وہی کمرہ وہی گھر ہے

جہاں خوشیوں بھرے کچھ دن گزارے تھے

جہاں چھاؤں ہے اس پودے کی جس کو

تم نے سینچا تھا

جسے گملے سے تم لائے تھے آنگن میں

جسے سب موسموں کو جھیل کر خود کو بچانا بھی سکھایا تھا

وہ بچی جو تمھاری گود میں خوش ہوکے سوتی تھی

کبھی گھر دیر سے آتے تو کیسی روٹھ جاتی تھی

جسے بہلانے کی خاطر

تم اکثر شام کے سارے مشاغل چھوڑ آتے تھے

جسے تم نے کتابوں کی خریداری سکھائی تھی

جسے تم خود پڑھاتے تھے

وہی بچی وہی پیاری

مجھے بہلاتی رہتی ہے

تمھاری اچھی یادوں کو جگاتی ہے

مجھے سمجھاتی ہے بابا نے سارے کام پورے کردیے تھے

انھیں آرام کرنا تھا، سو وہ آرام سے اب ہیں

مگر میں سوچتی ہوں

تم جو اتنے مطمئن اس گھر سے لوٹے تھے

نئے رشتوں کی کتنی خوش دلی سے باتیں کرتے تھے

مگر جس وقت میں لوٹوں گی تب کس کو بتاؤں گی

کہ میں نے جو محبت اور شفقت اوڑھ رکھی ہے

فقط وہ اوپری تہ ہے کسی ایسے لبادے کی

کہ جس میں درد کو استر بنایا ہے سلیقے سے

تمھاری یاد کو اوڑھے

اسی کمرے میں رہتی ہوں

جہاں تم تھے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے