سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی و ادبی نشست ’پوہ زانت‘کا اجلاس 27 فروری2022 کی صبح گیارہ بجے پرفیشنل اکیڈمی میں منعقد ہوئی۔ نشست کی صدارت سنگت اکیڈمی کے مرکزی جنرل سیکرٹر ی ڈا کٹر عطا ء اللہ بزنجونے کی۔ اعزازی مہمان ڈپٹی سیکرٹری جنرل نجیب سائر تھے جبکہ نظامت کے فرائض جمیل بزدار نے ادا کیے۔اجلاس کے آغاز میں معروف بزرگ سیاستدان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، ڈاکٹر مہدی حسن اور قاضی عابد کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ پڑھی گئی۔مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے اجلاس کی کارروائی بلوچی زبان میں انجا م دی گئی۔نیز بک سٹال سے شرکا نے اپنی من پسند کتابیں خریدیں۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے مندرجہ بالاتینوں اہم شخصیات کی خدمات پہ روشنی ڈالی اور دوستوں کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ہمارے سینئراور معتبر تھے۔ انہوں نے جوانی میں سیاست شروع کی۔ خان قلات کے خلاف قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے، جیت گئے اور ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ڈاکٹر صاحب بی ایس او کے بانیوں میں سے تھے۔ غریب پرور اور عاجزی پسند آدمی تھے۔کوئی رعب داب نہیں کرتے تھے۔وہ سب کے کام آتے۔ وہ ایک زبردست پروگریسو نیشنلسٹ اور ایماندار سیاست دان تھے۔ پیدل جاتے تھے۔ کوئی موٹرسائیکل یا گاڑی پر لفٹ دیتا تو سوار ہوتے۔ بنا باڈی گارڈ اور پروٹوکول کے لوگوں کے پاس آتے جاتے۔وہ ہر آدمی کی رسائی والے انسان تھے۔ وہ مارشلا کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ گرفتار ہوئے، تکلیف میں رہے لیکن جدوجہد ترک نہ کی۔بلوچستان کے عوام، یہاں کی سیاست،سنگت اکیڈمی اور بلوچستان سنڈے پارٹی کے لیے یہ بلاشبہ ایک بڑا نقصان ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن پنجاب یونیورسٹی میں جنرلزم ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھنے والے ا ستاد تھے۔ پنجاب یونیورسٹی بنیاد پرستوں کا گڑھ ہے جو اپنے ہر مخالف کا یا تو تبادلہ کرواتے ہیں یا پھر اسے خاموش رہنا پڑتا ہے۔لیکن یہ شریف آدمی اپنی بات پر آخری دم تک قائم رہے۔ مارشلا کے خلاف بھی ڈٹے رہے۔ڈاکٹر مہدی حسن جمہوریت، آزادی ِ اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کے کارکن رہے۔ایک دہیمے لہجے کے دلیل بھرے انسان تھے۔ بلاشبہ ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
پروفیسر قاضی عابد بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔اردو اور سرائیکی ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھے۔ وہ پروگریسو رائیٹر کے اچھے ممبر تھے۔ کوئٹہ آئے تو سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے مہمان بنتے۔عقل و دانش کی قدر کرتے تھے۔ ایک اچھے استاد اور محقق تھے۔
جمیل بزدا رنے ڈاکٹر منیر رئیسانی کو ماہ فروری کے سنگت رسالہ پہ ریویو پڑھنے کی دعوت دی۔ آغاز انہوں نے یوں کیا کہ”ماہنامہ سنگت کے پچیسویں برس کا ماہِ فروری کا شمارہ اپنی مخصوص مہک لیے میرے ہاتھوں تک پہنچا تو سرورق نے کافی دیر تک دامنِ نگاہ تھامے رکھا۔نراشا سے ابھرتی آس کا منظر، زنگ خوردہ بند قفل سے جنم لیتی ہوئی کونپل۔ امید کا، سرسبز ہونے کا پیغام“۔ حسبِ روایت زور دار، فکر انگیز اور زندہ لوگوں کو سوچنے کی دعوت دیتا ہوا شمارہ ہے۔ساحر کے فلمی گیت کو نئی ریت کا نام دیا اور اس خواہش کااظہار کیا کہ اگلے شمارے میں مجروح سلطان پوری کا گیت شامل کیا جائے۔انہوں نے تمام تحریروں پہ اپنی رائے دی گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔
ان کے بعد علی عارض نے فیدور دستویفسکی کے ناول ’بیچارے لوگ‘ پہ تبصرہ پڑھا۔ناول دبے کچلے لوگوں کی کہانی کو بیان کرتا ہے۔ وہ لوگ جن کا کوئی مددگار نہیں خدا کے سہارے جیتے ہیں۔خدا کو یاد کرنے سے ان کو تسلی ملتی،ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ان کے درد کا مداوا ہوتا ہے۔ مگر ان کی زندگی اور حقیقی مشکلات میں کوئی بدلاؤ نہیں آتا۔ اپنی محکومی اور غربت کو اپنی قسمت سمجھ کر ان مشکلات اور محکومیوں کے ساتھ جینے کی عادت ڈالتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کہانی پڑھتے ہوئے بالکل اجنبیت محسوس نہیں کی۔ ایسے لگا جیسے ہمارے معاشرے کی عکاسی کی گئی ہو۔مجھے مصنف روسی نہیں لگا وہ تو ہمارے اپنے لوگوں میں سے ہے جیسے وہ ہمارے بیچ رہتا ہو۔ہمارے معاشرے کا جائزہ لے کر لکھا ہو۔آج بھی ایسا ہے معاشرے کا اشرافیہ اپنی پوری قوت غریبوں کو کچلنے میں لگا دیتا ہے۔عارض نے سامعین کو اس کتاب کے مطالعہ کی دعوت دی۔
ان کے بعدنے غلام دستگیر نے قراردادیں پیش کیں اور اجلاس سے منظوری لی۔
۔1۔یہ اجلاس معروف بزرگ سیاستدان ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، ڈاکٹر مہدی حسن اور قاضی عابد کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتا ہے۔
۔۔2۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کی مذمت کرتا ہے۔
۔3۔روس اور یوکرین کی جنگ ایک سامراجی جنگ ہے۔ ہم اس کی مذمت کر تے ہیں۔
۔4۔اٹھارویں ترمیم کو بلوچستان میں نافذ کیا جائے اور بلوچ عوام کی صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا جائے۔
۔5۔اٹھارویں ترمیم کے مطابق تعلیمی نصاب سازی کا حق ہر صوبے کو حاصل ہے اس لیے مرکزی تعلیمی نصاب نامنظور ہے۔
۔6۔بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے اور تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو بے روزگار الاؤنس دیا جائے جب تک کہ وہ بے روزگار ہیں۔
۔7۔بلوچستان کا مسئلہ سیاسی، معاشی و داخلی ہے، اسے سنجیدہ طور پر لیا جائے اور اس کا سیاسی حل پیش کیا جائے۔
۔8۔ بلوچستان کے 600 میڈیکل طلبا کا مسئلہ جلد از جلد حل کیا جائے۔
ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے اپنے صدارتی کلمات میں سب کا شکریہ ادا کیا اور نئے ممبرز کو سنگت اکیڈمی میں شمولیت پہ خوش آمدید کہا۔ صدرِمحفل نے بزرگوں کی یوں رحلت کو ساتھیوں کے لیے ناقابل تلافی نقصان کہا۔ اس نے مزید کہا کہ مادری زبانوں کی زبوں حالی پرافسوس ہی کرسکتے ہیں۔مادری زبان میں جب تک تعلیم نہیں دی جائے گی اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی۔74 زبانیں ملکی سطح پر بولی جاتی ہیں جن میں کئی کا نام و نشان تک نہیں اور باقی بہت سی زبانیں دم توڑ چکی ہیں جس کی وجہ ہمارے ہاں اس حوالے سے کوئی پالیسی موجود نہیں۔
ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو کی زبانی ساحر لدھیانوی کی اس نظم سے نشست کا اختتام ہوا۔
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی