تمہاری بزم کا دستور ہم سمجھتے ہیں

کوئی تو ہے تمہیں منظور ہم سمجھتے ہیں

ہمیں خبر ہے یہ قصرو کاخ ہیں کس کے

کہ فرقِ خواجہ و مزدور ہم سمجھتے ہیں

صلیب ودار سے اَ بتک لہو ٹپکتا ہے

حدیث عیسیٰ و منصور ہم سمجھتے ہیں

نہ چُھپ سکے گی کوئی داستان ِ جُرم و سزا

ہر ایک جام ہے کیوں چُور ہم سمجھتے ہیں

ہمیں نے دیپ جلائے کئی  اندھیروں میں

سحر قریب ہے، یادُور، ہم سمجھتے ہیں

لبِ کلیم نے بخشی ہے اس کو یہ عظمت

و گرنہ کچھ بھی نہ تھا طُور ہم سمجھتے ہیں

ہمارے دَم سے ہیں دُنیا کی رونقیں اے غور

فسانہ ہائے رُخِ حُور ہم سمجھتے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے