ہجرتیں آسان نہیں ہیں

دھرتی سے بازار اٹھ گئے

پابجولاں ہجرتیں اب گردن تک آن پہنچیں

نالاں ہجرتیں

کہ مہاجروں کے لہو

مٹی کی زرخیزی کرتے۔

تمام کنویں سوکھ کر

کب تک یوسف اگلتے رہیں گے

ہجرتیں سہ نہیں پاتیں

نادان ہجرتیں

اب تو پلکیں جھپکنے پر

لعلیں اشک گرتے ہیں

اور پھر

خاموشی کے ساتھ

جوتے کے تلوے سے چپک کر

وہ اگلی ہجرت کو روانہ ہوجاتے ہیں

جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں

مجمع عام یکجا ہو کر

سنگریزی کاکام کرتے ہیں۔

صافے،دوپٹے نونہالوں کے پلو سے بندھی ہجرتیں

چشم نمناک کو ترستی ہیں

نین کٹورے اسود،اندھے

چومنے جانے کی بجائے

کنکریوں سے ریزہ ہوئے

یہ ہجرتیں،اپنے سوا سب کچھ ہیں

بار ہستی اٹھائے

سراپا احتجاج ہجرتیں

راس کب آئیں

سنگ دشنام اور روز ناکام

حاکم شہر کے لیے

پروانہ شاہی کا مقام رکھتے ہیں

سو وہ بھی گریزاں ہیں

ہجرتوں کو شایان بنانے سے

سرگوشیاں کرتی ہجرتیں

دست قاتل کے شایان

مست و رقصاں چلنے والے

بستے گلے میں لٹکائے

دست افشاں لہراتے،کلکاریاں پھیلاتے

پھر انہی کی سر بریدہ لاشیں

باصفا ملتی ہیں۔

ہجرتیں کرتی ان کی روحیں

رخت دل میں   باندھ کر

فیض کے ساتھ مل کر

حسن دست عیسی،اور یاد روئے مریم بن چکیں

پابجولاں ہجرتیں۔

اب راس نہیں آتیں

اب پاس نہیں آتیں

مہاجرت کا کتبہ لگائے

زندان پر لٹکتی ہجرتیں

اب پابند سلاسل ہیں

سو بھول جاؤ،کہ بازار میں

اب پابجولا چلیں۔

ہجرت کے مقبرے پر

موسمی پرندے بھی نہیں بھٹکتے

ہجرت اپنا پتہ کھو بیٹھی

اور مقبرے کے مینارے پر

اب اوندھی لٹکی

تمام مہاجروں کے لیے

نشان عبرت ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے