یوں سِسک سِسک کر

ایڑیا رگڑ کر

کب تک بھیک پہ پَلنا ہوگا؟

 

اپنی محنت کے بَل پر

عزت اور آزادی سے

دو وقت کی روٹی ملے

چھوٹا سا گھر ہو، تعلیم ملے

علاج ہو اور دوا ملے

محبت اور سچائی کے لیے

جمہوریت اور خود داری کے لیے

بس انساں بن کر جینے کے لیے

بچوں کے موتی جیسے جیون کو

کب تک بھینٹ دینا ہوگا

سر پھرے جوانوں کو

جیلوں میں سَڑنا ہوگا

اذیت کے تختوں پر چڑھنا ہوگا

ہاں کتنی بار مرنا ہوگا

آخر کتنا خون دینا ہوگا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے