بلوچستان سنڈے پارٹی 6 مارچ 2022 کو زیر صدارت کلثوم بلوچ پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئی جس میں عورتوں کی عالمی دن کی اہمیت پر بات کی گئی۔ڈاکٹر شاہ محمد مری نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہم عورت کے لیے چند الفاظ جیسے ضعیفی، زال بول اور جنیں آدم استعمال کرتے ہیں جبکہ مرد کے لیے یہ الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ میری تجویز ہے عورت کے لیے بلوچی میں لفظ جن استعمال کرنا بہتر ہے۔ بات جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کیا  ویمین ڈے صرف عورت کے لیے ہے یا مرد کے لیے بھی ہے؟ بنیادی طور پر 1910 میں سلائی کرنے والی (درزن) مزدور عورتوں نے یہ تحریک شروع کی اور کلارا زیٹکن نے 1911 میں نے اس کو ہر سال منانے کا فیصلہ کیا۔ روس نے انقلاب کے بعد دو دنوں یعنی یوم مزدور اور عورتوں کے عالمی دن کو سرکاری سطح پر منانے اور چھٹی کرنے کا فیصلہ کیا۔

بنیادی طور پر یہ دن ورکنگ ومنز کا دن تھا جس کے بنیادی مطالبات میں اجرت میں اضافہ اور کام کرنے کے گھنٹوں میں کمی شامل تھیں۔ یہ دن انٹرنیشنل ورکنگ وومن ڈے تھا لیکن بعد میں اقوام متحدہ نے اس کو قبول کیا اور اس میں سے لفظ ورکنگ کو حذف کیا گیا۔یوں یہ دن اب انٹرنیشنل وومن ڈے بن گیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ مزدور عورت گم ہوگئی۔ اور ورکنگ کلاس وومن کا پرچم اوروں نے اٹھا لیا۔

مست توکلی کو گزرے 150سال گزرے ہیں اس کی عورت کے بارے میں تین بنیادی خواہشات تھیں کہ

۔1۔ سمو پاذ گو ں جتڑی آں:یعنی سمو کے پیروں میں جوتیاں ہوں

۔2- سمو سرگوں چنڑی آں:یعنی سمو کے سر پر دوپٹہ ہو

۔3۔ سملئے لوغ گوں کڑیاں یعنی سمو کا رہنے کو گھر ہو

کیا آج ڈیڑھ سو سال گزرنے کے بعد مست کی وہ خواہشات پوری ہوئیں یا نہیں؟

وحید زہیر نے کہا کہ ایجوکیشن کی ضرورت ہے اور ہراسمنٹ کا مسئلہ چل رہا ہے۔

بیرم غوری صاحب کے مطابق یہ کلاس سٹرگل کی بات ہے۔زرعی دور میں عورت کے لیے کچھ اور کرائیٹریا طے کیے گئے اور اب انڈسٹریل دور میں عورتوں کا حقوق الگ تعین کیے گئے۔

سلام بلوچ کہتے ہیں کہ جو تین باتیں مست کی خواہش تھیں وہ آج بھی پوری نہیں ہورہی ہیں۔ضیا بلوچ نے کہا کہ ہم سب بھائی بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں لیکن ہماری بہنیں دیہات کے سکولوں میں پڑھتی ہیں ان کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اکرم بلوچ کہتے ہیں کہ تاریخی طور پر بلوچ سماج میں جتنے مراعات خواتین کو حاصل تھے اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن انگریز آنے کے بعد اس کے اثرات نے ہمارے سماج میں بدلاؤ لایا جو عورت کی محکومی کی شکل میں نظر آرہی ہے۔

شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ اس ساری ڈسکشن کے بعد دو نئے سوال پیدا ہوئے کہ عورت کا استحصال مرد کر رہا ہے یا ریاست؟۔

علی مینگل نے کہا کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا کہ عورت اسسٹنٹ ہے مرد کی۔ اور مرد تاریخی طور پر لیڈر کرتا ہے اور سربراہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر شاہ محمد مری کہنے لگے کہ تاریخی طور پر ایسا نہیں ہے۔ماں کی اہمیت زیادہ تھی، عورت خاندان کا سربراہ ہوا کرتی تھی اور یہ عورت اسسٹنٹ والی بات بعد میں ہوئی، ہم آج بھی ”مادری“ زبان، ”مادر وطن“ کے لفظ اس لیے استعمال کرتے ہیں۔ 9ہزار قبل مہرگڑھ کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی ہستی مقدس ہوا کرتی تھی۔

کہا گیا کہ ہمارے دیہاتوں کے دیہات امنڈ کر شہروں کی طرف آرہے ہیں جس سے دو بڑے نقصا ن ہورہے ہیں۔ اول:دیہات کا بسا بسایا نظام درہم برہم ہوگیا۔ دوم:شہروں میں آنے والے لوگ سماجی و تقافتی لحاظ سے عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اس افراتفری کے ماحول میں کمزور طبقے یعنی عورت پر سٹریس زیادہ آتی ہے۔

پروفیسر جاوید صاحب نے کہا کہ یہ  عورت عورت کا تضاد نہیں اور نہ ہی مرد عورت کا تضاد ہے بلکہ یہ معاملہ طبقاتی ہے۔ ہم طبقاتی سماج میں رہ کر عورت کے حقوق حاصل نہیں کر پائیں گے لیکن پھر بھی ہم ان حقوق کی جنگ جاری رکھیں اور مطالبہ کرتے رہیں گے۔

کلثوم بلوچ کہتی ہیں کہ ماضی اور ابھی کی عورت کا موازنہ کریں کہ کیا آج کے عورت کو حقوق مل رہے ہیں یا حقوق چھین لیے گئے ہیں۔کیا آج کا مرد بھی وہی بات کرتا ہے جو مست نے کی؟۔

ایک دوست نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ سنڈے پارٹی کے دوست کیا سمجھ رہے ہیں ہم انفرادی طور پر اور مجموعی طور پر اس معاملے پر کیا کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بات طے کرنا پڑے گی کہ یہ معاملہ سیاسی ہے، سماجی ہے یا معاشی ہے۔ ہم انٹرنیشنل ومن ڈے کی بات کررہے ہیں تو ہم عورت کی بات کر رہے ہیں اور جب ہم اس اجتماع سے جائیں تو عورت کے بارے میں ہمارا نظریہ زیادہ نفیس ہوگا اور ہم نے اپنے قرارداد میں جلسوں میں یہ بات واضح طور پر رکھنا ہوگا۔ہم عورت پر ہونے والے ہر ظلم خواہ سیاسی ہو سماجی ہو یا معاشی کے خلاف بات کریں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نظام ہی ایسا بنا ہوا ہے۔مثلاً اگر پارلیمنٹ میں عورتیں نہیں تو سنڈے پارٹی میں بھی عورتیں نہیں ہیں۔ اس کا مطلب معاملہ شخصی بھی ہے اور سیاسی و سماجی بھی ہے۔

نجیب سائر کہتے ہیں سوال جوتا،چھت اور چادر کی بھی ہے تاہم ہم نوجوان عورت کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں۔ اپنے آپ میں خواتین کا احترام پیدا کریں اپنے گھر سے شروع کریں۔عورت بہت قربانیاں دیتی ہے۔وہ رات سب سے دیر تک جاگتی ہے اور صبح سب سے پہلے اٹھتی ہے۔اس لیے اس کے ساتھ نفیس رویہ روا رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خیال رکھنا ہو گا کہ ہم عورت کو مزید قید کرنے والے اور اس پر مزید ظلم کے پہاڑ ڈالنے والے لوگوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے۔ ہم مظلوم عورت کے ہر نعرے کا ساتھ دیں گے ہم عورت کی آزادی کے جلوس کا ساتھ دیں گے۔

بحث کا خلاصہ نکلا:۔

۔1۔ ہم عورتوں کے بارے میں جمہوری رویہ اپنائیں گے ان کے ساتھ حاکم محکوم کا نہیں بلکہ برابری کا رویہ رکھیں گے

۔2- عورتوں کا جو استحصال ہو رہا ہے۔وہ سیاسی، معاشی یا سماجی مسئلہ ہے۔ اس لیے ہم ہر فورم پر اس استحصال کے خلاف آواز بلند کریں گے اور نظام یعنی فیوڈلزم کے خلاف سیاسی جدوجہد کریں گے۔

بلوچستان سنڈے پارٹی کے آخر میں ڈاکٹر عبدالحیی بلوچ کی رحلت پر دعا ئے مغفرت کی گئی اور پھر بلوچستان سنڈے پارٹی کے وفد نے بلوچستان کے نامور پروگریسو نیشنلسٹ ڈاکٹر عبدالحیٰ بلوچ کی رحلت پر ان کی رہائش گاہ پر جا کر بھی  فاتح خوانی کی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے