کمیونسٹوں نے قوموں کے درمیان جنگوں کی وحشیانہ اور بے رحم ہونے کے سبب ہمیشہ مذمت کی ہے۔ لیکن جنگ کی بابت ہمارا رویہ عدم تشدد کی بنا پر بورژوا جنگ مخالفوں (امن کے حامیوں اور علمبرداروں) اور نراجیوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ہم اول الذکر سے اس لیے اختلاف رکھتے ہیں کہ ہم جنگوں اور ملک کے اندر طبقاتی جدوجہد کے درمیان ناگزیر تعلق کو سمجھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ جنگیں اس وقت تک ختم نہیں کی  جاسکتیں جب تک کہ طبقات ختم نہ ہو جائیں اور کمیونزم قائم نہ ہو جائے۔ ہمیں اختلاف اس لیے بھی ہے کہ ہم خانہ جنگیوں کو، یعنی جنگیں جو مظلوم طبقہ ظالم طبقے کے خلاف لڑتا ہے، غلاموں کی آقاؤں کے خلاف، غلام کسانوں کی زمینداروں کے خلاف، اجرتی مزدوروں کی بورژوازی کے خلاف بالکل منصفانہ، ترقی پسند اور ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم مارکسیسٹوں کو عدم تشدد کی بنا پر بورژوا جنگ مخالفوں اور نراجیوں دونوں سے اس لیے اختلاف ہے کہ ہم ہر جنگ کا جدا جدا مطالعہ کرنا ضروری تصور کرتے ہیں۔ماضی میں ایسی بے شمارجنگیں بھی ہوئیں جو اپنی ان تمام ہولناکیوں، مظالم اور تکالیف کے باوجود جو تمام جنگوں کی جلو میں ناگزیر ہوتی ہیں، ترقی پسند تھیں، یعنی انہوں نے یورپ میں انتہائی ضرر رسان اور رجعت پرست اداروں (مثلاً مطلق العنانی یا کسان غلامی) اور انتہائی وحشیانہ جابر حکمرانی (ترک اور روسی) کو ختم کر کے انسانیت  کی ترقی میں مدد دی۔۔۔۔۔

 

جدید دور میں جنگوں کی تاریخی قسمیں

انسانیت کی تاریخ میں عظیم فرانسیسی انقلاب نے ایک نئے عہد کا آغاز کیا۔ اُس وقت سے لے کر پیرس کمیون تک، یعنی 1789اور 1871کے درمیان، ایک قسم کی جنگ کا کردار بورژوا ترقی پسند تھا جو قومی نجات کے لیے لڑی گئی۔ بہ الفاظ دیگر مطلق العنانی اور جاگیرداری کا تختہ الٹنا، ان اداروں کی بیخ کنی کرنا اور بیرونی ظلم کا خاتمہ کرنا ایسی جنگوں کا خاص مافیہہ اور تاریخی اہمیت تھی۔ لہذا یہ جنگیں ترقی پسند تھیں۔ ایسی جنگوں میں تمام ایماندار اور انقلابی جمہوریت پسندوں نے، اور تمام کمیونسٹوں نے بھی ہمیشہ اس ملک یعنی اس بورژوازی کی کامیابی چاہی جس نے جاگیرداری، مطلق العنانی اور دوسری قوموں پر ظلم کا تختہ الٹنے یا ان کی انتہائی خطرناک بنیادوں کو ہلا ڈالنے میں مدد دی۔ مثال کے طور پر جو انقلابی جنگیں فرانس نے لڑیں  ان میں لوٹ مار اور فرانس کے ہاتھوں بیرونی علاقوں کی تسخیر کا ایک عنصر ضرور موجود تھا لیکن اس سے ان جنگوں کی بنیادی تاریخی اہمیت بالکل نہیں بدلتی۔ انہوں نے سارے پرانے، کسان غلامی والے یورپ میں جاگیرداری اور مطلق العنانی کو تباہ کیا یا ان کی بنیادیں ہلا ڈالیں۔ فرانسیسی پروشیائی جنگ  میں جرمنی نے فرانس کی لوٹ مار کی، لیکن اس سے جنگ کی بنیادی تاریخی اہمیت نہیں بدلی کیونکہ اس نے لاکھوں جرمن عوام کو جاگیردارانہ نفاق اور دو جابروں۔۔۔ روسی زار اور نپولین سوئم سے نجات دلائی۔

 

جارحانہ اور مدافعانہ جنگوں میں فرق

۔1789سے 1871تک کے دور نے اپنے گہرے نشانات اور انقلابی یادیں چھوڑیں۔ جاگیرداری،مطلق العنانی اور بیرونی ظلم کا تختہ الٹے بغیر کمیونزم کی پرولتاری جدوجہد کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ اس دور میں جنگوں  کے متعلق جب کمیونسٹوں نے اظہار خیال کیا تو ”مدافعانہ“ جنگوں کے منصفانہ ہونے پر زور دیا، ان کے یہی مقاصد تھے، یعنی ازمنہ وسطی کے نظام اور کسان غلامی کے خلاف انقلاب۔ ”مدافعانہ“ جنگ سے کمیونسٹوں کی مراد ہمیشہ ”منصفانہ“ جنگ کے مخصوص معنوں میں ہے۔ صرف اس معنوں میں کمیونسٹوں نے  ”مادر وطن کی مدافعت“ یا ”مدافعانہ“ جنگوں کو ہمیشہ جائز، ترقی پسند اور منصفانہ قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر کل مراکش فرانس کے خلاف، یا ہندوستان برطانیہ کے مقابلے میں، یا ایران یا چین روس کے خلاف جنگ کا اعلان کر دے تو اس سے قطع نظر کہ کون پہلے حملہ کرے گا یہ  ”منصفانہ“ اور ”مدافعانہ“ جنگیں ہوں گی۔ ہر کمیونسٹ ظالم، غلاموں کی آقا اور قزاق ”عظیم“ طاقتوں کے خلاف مظلوم، محکوم اور غیر مساوی ریاستوں کی فتح چاہے گا۔

لیکن تصور کیجیئے کہ ایک آقا جو 100غلاموں کا مالک ہے دوسرے آقا کے خلاف جس کے پاس 200غلام ہیں، غلاموں کی ”منصفانہ“ از سرِ نو تقسیم کے لیے جنگ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اصطلاح ”منصفانہ“ جنگ یا ’’مادر وطن کی مدافعت“ کی جنگ کا استعمال تاریخی لحاظ سے صریحاً غلط ہوگا اور عملاً غلاموں کے آقاؤں کے ہاتھوں عام لوگوں، عامیانہ خیال والوں اور نادانوں کو بالکل دھوکہ دینا ہوگا۔ اسی طرح لوگوں کو ”قومی“ نظریے اور ”مادر وطن کی مدافعت“ کے نام پر آج کا سامراجی بورژوازی اس جنگ کے بارے میں دھوکہ دے رہا ہے جو غلام کے آقاؤں کے درمیان ہو رہی ہے تاکہ غلامی کا نظام مستحکم ہو۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے