ماہنامہ سنگت کے پچیسویں برس کا ماہِ فروری کا شمارہ اپنی مخصوص مہک لیے میرے ہاتھوں تک پہنچا تو سرورق نے کافی دیر تک دامنِ نگاہ تھامے رکھا۔ نراشا سے ابھرتی آس کا منظر۔ زنگ خورہ بند قفل سے جنم لیتی ہوئی کونپل۔ امید کا، سرسبز ہونے کا پیغام۔ سرورق کے اندرونی صفحے پر ن۔م دانش کی نظم نظر آئی۔ انہوں نے فن کار اور معاشرے کے رویوں کی بات کی ہے۔ کہ کیسے کرب، درد اور دکھ سے گزر کرکہی گئی نظم کو سننے والوں کا تماش بینی رویہ محض تالیاں پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔
شونگال حسبِ معمول، حسبِ روایت زور دار، فکر انگیز اور زندہ لوگوں کو سوچنے کی دعوت دیتا ہوا ٹیکس بازی“ کی بر محل اصطلاح وضع کرنے کے بعد ایک ہی سانس میں پچاس سے زائد ٹیکسوں کا ذکر کیا گیا ہے۔یہ وہ ٹیکس ہیں کہ جن کے بارے صبح شام اعلان ہوتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے (ویسے یہ لفظ عوام بذاتِ خود شدید سماجی تفریق کا مظہر ہے)۔
اتنے ٹیکسوں کے نام یاد رکھنے پر بھی کوئی ٹیکس لگ سکتا ہے۔ دامنِ خیال سے لپٹنے والے چند جملے دیکھئے
”لگتا ہے جیسے رائٹسٹ سیاستدانوں کے گلے میں گنڈ یری پھنس گئی ہے“۔
”یہ ایک نعرہ باز، شور پسند، بڑھک باز اور دکھاوا پرست معاشرہ ہے“۔
عوام کو اصل حقائق سے بے خبر رکھنے کے لیے جو جتن کیے جاتے ہیں ان کے بارے میں لاجواب جملے دیکھیں:
”اس لیے کہ درمیان میں جبل الموت، اور حشیشین اور گوپیاں اور شہد و شراب کی نہریں، توجہ ہٹانے کے لیے ہمہ وقت موجود رہتی ہیں“۔
بلوچستان وہ چوتھا کھونٹ ہے کہ جس کی جانب جانے کی ممانعت ہے۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے لیے تو شجرِ ممنوعہ ہے“۔ اس جملے سے مصباح نوید کے اس مضمون کا آغاز ہوتا ہے جو کہ شاہ محمد مری کی کتاب ”مستیں تؤکلی“ کے بارے میں ہے۔ مضمون بہت تفصیل اور دقیق نظری سے لکھا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ کیسے سمو مست کے لیے صرف سمو نہیں رہتی بلکہ نعرہ مستانہ بن جاتی ہے۔ سمو وہ علامت ہے کہ جو عورت کے دوسرے درجے کے انسان ہونے اور ہر شعبہ حیات میں پیچھے دھکیلے جانے کی علامت ہے۔ مصباح لکھتی ہیں کہ بیان محبت کا ہو تو پھر شاہ محمد کا قلم دھمال ڈالتا ہے۔ اس جملے میں تھوڑا سا اضافہ یہ ہو سکتا ہے اگر شاہ محمد کے قلم کے دھمال کا ذکر کسی طناز افسانہ نگار کے قلم سے نکلے تو یہ دھمال ”گلبدنوں کا دھمال“ بن جاتا ہے۔اگلا مضمون عابد میر کی کتاب دورنگی“ میں شامل ایک افسانے ”تکمیل کی راہ میں“ پر اظہار خیال ہے۔یہ مختصر مضمون افسانے کے مختلف پہلو ؤں پر دی گئی آراء پر مشتمل ہے۔ مضمون کو جس طرح اچانک کوئی خوبصورت موڑ دیئے بغیر ختم کیا گیا ہے اس سے مضمون نگار کا اناڑی پن کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ (یہ مضمون خود ڈاکٹر منیر نے لکھا تھا۔۔۔ ایڈیٹر) ثروت زہرا کی نظم ہمیشہ کی طرح خوبصورت ہے۔ کتاب پچار میں سبطِ حسن صاحب کی کتاب ”پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء“ پر عابدہ رحمن کا تبصرہ ہے اور کیا ہی لاجواب تبصرہ ہے۔ مطلب یہ کہ کتاب کو دل جمعی سے پڑھ کر سمجھ کر باب وار تفصیلی تبصرہ کیا گیا ہے۔ ہم جو رسالوں، اخباروں میں پھیکے، بے رس، رٹے رٹائے اسٹریو ٹائپ تبصرے دیکھ کر اکتا جاتے ہیں ان کے لیے عابدہ رحمن کے تبصرے ایک نئے طرزِ نگارش کی بنیاد ہیں۔ عابدہ رحمن نے تبصرہ نگاری کو معزز بنایا۔ میں ان کے اس جملے سے متفق ہوں کہ ”اگر آپ اپنے ذہن کو کونوں، کھدروں سے مغالطوں کا میل نکالنا چاہتے ہیں تو اسے اِس کتاب کی ہوائے تازہ دیں“۔ عبدالرحمن غور صاحب کی نظم ”دولت کے بغیر“ نفسِ مضمون کے ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے بزرگ اردو شاعری میں نئے تجربے بھی کرتے رہے ہیں۔ سنگت کے ماہِ جنوری کے شمارے پر عابدہ رحمن کا مضمون ہے۔ سنگت کے بکھرے موتی کے عنوان سے لکھا گیا یہ مضمون کوئٹہ کی عوامی زبان میں ہے۔اسے پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ ”یارا ابھی ایسا بمباٹ مضمون کے بعد تم کیا لکھے گا۔ ہمارا مانتا ہے تو خود کو شارٹ کرو۔ ڈاکٹر عطاء اللہ پوچھے گا تو اس کا آگے کوئی اسٹوری ڈال دینا۔ وہ جانان آدمی ہے ولا کے ناراض ہوجائے۔
نسیم سید کی دلکش نظم انکا مخصوص نشیلا رنگ لیے ہوئے ہے
”نوازشیں ہیں وقت کی
کہ آج پھر ہمارے ہاتھ پر دھری ہیں مہلتیں“
اس شمارے میں ایک خزانہ گودی گوہر ملک کے ایک انشائیے اور دوکہانیوں کی صورت موجود ہے۔ میری ”دادا“ دادا ہوگئی ایک ہی لفظ کے مختلف علاقوں میں مختلف مطلب ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں نہایت پرلطف انشائیہ ہے۔ ان کی کہانیاں ”عورت“ اور ”شک کا فائدہ“ کے عنوان سے شامل ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کیسے کیسے گوہر آبدار جھوٹی روشنیوں کی چکا چوند میں اوجھل رہے۔
آسیہ رحمن نے اپنے محترم والد رؤف وارثی صاحب کے بارے میں مضمون لکھا ہے۔ عمر بھر کمیٹڈ رہنے والے ایسے لوگ اب شاید ہی ملتے ہیں۔
محترمہ فاطمہ حسن کے شوہر شوکت علی زیدی کی وفات پر شاہ محمد مری کا مضمون محبت اور ملال کے رو میں لکھا گیا ہے۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے۔ فاطمہ حسن نے اپنے ساتھی کی یاد میں جو مسلسل غزل کہی ہے وہ محسوس کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔ شاہ محمد مری نے ہانی اور شاہ مریذ کی داستان شاعری کے حوالوں کے ساتھ بیان کی ہے۔ شاہ مریذ وہ کردار ہے کہ جس نے بلوچستان کے نوجوانوں کو ہمیشہ fascinateکیا ہے سورج کا شہر گوادر کے بارے میں افضل مراد کی اپنائیت بھری خوبصورت نظم ہے۔
اس شمارے کی ایک اور خاص بات سنٹرل جیل مچھ سے لکھا گیا سجاد ظہیر صاحب کا ایک خط ہے جو انہوں نے اپنی بیگم کو لکھا تھا۔ کیا حوصلہ مندلوگ تھے وہ۔مچھ جیل میں انہیں سب سے قیمتی تحفہ فیض کی وہ غزل لگی جو میجر اسحاق نے منٹگمری جیل سے بھیجی تھی۔ خط کی ان سطروں کو ذرا محسوس کریں ”مدتوں اور برسوں کی جدائی کے بعد جب ہم تم سے ملیں گے تو عمر اور فکر اور رنج کی بنائی ہوئی بہت سی لکیریں ہمارے چہرے پر ہوں گی۔ بہت غیر مانوس اور عجیب عادتیں ہوں گی۔ اور پتہ نہیں کیا کیا عجائب وغرائب ہوں گے۔ معلوم نہیں ہم تمہیں کیسے لگیں“۔
سنگت میں اس مرتبہ ایک نئی ریت ڈالی گئی ہے وہ ہے فلمی گیت۔ شکیل بدایونی کا گیت“ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے“ اس شمارے میں شامل ہے۔ میری رائے بلکہ فرمائش ہے کہ اگلی مرتبہ مجروح سلطان پوری کا گیت”رہیں نہ رہیں“ تم شامل کیا جائے۔
قلات نیشنل پارٹی پر خان قلات کے جان لیوا حملے پر پارٹی کے ردِ عمل کے بارے میں شاہ محمد مری کا مضمون ہے جس میں بابو عبدالکریم شورش کا ایک پمفلٹ شامل ہے۔ جو درد مندی اور سیاست شناسی کا شاہکار ہے۔
بابر علی اسد کی نظم”دھرتی ماں اور بلوچ بیٹی“ اچھی لگی۔ چاند گرہن ڈاکٹر فہمیدہ حسین کا ترجمہ کیا ہوا افسانہ ہے جو موضوع پر مضبوط گرفت کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ اگر یہ بتایا جاتا کہ افسانہ کس زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ تو اچھا تھا۔
آخری صفحہ پر مایا اینجلو کی نظم
when great trees fall
نے سرشار کر دیا۔