مرے یہ سودرّے بشریٰ بالکل اُن کے ساتھ بوتل پیتے ہوئے بیٹھ گئی۔ بڑا سا بنگالی جوڑا، دونوں کلائیوں میں پھنسی کانچ کی چوڑیاں، ڈیزائن والی مہندی اور فل میک اپ۔ ”اے دلہن تو نہ بن سکیں تم بشریٰ! اچھا ہوا جو اس طرح بن سنور کر سارے ارمان نکال لیے“ شمع خالہ نے آخر چونچ لڑا ہی دی۔ ”اب مجھے دلہن بننے کا ارمان بھی نہیں شمع خالہ۔۔۔۔ہاں دلہن سجاتی ہوں، جس کا خرچہ آپ کے مہینے بھر کے راشن سے زیادہ لیتی ہوں“ یہ کہہ کر وہ شعلہ بدن رخصت ہونے لگی۔ ہاں! آپ کی کڑک مونچھیں اُگ رہی ہیں، بالکل کسی چوہے کی طرح۔ کسی دن میری طرف آجائیں، صاف کردوں گی“ شمع خالہ کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی، ”اے تمہارے گھر آئے میری جوتی۔ بال اکھڑ وانے والیوں کی نمازیں قبول نہ ہوں گی انشاء اللہ۔ حرافہ!!۔ تم جیسی بے حیا عورتیں جہنم کے سب سے اعلیٰ درجے میں جلائی جائیں گی۔ ناشدنی! دیدہ ہوائی!!“۔

زنانہ مردانہ شامیانہ علیحدہ تھے لیکن شمع خالہ تاڑ چکی تھیں کہ لونڈے لپاڑوں سے لے کر ڈاڑھی والے مولانا شوہر حضرات تک باقاعدہ رال ٹپکاتے، حیلے بہانے قنات کے پاس زنانے میں گھسے چلے آرہے تھے۔ ہاں کلیم اور نعیم شیروانیاں پہنے، مدبرانہ گفتگو میں مصروف رہے۔ جس میں مارشل لاء لگنے سے ریفرنڈم جیسے گھمبیر مسائل پر بات ہوتی رہی۔ آنکھ اٹھا کر اس حرافہ بشریٰ کو نہ دیکھا۔ بشریٰ اُسی انداز دلبرانہ سے لہراتی ہوئی میدان سے اپنی گلی کی طرف کولہے مٹکاتے چلی گئی۔

جتنے منہ اُتنی بات۔ کوئی کہتا کہ بشریٰ راتوں کو دیر سے گھر آتی ہے، گاڑی والے اُسے چھوڑ جاتے ہیں، کوئی کہتا کہ ماں کو نیند دوادے کر، یاروں کو گھر میں بلاتی ہے۔ کوئی کہتا پار لر تو بہانہ ہے، سیدھے سیدھے سوسائٹی میں کسی سیٹھ کی رکھیل ہوگئی ہے۔ بغیر پردے کے، مختلف اوقات میں آنے جانے والی بااختیار، خود مختار اور کیل کانٹے سے لیس، سجی بنی عورت طوائف ہونے کے علاوہ بھلا اور کیا ہوسکتی ہے؟۔ بشریٰ یہ سب باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑاتی رہی مگر صغریٰ ہمہ وقت بیٹی کی بدنامی اور اپنی ہر زہ سرائی برداشت نہ کرسکیں۔ دل غربت، بیوگی اور سفید پوشی جیسے بے شمار مصائب تلے دب کر پہلے ہی کمزور ہوچکا تھا۔ ایک رات گھر میں رکھا چوہا مار زہر کھا کر لیٹیں اور پھر نہ اٹھ سکیں۔

محلے والے تجہیز و تکفین کے لیے آگے بڑھے۔لیکن بشریٰ نے ایدھی والوں کی مدد سے تمام معاملات خود طے کر لیے۔ غسالنی کو بلا کر خود ماں کو نہلایا۔ نماز جنازہ کچھ اہلیان محلہ اور کچھ اجنبیوں نے پڑھی۔ اہلیانِ محلہ نے ان اجنبیوں کو خود ہی ”بشریٰ کے یار“ تصور کر لیا۔ کلیم اور نعیم نے بھی کاندھا دیا۔ سخی حسن قبرستان میں ماں کو دفنا کر بشریٰ بہت روئی اور پھر اُس دن کے بعد آنسو ہمیشہ کے لیے پونچھ لیے۔

***

کراچی کا معاشرہ چپ چپاتے بدل رہا تھا۔ ایسے جیسے کہ سردی کے ٹھٹھرتے موسم میں سکڑتے سکڑتے، کسی دن موتیا کی کلی کھل جائے بہار کی نوید مل جائے  آم کے درختوں پر بور آجائے،کوئل کو کنے لگے اور سب کچھ یکا یک بدل جائے۔ بھٹو کے جاتے ہی دیگر علاقوں سمیت اہلیانِ لیاقت آباد پر بھی اسلام چھپر پھاڑ کر نازل ہوگیا، جیسے کہ آگے تو یہاں ہندو رہا کرتے تھے۔ پہلے ریڈیو ٹی وی پر قاری ظفر قاسمی کی رقت آمیز آواز”فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر“ سن کر مدینے کی طرف دل کھنچتا تھا تو اچانک ”یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے“ دل پر دہشت طاری کرنے لگی۔ یٰسین صاحب نماز روزے کے زیادہ پابند نہ تھے، لیکن اُن پر اب سوال اٹھنے لگے۔ کفر کے فتوے لگنے لگے۔ رمضان میں سرعام کھانا، پینا یا بیچنا حرام قرار پانے لگا۔ کوڑوں کی چابک چلنے لگیں۔ چادروں کی جگہ چمکیلے عبائیوں اور حجاب نے لے لی۔ اب کوئی عورت ساڑھی یا صرف شلوار قمیص اور دوپٹے میں باہر چلتی نظر آتی تو مرد تو مرد، برقعوں میں محبوس عورتیں اُنہیں یوں دیکھتیں، جیسے وہ سر بازار، مادرزاد برہنہ گھوم رہی ہوں۔ حرام، حلال، جائز، ناجائز، زنا، ریال، درہم، ڈاڑھی، ٹخنے سے اونچی شلوار جیسے الفاظ عام گفتگو کا حصہ بننے لگے۔ ایسے میں شمع خالہ کو، نرسری کی کسی کوٹھی میں رہنے والی عالمہ باجی نے ماہنامہ مشاہرے پر ایک مدرسہ کھول کر دے دیا۔ پہلے ادنیٰ و ظیفے پر مولوی گھر گھر جا کر بچوں کو قرآن نماز پڑھایا کرتے اب یہ کام شمع خالہ نے دو چار سہیلیوں کی مدد سے مدرسے میں شروع کردیا۔ان میں میری امی بھی شامل تھیں۔ ہر جمعرات کو درس کا انعقاد ہونا، جس کے اختتام پر بریانی تقسیم ہوتی۔ بھائی کو زبردستی اعتکاف بٹھایا گیا۔ شیعہ، سنی، احمدی، ہندو مسیحی  کے نئے معنی کچے ذہنوں میں بٹھائے جانے لگے۔’خدا حافظ کی جگہ ’اللہ حافظ’رائج ہوگیا کہ لفظ ؔخدا‘ سے شرکت کی بو آتی ہے۔ پاکستان کا قبلہ درست کیا جانے لگا۔

ایسے میں عنبر اور میں، ہر چیز سے بے نیاز، اک دوسرے میں گم، یکجان دو قالب بن چکے تھے۔ کافی عرصے ہم دونوں نے ایک جیسے کپڑے پہنے تھے۔ لیکن اب کرتے پاجامے چھوڑ میں بھیا کی پرانی جینز یا پتلون ٹی شرٹ پہن ڈالتی۔ بال جان بوجھ کر چھوٹے کر ڈالتی کہ لمبے بالوں میں جوئیں پڑجاتی ہیں۔ ایک دن کسی ٹھیلے سے کرکٹ کیپ خرید کر پہن لی۔ گلی میں ہاکی، کرکٹ کھیلنا، سائیکل چلانا مجھے بہت پسند تھا۔ لٹو، پتنگ اور کنچے تو عنبر بھی کھیلا کرتی تھی، لیکن اب اُس کی امی نے عنبر کو گھر تک محدود کردیا تھا۔ ”دھوپ میں کھیلنے سے رنگ سانو لاہو جائے گا عنبر کا، مٹی سے ہاتھ پاؤں کھر درے ہوجاتے ہیں اور پھر گلی میں آوارہ لڑکے ہوتے ہیں، ان سے عنبر کو دور رہنا چاہیے“۔ میں خالہ جان کوبتانا چاہتی تھی کہ  عنبر کے ساتھ اُس کی محافظ میں ہوں نا؟ وہ میری ذمہ داری ہے۔ میں نے سکول میں جوڈو کراٹے کا کورس اسی لیے تو شروع کیا ہے کہ عنبر کو سب سے بچا کر، محفوظ رکھوں۔ وہ میری ہے۔ لیکن خالہ نے میری ایک نہ سنی۔

اُس دن سکول 23مارچ کی وجہ سے بند تھا۔ عنبر سے ملنے کو دل مچل پڑا۔ میں بھائی کی قمیص اور جینز پہنے، ہاتھ میں بلّا لیے عنبر کے گھر چلی گئی۔ بہت مزہ آیا۔ ہم دونوں نے خوب باتیں کی۔ گلابی تنگ قمیص میں، وہ کچھ الگ اور بلا کی حسیں لگ رہی تھی۔نہا کر آئی تھی۔ میں نے پیار سے اُس کے بال خشک کیے اور چوٹی کرنے لگی تو یکدم اُس کے سینے پر ہاتھ لگ گیا۔ ”اوہ! تو تم نے یہ پہن لی آخر“۔ میں عجیب سی ہوگئی۔ عنبر اُسے پہن کر خوش تھی۔ دیکھو یہ بھی گلابی ہے، وہ کاندھے کا اسٹریپ دکھانے لگی۔ پھر جلدی سے قمیص اوپر کر کے مجھے اپنا جلوہ دکھایا۔ ایک شعلہ سا بھڑکا، بجلی سی کوندی اور پھر اندھیرا ہوگیا۔میں تو بس دیکھتی ہی رہ گئی۔ ”اچھی ہے ناں؟ ایک کالی بھی ہے، اُس پر ناں ادھر تتلی بنی ہے، سرخ ربن ہے“۔ ”امی لائی ہے  لالو کھیت کی ہوزری مارکیٹ سے“۔ ہم دونوں کی کھسر پھسر جاری تھی کہ خالہ جان اندر آگئیں، آتے ہی دھاڑیں، ”ہٹو دور دونوں۔۔۔ ہر وقت چپکی رہتی ہو۔ مسئلہ کیا ہے تمہارا عالیہ؟ گھر میں دل نہیں لگتا تمہارا؟ سارا دن سکول میں تو ساتھ ہوتی ہو“۔ میں نے جلدی سے بہانہ بنایا، ”خالہ جان انگلش گرائمر کا ہوم ورک کل دینا ہے۔ عنبر سے مدد لینا تھی“ معصوم خالہ جان نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں کوئی کاپی نہیں تھی۔ فٹ سے بولیں ”اور تم کیا نصیر کے کپڑے پہن کر باہر گھومتی ہو؟ شمع خالہ نے دیکھ لیا تو جان نکال دیں گی“۔ وہ اللہ سے زیادہ شمع خالہ سے ڈرتی تھیں۔ ”جسم دیکھو اپنا لوٹھا ہورہی ہو اندر موٹی بنیان پہنا کرو کم از کم۔ دوپٹہ تو کبھی دیکھا نہیں تمہیں اوڑھے ہوئے۔ بات کرتی ہوں میں ریحانہ سے“۔ اُن کا خراب موڈ دیکھ کر میں نے چلنے کے لیے بلّا اٹھایا۔ میں انہیں کہنا چاہتی تھی کہ جس ’حبس بے جا‘ میں وہ عنبر کو محبوس کرچکی تھی، اُس کی فی الحال مجھے تو کوئی ضرورت نہ تھی۔ چپکے سے چلتے  ہوئے بیلٹ میں اڑسا ہوا ایک فرینڈ شپ کارڈ عنبر کو تھما دیا، جس  کے اوپر دوگلاب بنے تھے اندر میں نے دو دل بنا کر، کلر کر کے اُس میں A+Aبہت سجا کر لکھا تھا۔ عنبر نے خالہ جان کی نظر بچا کر اُسے چوم لیا۔ میری زندگی سنور گئی۔

***

عنبر اور میں گورنمنٹ گرلز سیکنڈری سکول، لیاقت آباد سے، سرسید گورنمنٹ گرلز کالج پہنچ گئے۔ وہاں جابجا نوخیز کلیاں، کھلے ہوئے گلاب اور مرجھائے ہوئے پھول تک موجود تھے۔ بیشتر لڑکیاں کالج سے نکلتے وقت ہلکی لپ سٹک ویزلین کے ساتھ ملا کر لگا لیتی تھیں، تاکہ باہر اور بس سٹاپ پر موجود ان کے عاشقان اچھی طرح آنکھیں سینک سکیں۔ جان بوجھ کر اپنے گھر والی بس چھوڑ کر جھوٹ موٹ انتظار کیا جاتا۔ آرٹس والی لڑکیاں عمرانیات یا اردو ادب کے لیکچرز مس کر کے،لڑکوں کو گلابی لیٹر پیڈ پر عشقیہ خطوط لکھا کرتی تھیں اور اُن کے دیئے ہوئے سستے ربر بینڈ، کلب، ٹشو کے پیکٹ، چوڑیاں یا مصنوعی انگھوٹھیاں پہن کر شومارا کرتی تھیں۔ عنبر آرٹس میں اور میں پری میڈیکل میں تھی۔ بیالوجی اور کمیسٹری میرے پسندیدہ مضامین تھے۔ میرا وہاں کافی مذاق اڑایا جاتا کہ یہ بوائز کالج کے بجائے یہاں کیوں آگئی۔ عنبر سے کوئی لڑکی فری ہوتی یا غلطی سے عنبر کسی اور کے ساتھ سیٹ پر بیٹھ جاتی تو میں باقاعدہ اُس سے جھگڑا کرتی۔ پھر عنبر مجھے کھینچ کر کسی گوشے یا باتھ روم میں لے جاتی اور کچھ دیر بعد ہم کھلکھلا رہے ہوتے۔

اُس دن اُس کے بالائی ہونٹوں پر بہت سارا سنہرا رؤاں دیکھ میں فوراً متفکر ہوگئی اور گھر واپسی میں اُسے ”فری بیوٹی پارلر‘ لے گئی۔ اب بشریٰ باجی نے گھر پر بھی پارلر کھول لیا تھا۔ محلے کی کچھ عورتیں اب شمع خالہ سے چھپ کر وہاں پہنچنے لگی تھیں۔ راشدہ وہاں اپنی پنڈلیاں کھولے ویکس سے کڑک بال اکھڑ وا رہی تھی۔ ماجدہ کی بغلیں بشریٰ باجی صاف کر چکی تھیں۔ ہم دونوں کو وہاں دیکھ کر وہ گھبرا گئیں اور جانے کے لیے برقعہ اوڑھنے لگیں۔ بڑی مشکل سے بشریٰ باجی، جو اب فری کہلاتی تھیں، نے انہیں پکڑ کر چیئر پر واپس بٹھایا اور اُن کا کام مکمل کیا۔ جتنی دیر میں عنبر کے بالائی لب دھاگے سے صاف ہونے لگے، میں نے پانی پینے کے بہانے اندر گھر کا چکر لگالیا۔

واقعی شمع خالہ ٹھیک ہی کہتی تھیں۔ گھر انتہائی بکھرا ہوا اور غلیظ حالت میں تھا۔ میلے کپڑوں اور چادروں کا انبار بلکہ پہاڑ مرحومہ صغریٰ خالہ کے کمرے میں، عین اُن کے بستر پر موجود تھا۔ پرانے ردّی اخبار، باسی سوکھی روٹیاں، انگریزی فیشن والے رسالے، اخبارِ جہاں، اخبار خواتین کا ایک ڈھیر، جن سے ایکٹر سوں کی تصاویر کاٹ کر بشریٰ باجی نے پارلر میں لگائی تھیں، ایک طرف لاوارث پڑے تھے۔ بشریٰ باجی کے کمرے میں بھی غدر مچا ہوا تھا۔ مہینے بھرکے اتارے ہوئے چمکیلے گوٹے لگے، گوکھرو، چمپا، کرن لگے جوڑے ساڑھیاں،لہنگے، بلاؤز بے ترتیبی سے گولا بنے اِدھر اُدھر پڑے تھے۔ ایڑی والی جوتیوں کا ڈھیر بھی ایک طرف پڑا اُس کمرے کا مستقل حصہ لگتا تھا۔ ہاں پلنگ پر خوبصورت، سرخ ریشمی چادر اور مخملی سا لحاف بچھا تھا۔ اُن کے ساتھ چھوٹی سی تپائی پر دو تین پرفیوم،لیمپ اور ایک عجیب سی چیز کا پیکٹ پڑا تھا۔ میں نے سوچا کہ باہر کے چیونگم ہوں گے، فوراً پیکٹ پھاڑا، لیکن بڑی مایوسی ہوئی اندر سے صرف ایک بڑا سا غبارا نکلا۔ وہ بھی بدرنگا سا۔ کیا بشریٰ باجی کی سالگرہ تھی؟ اگر سالگرہ کے لیے غبارے لائی تھیں تو کم از کم اچھے رنگوں کے تو لاتیں بہت ہی بد ذوق ہیں۔

اچانک بلی کی میاؤں سے میں چونکی جو کسی چو ہے کا تعاقب کر رہی تھی مجھے یاد آیا کہ مجھے تو پانی پینا تھا۔ اُن کا پرانا سافریج کھولا، تو سڑے ہوئے گوشت کی بدبو میرے ناک کے کیڑے تک مار گئی۔ اندر باسی کھانے، بغیر کسی ڈھکن کے، دیگچوں سمیت ٹھنسے ہوئے تھے۔ وہاں سب کچھ تھا، سوائے پانی کے۔ گرمی سے گلا سوکھ رہا تھا۔ باورچی خانے میں پہنچی تو وہاں ایک بھونچال برپا تھا۔ بدبو سے دماغ پھٹنے لگا تھا۔ پچھلے ہفتے کھائی گئی نہاری کی پلیٹ، خشک ہو کر، ذلیل نظروں سے مجھے گھور رہی تھی کہ کیوں چلی آئی ہو یہاں؟ جھوٹے برتن، اَدھ کھائی بوٹیاں، چبائی ہوئی ہڈیاں، فرش پر گرا آٹے دال، چاول کا ملغوبہ، دن میں رینگتے ہوئے جھینگر اور پھر اُن کے مشہور معروف پلے ہوئے چوہے جوکالے خرگوش لگ رہے تھے۔ مجھ سے پوچھنے لگے ’کیا کام ہے؟“۔

میں پیاسی ہی  الٹے پیروں، فری بیوٹی پارلر‘ تک آگئی۔ عنبر کا چہرہ بہت ہی مختلف اور حسین لگ رہا تھا۔ اُس کی جڑی ہوئی ابروؤں کو ذرا سا دھاگہ لگا کر، بشریٰ باجی نے جدا کر دیا تھا۔ اپنے فن میں بحر حال وہ ماہر تھیں۔ میرا دل چاہا میں عنبر کو لے کر کسی حسین بادل میں گم ہوجاؤں اور دنیا کی کوئی آواز ہم تک نہ پہنچے۔ چار روپے؟۔بشریٰ باجی کی کرخت آواز دکا نداری لہجے میں گونجی، ”جی۔۔ ی یہ لیجئے“ میں نے دو دن کینٹین سے کچھ نہ کھا کر، پورے چار روپے بچا لیے تھے۔

***

اُس دن امی نے گھر میں ایک کہرام برپا کر رکھا تھا۔ بھیا کے پیر ٹوٹ گئے تھے، سودے کے لیے اندر باہر ہوتے ہوئے۔ لگتا تھا ملک کے وزیراعظم ہمارے ہاں تشریف لا رہے ہیں۔ شمع خالہ امی کے لیے تو صدر مملکت سے بھی بڑھ کرعزیز تھیں اور پھر وہ اپنے لخت جگر، شہزادہ کلیم کے لیے لڑکی دیکھنے ہمارے ہاں تشریف فرما ہورہی تھیں، کہرام کیوں نہ برپا ہوتا۔ آپا نے باورچی خانہ سنبھالا ہوا تھا۔ دہی بڑے بنائے جا چکے تھے۔ سل بٹے پر کبابوں کا مسالہ پیسا جاچکا تھا۔ پکوڑے وہ گرما گرم، خستہ تلنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ بہترین چائنہ ٹی سیٹ شوکیس سے نکال لیا گیا تھا جو ویسے صرف عید کے دن باہر آتا تھا۔ کام کر کر کے بے چاری اپنے حال سے بے حال تھیں۔ اُن کی بات ہمارے پھوپھی زاد بھائی سے طے ہوچکی تھی۔ بجو البتہ آنولہ، ریٹھے کا ملغوبہ انڈے میں ملا کر بالوں میں تھوپے بیٹھی تھیں۔ چہرے اور ہاتھ پاؤں پر کئی دن سے ابٹن اور کریم ملے جارہے تھے تاکہ اُن کی سانولی رنگت چمپئی ہوسکے۔ امی خواہ مخواہ صحن میں بے چینی سے ٹہل رہی تھیں۔ ہول دلی کا تعویز انہوں نے ہمیشہ سے پہن رکھا تھا۔

مجھے ان تمام تر خرافات سے ذرّہ برابر دلچسپی نہ تھی۔ ابا کی آرام کرسی پر ڈھٹائی سے پڑی ابن صفی کا ناول ’رات کا شہزادہ‘ پڑھتی رہی۔ وہ دنیا ہی اور تھی میں اُسی میں مگن رہنا چاہتی تھی۔ گرمیاں تھیں۔ دن لمبے، گرم تھے لیکن سہ پہر کو سمندر سے اچھی ہوا چل پڑتی تھی۔ ابا گھر کے اس ہنگامے سے بچ کر دوستوں میں تاش کھیلنے جا بیٹھتے تھے کہ اچانک دروازہ دھڑ دھڑایا جانے لگا اور شمع خالہ بمع اپنے فرزند رشید کے بے دھڑک اندر چلی آئیں۔

امی تو گویا آنکھیں پھاڑے وہیں، پتھر کی ہوگئیں۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ شمع خالہ وقت سے پورے دو گھنٹے پہلے جو آگئی تھیں۔ ابھی آپا نے صحن جھاڑ نا تھا، جہاں جامن کے سوکھے پتے اور اودے جامن جابجا گرے پڑے تھے۔ پھر پائپ لگا کر دھلائی ہوتی، کرسیاں بچھائی جانی تھیں۔ اُن پر ہاتھ کا بنا کر وشیہ کامیز پوش ڈالا جانا تھا۔ گلدان میں پھول لگنے تھے۔ گلی میں مٹی پر پانی کا چھڑکاؤ ہونا تھا اور سب سے بڑھ کر بجونے بال دھوکے شبنم کے انداز میں جمانے تھے۔ گلابی جوڑا پہن کر آنکھوں میں کاجل لگانا تھا۔

شمع خالہ عبائیہ اتارتے ہوئے بولیں ”میں نے سوچا کہ تم لوگوں سے غیر یت کیسی؟ اپنا ہی توگھر ہے۔ ہیں؟“ اور لتڑی کٹنی کی طرح پورے گھر میں آنکھیں گھمانے لگیں۔ ”ہم دونوں ذرا صرافہ بازار گئے تھے، دلہن کے لیے سیٹ پسند کرنے۔ پورے 5تولے کا خریدا ہے یہ دیکھو!!۔ بس رستے میں تمہارا گھر آگیا تو۔۔“ وہ باہر صحن میں بچھے پلنگ پر بیٹھنے لگیں۔ جان بوجھ کر ہمیں جتانے کیلئے وہاں رکھی، تہہ کی ہوئی چادر کو خود بچھانے لگیں۔ میں نے اٹھ کر سلام کیا اور اندر جانے لگی۔ کلیم بھائی آنکھیں پھاڑے میرا حلیہ دیکھ رہے تھے۔ ”کیا پڑھ رہی ہو بے بی؟“۔ ”فی الحال تو ابن صفی۔۔ ویسے ڈاکٹر بننے کا ارادہ ہے“۔ میں نے بے نیازی سے کہا۔ شمع خالہ نے فوراً ٹکڑا لگایا ”بھئی میرے کمو کو تو بی ایس سی لڑکی چاہیے۔ ہوم اکنامکس میں۔ ہیں کمو؟ لڑکی کو ڈگری بھی ملے اور امور خانہ داری میں بھی طاق رہے“۔ میں چپ نہ رہ سکی ”میری بجو تو بی اے ہیں، وہ بھی اسلامی تاریخ میں۔ آپ یہ جانتی تھیں تو کیوں ہمارے ہاں چلی آئیں اپنے جانشین کو لے کے؟۔ خواہ مخواہ میرے ابا کا اتنا خرچہ کروایا۔ آپا بے چاری صبح سے چولہے میں جھلس رہی ہیں اور بجو“۔۔

”عالیہ تم اندر جاؤ“ امی تڑخ کر بولیں۔ میں پلٹی تو بجو پوری تیاری سے چائے کی ٹرالی ڈھکیلتے، شرمائے لجائے آرہی تھیں۔ بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ سلیقہ مند آپا نے کنڈی کھڑکتے کے ساتھ جھٹ پٹ پکوڑے بھی تل لیے تھے۔ میں نے فوراً ایک گرما گرم پکوڑا منہ میں ڈالا ”خواہ مخواہ تلے ہیں، ضائع ہی ہوں گے“ اور اندر چل دی۔ شمع خالہ کی منحوس آواز اندر کمرے تک آتی رہی۔

”بہن صفائی تو ہر وقت ایک سی رکھنا چاہیے۔ یہ تھوڑا ہی کہ مہمان آرہے ہیں تو جھاڑو ہاتھ میں پکڑی۔ میرا کمو تو ایسی جگہ تھوکے نہیں جہاں ذرا سی بھی گندگی ہو۔ دہی بڑے ٹھیک ہیں مگر پکوڑے میں ذرا گٹھلی رہ گئی ہے۔ چائے تھوڑ ا اور پکتی۔ دودھ پاؤڈر کا ڈالا ہے کیا؟“۔ بہت گاڑھی چائے ہے۔ بالکل کھیر لگ رہی ہے۔ برامت ماننا۔ میں تو مشہور ہوں اپنی صاف گوئی کیلئے۔ لگی لپٹی کیسی؟

***

”میں تو چھوڑ چلی بابل کا دیس پیا کا گھر پیارا لگے“۔ جب یہ گانا دسویں بار میرے کانوں میں گونجا تو میں باضابطہ چلّا پڑی۔ دل چاہا کہ عنبر کے گھر جا کر سب کو شوٹ کردوں۔ اس کیسٹ بجانے والے کا گلا گھونٹ دوں اور عنبر کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھا کر کہیں بھی نکل جاؤں۔ میرا چانڈ کا میڈیکل میں داخلہ ہوچکا تھا۔ امی مجھے ہاسٹل جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں۔ ابا بخوشی راضی تھے کہ اچانک میری دنیا تاریک ہوگئی۔ شمع خالہ نے ہمارے محلے کے تمام گھروں میں ناشتے کھانے اور تحائف بٹورنے کے بعد اچانک عنبر کو پسند کر لیا کہ میرے کمو کو عنبر جیسی باکرہ بچی کا رشتہ درکار ہے، زیادہ تعلیم سے لڑکیاں مردانہ اطوار کی ہوجاتی ہیں۔ اور یہ کہ محلے کی باقی سب لڑکیاں دیدہ ہوائی، میک اپ زدہ اور آوارہ ہیں۔ عنبر ہمیشہ کی کمزور اور دبو کچھ بھی نہ کہہ سکی۔ بس اُن کی غلافی آنکھوں میں آنسوؤں کے تالاب بن گئے۔

اُس رات ہم دونوں گلے لگ کر روتے رہے۔ ”مجھے ڈاکٹر تو بن جانے دیتیں عنبر۔ سب کچھ ٹھیک ہوجاتا“۔ جواباً عنبر کی سسکیاں اور اونچی ہوگئیں۔ کبھی سوچتی کہ کلیم بھائی سے جا کر سب کہہ دوں کہ عنبر کبھی آپ کی نہیں ہوسکتی وہ میری ہے، لیکن ایک اٹھارہ سالہ بچی کی اس بات پر سب ہنس ہی سکتے تھے۔ اتنے میں خالہ جان اندر آئیں اور خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ مجھے ایک عنابی رنگ کا شلوار قمیص دینے لگیں، ”پیور شنیل کی قمیص ہے اور شاموز کی شلوار۔ باڑے کی ہے۔ دوپٹہ چھوٹا ہی لیا ہے، اس پر کرن ٹکوا لینا اپنی آپا سے اور پہننا ضرور۔ عنبر آٹھ دن پہلے مایوں بیٹھے گی، عصر میں میلاد ہوگی۔ تم پھر ادھر ہی رہ جانا“ یہ کہا اور لپک جھپک باہر نکل گئیں۔ میں نے عنبر کو ایک الوداعی بوسہ دیا اور وہ منحوس جوڑا وہیں پٹک کر گھر آگئی۔ پہلے ارادہ تھا کہ عنبر کو دلہن بنے ضرور دیکھوں گی۔ سنا تھا کہ شمع خالہ نے اُسے میک اپ نہ کروانے کی خاص تاکید کی تھی، کہ یہ سب یہودیوں کی سازش اور شیطان کی لعنت ہے۔ لپ سٹک سور کی چربی سے بنتی ہے۔ اُسے ایک جھلک دیکھنے کو دل بس مچلے جارہا تھا۔ رو رو کر رات بھر جگجیت چتراکی اُداس غزلیں سنتے ہوئے میں بالکل ادھ موئی ہوچکی تھی۔ کھانا پینا ہنسنا بولنا سب چھوٹ گیا تھا۔ عنبر ساتھ تھی تو سارا وقت ہمارے آس پاس ہنسی کی پھلجھڑیاں چھوٹتی رہتی تھیں۔ اب صرف اپنی قسمت پر ہنسی آرہی تھی۔

دل پھٹنے لگا تو عین بارات والے دن میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور ابا کو بتا کر لاڑکانہ چانڈ کا میڈیکل کالج کے ہوسٹل میں آگئی۔ اس فیصلے کے ساتھ کہ اب کبھی عنبر کی صورت نہ دیکھوں گی۔

***

شمع خالہ عنبر اور کلیم کی جوڑی کی تعریف کرتے نہ تھکتی تھیں۔ اُن کے خیال میں عنبر تھی تو الہڑا بلکہ پھوہڑ، لیکن انہوں نے کلیم کے ساتھ مل کر اُس کی از سر نو تشکیل کی اور اُسے سنوار کر ہر کام میں طاق کردیا۔ ذاکرہ اب بھی وہاں تھی۔ البتہ نعیم جامعہ کراچی کے لڑکوں کے ساتھ جہاد پر افغانستان جاچکا تھا۔ شمع خالہ اس پر بھی بہت نازاں تھیں۔ کلیم کی شادی کی رات وہ بہت خوش تھیں۔ حجلہ عروسی کاغذ اور پلاسٹک کے پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ پلنگ پر عنبرکے جہیز کی سرخ ریشمی چادر بچھی تھی۔ شمع خالہ نے چپکے سے بستر پر ایک سفید چادر کا اضافہ کردیا کہ صبح دلہن کا کچھا چٹھا تو پتہ لگے؟ دونوں صورتوں میں انہوں نے محلے کی عورتوں کو منہ دکھانا تھا۔ عنبر اس امتحان میں سرخرو ہوئی۔ سفید چادر کی لالی نے اُس کے منہ پر کالک ملے جانے سے، اسے بچالیا۔ پھر جانے کیا ہوا کہ رفتہ رفتہ عنبر ایک خاموش روبوٹ بنتی چلی گئی، جس کے ہاتھ میں کفگیر، چمٹا، پھول جھاڑو، وائپر، نچوڑئے ہوئے کپڑے، یا استری ہوتی۔ ذاکرہ کا کام نسبتاً ہلکا ہوگیا۔ بقول شمع خالہ کے مجازی خدا کے کام بیوی کو اپنے ہاتھ سے کرنے چاہییں۔ اس سے خدا خوش ہو کر عورتوں کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ غالباً ایک بہشتی زیور انہوں نے خود لکھ رکھی تھی۔ عنبر منہ اندھیرے اٹھ کر غسل کرتی، فجر پڑھتی اور پھر جو اپنی جنت کو چمکانے میں لگتی تو کب اُس کا بستر پرمیاں کے پہلو میں جانے کا وقت ہوجاتا، اُسے پتہ ہی نہ چلتا۔ کلیم بہت چاؤ سے محبت جتانا چاہتے تو عین دوران عمل وہ پوچھ بیٹھتی ”کل کیا پکاؤں؟ کوفتے کہ قورمہ؟ آپ کو زیادہ کیا پسند ہے؟“ اور کلیم ٹھک کر کے سکڑ جاتا، عنبر کے مصالحے دار پہلو میں ڈھیر ہوجاتا۔

***

بشریٰ کے نئے عاشق کو وہاں ڈیرہ جمائے، تین دن ہوچکے تھے۔ وہ ساری رات جاگتے اور شام پڑے تک سوتے۔ ”گھر جاؤناں جانو“ بشریٰ کلیم کے سینے کے بالوں سے کھیلتے ہوئے کہتی۔ جواباً کلیم دُلار جتاتے، ”اب یہی میرا ٹھکانہ ہے فری جان“ یہاں سے اٹھ کر کون کافر جائے“ بشریٰ اتراتی ”ہٹو دور!! اللہ بھوک لگ رہی ہے۔ دیکھوں کچھ فریج میں پڑا ہو“۔

”رہنے دو۔ خبردار جو تم نے کپڑے پہنے، یا اس چادر سے باہر نکلیں، میں ہوں ناں، اپنے ہاتھ سے ایسا قیمہ بنا کر کھلاؤں گا اپنی رانی کو کہ بس۔ پر اٹھے باہر سے آجائیں گے“۔

”ارے۔ کچن میں کب سے صفائی نہیں ہوئی۔وہاں چوہے بھی ہیں۔ تم رہنے دو“۔

”فری جان! عورت کو چاہیے کہ بس وہ مرد کے دل پر راج کرے۔ عشوے، ادائیں، ناز انداز دکھائے نینوں کے تیر چلائے۔ بس یہی تو ہیں جو بازار میں نہیں ملتے؟۔ باقی کھانے والے کیلئے ہوٹل کھلے ہیں ناں۔۔۔ مجھے تو بس ایسے ہی بکھرا بکھرا اور بے ترتیب گھر اچھا لگتا ہے۔ آخر کو گھر اور ہوٹل میں کچھ تو فرق ہو“۔

”بتاؤ قیمے میں کئی مرچ ڈالوں کہ ہری؟“

فری نے کلیم کے برہنہ گلے میں اُس کی سُرخ ٹائی ڈال کر اپنے بہت قریب کھینچا اور ادا سے کہا ”ہری مرچ! کٹیلی! بالکل میری طرح کی“۔ اور کلیم اُس پر ریجھ کر مزید ریشہ خطمی ہوگئے۔ ایک چوہا اُن کی پنڈلی پر سے گزر کر کونے میں پڑے، روٹی کے ٹکڑے کو کترنے لگا کلیم کو خبر بھی نہ ہوئی۔ عاشق ومعشوق اپنی اٹھکھیلیوں میں مصروف تھے۔

***

میرے کلینک کے باہر آج مریضوں کی بھر مار تھی۔ یہ سب باقاعدہ اپائٹمنٹ لے کر آئی تھیں۔ میں UKسے گائنی میں سپیشلائز کر کے دو سال پہلے لوٹی تھی۔ اس شہر میں میرے جیسے عجیب الخلقت لوگوں کا اب ایک جم غفیر مجھے نظر آنے لگا تھا۔ جو ہمیشہ سے ہوں گے مگر اب ببانگِ دہل نظر آنے لگے تھے۔ دن کا آدھا حصہ میں نے، غیر اعلانیہ LGBT acivistکے طور پر گزارنا شروع کردیا۔ دن میں ہاسٹل، شام کو کلینک اور پھر ان محروم لوگوں کے حقوق کے لیے خاموشی سے کام کرتی۔ اب میں لیاقت آباد کے بجائے ڈیفنس آچکی تھی۔ ابا کے گزرنے کے بعد گھروالوں نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ شمع خالہ کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ مفلوج ہو کر بستر پکڑ چکی ہیں۔ قینچی کی طرح چلتی زبان پر فالج گرا ہے۔ منہ پر مکھیاں بھنبھناتی ہیں اور وہ خاموش انہیں تکا کرتی ہیں کہ چلو کوئی تو آس پاس ہے۔ گوموت بستر میں ہوتا ہے۔ کمرے میں پیشاب کی بدبو کے باعث کوئی پاس نہیں پھٹکتا، سوائے ذاکرہ کے۔ مولانا نعیم نے واپس آکر ذاکرہ سے نکاح فرما لیا تھا، کیونکہ وہ جہاد پر جانے سے پہلے اُس کے پیٹ میں اپنی نشانی چھوڑ گئے تھے، جسے ناجائز کہہ کر شمع خالہ نے ذاکرہ کی بہت پٹائی کی تھی اور سر بازار اُسے ذلیل کیا تھا۔ کلیم اب ہفتوں گھر سے غائب رہتا۔ دوسرے شہر میٹنگ کے بہانے جانے کہاں منہ مارتا پھرتا ہے۔ عنبر اور اُس کی صاف ستھری جنت سے اُسے اب کوئی دل چسپی نہ رہی تھی۔ بقول اُس کے یہ سب امی کے خواب تھے، میں تو کچھ اور چاہتا تھا۔.

بڑے علاج اوردعا تعویز کے بعد بھی عنبر کو اولاد نہ ٹھہر سکی۔ بقول شمع خالہ کے وہ تو برف کی سل تھی اور برف سے تو کوئی کپڑا بھی برآمد نہیں ہوسکتا، بچہ ہونا تو دور کی بات  تھی۔

***

اُس دن میں نے شدید تھکان کے باوجود سارے patientsدیکھ ڈالے کہ میری اسسٹنٹ  نے آکر ایک walkinمریضہ کی فائل آگے سرکادی۔ میں منع کر کے اپنا بیگ سمیٹنے لگی کہ فائل پر نظر پڑی۔

اس آخری مریضہ کی پروفائل اور میڈیکل ہسٹری وہ بنا چکی تھی۔ infertilityکا کیس تھا۔ عمر28 سال، شادی کو دس سال، بلڈ پریشر وزن وغیرہ۔ میں نے اس کو کل پر ٹالتے ہوئے اٹھنا چاہا تو مریضہ کے نام پر نظر پڑی مسز عنبر کلیم! عنبر سلطانہ۔؟۔ میری عنبر۔؟۔ وقت جیسے وہیں رک گیا۔ مجھے کہاں اور کیوں جانا تھا، میں سب بھول چکی تھی۔ وہیں کرسی پر ڈھیر ہوئے دس سال، کسی تیز رفتار بُلٹ ٹرین کی طرح زن زن کرتے گزر گئے۔

ہمت کر کے، چپ چاپ کھڑکی کے شیشے سے باہر نظر ڈالی، دل دھڑ دھڑائے جارہا تھا کہ کیسی لگتی ہوگی عنبر؟ موٹی ہوگئی ہوگی۔ ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں مگر وہاں عنبر تو نہ تھی۔ ایک تھکی ماندی، بکھرے بال اور اجڑا حال لیے درمیانی عمر کی کمزور عورت وہاں بیٹھی، خلاء میں گھور رہی تھی۔ جس کی رنگت جھلس چکی تھی۔ اور چہرے پر بے تحاشہ جھائیاں تھیں۔ اگر کبھی یہ عورت میرے پاس بھی گزر جاتی تو میں اسے پہچان نہ پاتی۔ واقعی یہ عنبر ہے؟۔

اُس کے ہاتھ میں بچہ نہ ہونے کی وجوہات لیے، بے شمار لیب رپورٹس تھیں۔ یہ کاغذات گواہ تھے، اُس کے رحم کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کے۔ اُس کی خاموش چیخوں اور بے آواز آہوں کے۔ درختوں کو بھی پیار سے آب و دانہ نہ ڈالیں تو وہ پھل نہیں دیتے، عنبر تو پھر عورت تھی۔ بچہ دانی نہ ہوئی، فوٹو اسٹیٹ مشین ہوگئی۔ ادھر کاغذ ڈالا۔ اُدھر ڈپلیکیٹ برآمد۔ ورنہ مشین پر out of orderکا tag  لگا کر اُسے فارغ کردو۔

”ڈاکٹر عالیہ! میں patientکو کیا کہوں؟“اسسٹنٹ نے بیزار ہو کرپوچھا اور میں حقیقت میں لوٹ آئی۔”کہ وہ کل آجائیں؟ مسز عنبر کلیم“۔

”عنبر سلطانہ ہے وہ“ میں بلبلا گئی۔

”اُسے عزت سے اندر لے آؤ۔۔ بہت انتظار کر چکی وہ۔ اب اور نہیں“

یہ کہ کر میں اپنی نازک اندام، گلابی، صبیح رنگت والی عنبر کے اندر آنے کی گھڑیاں گننے لگی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے