(مرکزی صدر، بلوچستان پروفیسرز اینڈلیکچررز ایسوسی ایشن)

بلوچستان کے محنت کش مزدور اور ملازمین گرینڈ الائنس کے پلیٹ فارم سے مظلوموں کے ہراول دستے کے طور پر اپنی مسلسل اور شان دار طبقاتی جدوجہد کی تیز نوک سے ملک اور صوبے کے سیاسی افق پر اپنے وجود کا خاکہ تراش رہے ہیں۔یہ ہراول دستہ پچھلے ڈیڑھ سالوں سے ملکی دارالحکومت سے لے کر بلوچستان کے ہر شہر، قصبے اور شاہ راہ  پر تنخواہوں میں اضافے، مہنگائی اور سام راجی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف وغیرہ کی عوام و مزدور دشمن پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف مزاحمت کے ایک استعارے کے طور پر ڈٹ کے کھڑا ہے۔ یہ سب ایک ایسے دور میں ہورہا ہے کہ جب عالمی طور پر آزاد بازار پر مبنی سرمایہ داروں کا معاشی و مالیاتی نظام بہت بڑے بحران کا شکار اور مسلسل زوال سے متروکیت اور فرسودگی کی طرف گام زن ہے۔ سرمایہ دارحکم ران اپنے نظام کے تاریخی نامیاتی بحران کے تمام تر خساروں اور عیاشیوں کا بوجھ اسٹیریٹی پیکیجز کے نام پر عوام اور محنت کشوں کی طرف منتقل کررہے ہیں۔اپنی شرحِ منافع کو برقرار رکھنے کے لیے وہ جسم و جان کے رشتے کو قائم رکھنے والی اجناس کی قیمتوں کو آسمانوں پر لے جارہے ہیں۔ بنیادی ضروریات ِزندگی بجلی، گیس اور پانی عوام کی اکثریت کے بس سے باہر نکلتی جارہی ہیں۔ تعلیم،صحت اور علاج معالجے کی ریاستی ذمہ داری سے جان چھڑا کر اسے نجی شعبے کے حوالے کرنے اور زخموں کو بیوپار بنانے جیسے ظالمانہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ غریب عوام اور محنت کشوں کی زندگی کو ہر پہلو سے مشکل تر بنانے میں حکم ران کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے۔

مذکورہ عالمی صورت حال میں پاکستانی ریاست بھی اپنی تاریخ کے سب سے گہرے ہمہ جہت اور وسیع معاشی و مالیاتی خساروں، ریاستی و سیاسی گہرے تضادات اور شدید بحران کی زد میں ہے۔ ان حالات کی کوکھ سے عوام پر نیم فسطائی رجیم مسلط ہوئی۔ ملکی سطح پر ایسے پرانتشار اور غیرمستحکم عہد میں بلوچستان کے محنت کش مزدوروں کی حالیہ تحریک کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تحریک صوبے میں عشروں سے جاری ریاستی جبرکی ہول ناکیوں، سیاست پر عائد اعلانیہ و غیر اعلانیہ پابندیوں، مسلط کی گئی فرقہ پرستی کے سفاک اندھیروں، خطے میں مزدور انقلابات کے سقوط کی مایوسی سے چھا جانے والے رجعت پرستی کے عفریت کے قبیح سائیوں تلے اور اذیتوں میں پلی نئی مزدور نسل کا ان سب کو چیر کر گھٹن زدہ حالات سے بغاوت کا پہلا اور توانا اظہار ہے۔

بلوچستان کا ملک کے دوسرے صوبوں سے مختلف اور پیچیدہ معروضی حالات کے حامل ہونے کی یہ دلیل کافی ہے کہ دیگر صوبوں کے محنت کش ملازمین مہنگائی کے خلاف اپنی تنخواہوں میں اضافے کی معاشی جدوجہد کے مرحلے پر ہیں اور انھیں بلوچستان کے ملازمین کی نسبت کسی بڑی جدوجہد کے بغیر ہی یہ اضافے مل جاتے ہیں جب کہ بلوچستان میں محنت کشوں کو بڑی لڑائی لڑنے کے بعد بھی یہ اضافہ پوری طرح نہیں ملتا۔ کیوں کہ بلوچستان گرینڈ الائنس کے ڈیمانڈ میں معاشی مطالبات کے ساتھ ساتھ برطرف ملازمین کی بحالی، ٹھیکہ داری نظام کے خاتمے، ٹریڈ یونین تنظیموں پر پابندیوں اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پرعوام و محنت کش دشمن حکومتی پالیسیوں اور متوقع اقدامات کے خلاف سیاسی درجے کے مطالبات بھی شامل ہیں۔ پچھلے سال اپریل کے شان دار دھرنے نے جہاں حکم رانوں کو لوہے کے چنے چبوائے، وہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود مزدوروں نے اپنی یکجہتی کی طاقت کا ادراک بھی حاصل کیا۔ بلوچستان کے کثیر القومی صوبے کی تاریخ میں پہلی بار شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پورے صوبے کے تمام شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ایک ہی وقت میں تمام اہم شاہ راہیں بند کرکے یہ ثابت کردیا کہ محنت کش مزدور ہی وہ طبقہ ہے کہ جو تمام تر نسلی قومی مذہبی تعصبات کو چیر کر عوام کویک جا اور حکمرانوں کے ظلم و استحصال کو چیلنج کرسکتا ہے۔

جام کی مطلق العنان اورمتکبر حکومت نے تحریک کے خلاف کئی ہتھکنڈے آزمائے۔روایتی تقسیم کرکے حکم رانی کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ کورونا کے پردے میں دفعہ 144 لگا کر اجتماع پر پابندی جیسے بلاجواز قدم سے لے کر سوشل میڈیا کے چند نام نہاد صحافیوں کو تحریک کے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ ملازمین میں موجود کالی بھیڑوں کو دھرنے کے اندر اور محنت کش ملازمین کے سوشل میڈیا گروپس میں حکومتی احکامات کو خوف اور ڈر کا ماحول پیدا کرنے کے لیے مسلسل سرگرم رکھا۔ جام کمال خود بھی دھرنے کے خلاف اپنے حواریوں کے ساتھ ملکر سوشل میڈیا پر گھٹیا مہم چلاتا رہا۔مزدوروں کے رقص و موسیقی اور مزدور ترانوں کی تضحیک کرتا رہا۔ جام حکومت ان تمام تر کوششوں کے باوجود تحریک کو شکست دینے اور خوف زدہ کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ بالآخرعدالت عالیہ کا سہارا لے کر اپنے چند گماشتوں کی پٹیشن کے ذریعے عدالت سے دھرنے کے خاتمے کا فیصلہ لیا۔اس طرح محنت کش ملازمین کی فیصلہ کن کامیابی اور حکومتی پسپائی کو عدالتی فیصلے کا پردہ مل گیا۔

اِس کے باوجود محنت کشوں کی تحریک نے تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ اپنی طاقت سے حاصل کیا۔ جب کہ مرکز اور دوسرے صوبوں میں یہ اضافہ 25 فیصد تھا۔ 10 فیصد کی کٹوتی دراصل محنت کش ملازمین کو ان کی سرکشی کی سزا تھی۔لیکن اس سرکشی نے سی اینڈ ڈبلیو کے 365 برطرف ملازمین بحال کروائے، گلوبل پراجیکٹ کی 1400 غیر مستقل خواتین اساتذہ جو دُور افتادہ علاقوں میں سکولوں کی عدم موجودگی میں بچے بچیوں کو پڑھاتی ہیں، تنخواہوں کے بقایاجات وصول کرواکے ان کو مستقل کروایا، فوت شدہ ملازمین کے لواحقین کی بھرتی سمیت تمام مطالبات پر سفارشات تیار کروائیں جن کو منظوری کے پراسس میں ڈالنے سے حکومت اور بیوروکریسی ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔

اپریل 2021ء کی احتجاجی تحریک اور اس کے نتائج پر ملا جلا ردِ عمل دیکھنے کو ملا۔حکومت،بیوروکریسی، چند متوازی ٹریڈ یونین کے دھڑوں اور اشخاص اس تحریک کے گہرے اور وسیع سماجی سیاسی اور نفسیاتی اثرات کو صرفِ نظر کرکے تنخواہوں میں فیصدی اضافے کے پیمانے پر اسے تول کر اسے مکمل ناکام و نامراد تحریک قرار دے کر محنت کش ملازمین کے حوصلے پست کرنے کی سعی کرتے رہے۔ جب کہ محنت کش ملازمین و مزدور، ان کی روایتی تنظیمیں اور مزدور تحریک کی شعوری اور تاریخی بڑھوتری پر نظر رکھنے والے جرائد اور انقلابی تنظیمیں اس تحریک کو طویل خاموشی کے بعد ظلمتوں کا سینہ چیر کر حکم رانوں کی سام راجی پالیسیوں کو چیلنج کرنے والی مزدور کی جرأت مند للکار سمجھتے ہیں۔

امسال مارچ 2022ء میں محنت کش مزدوروں اور ملازمین کی پچھلے سال کے للکار کی گونج ایک بار پھر بلوچستان کے طول وعرض میں گونجنے لگی۔ مزدور تحریک نے ایک نئی کروٹ لی۔ لینن کے الفاظ میں ”ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے“ کے مصداق مزدوروں نے دھرنے کے اسباق سے سیکھتے ہوئے مزدور کُش صورت حال کو سمجھتے ہوئے تازہ دم ہوکر اس بار ایک قدم آگے بڑھے۔اس بار دھرنے سے آگے کی جانب قدم پوری تیاری اور حساب کتاب کرکے اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں تحریک کو حرکت دینے اور منظم کرنے کے لیے تمام ضلعی مراکز کے پریس کلبز کے سامنے 7 مارچ کو تنخواہوں میں اضافے اور تسلیم شدہ مطالبات پر تیار سفارشات پر عمل درآمد اور منظوری کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ جہاں مرد و زن مزدوروں و ملازمین نے ان شان دار مظاہروں میں بھرپور شرکت کی۔ 15 مارچ کو پورے بلوچستان کے ملازمین کو کوئٹہ پہنچنے اور حکم رانوں کے نام نہاد ریڈزون میں داخل ہوکر سیکریٹیریٹ اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی دوران وفاق میں حکومتی اور سیاسی بحران اپنی انتہا کو پہنچا۔اتھل پتھل شروع ہوئی۔ جس نے صوبائی حکومتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔ 15 مارچ سے قبل ہی وزیراعلیٰ سمیت پوری صوبائی حکومت وفاق میں براجمان رہی۔ گرینڈ الائنس نے فیصلہ کیا کہ 15 مارچ کو ملازمین کوئٹہ آنے اور ریڈ زون میں داخل ہونے کی بجائے ضلعی مراکز میں ایک بار پھر پریس کلبز کے سامنے احتجاجی مظاہروں کو دہرائیں۔ کیوں کہ صوبائی حکومت کی عدم موجودگی میں بیوروکریسی اور ریاست کوئی فیصلہ لینے کی حالت میں نہیں۔ اس طرح ریڈ زون میں ریلیز کی شکل میں داخل ہونے اور وہاں احتجاجی دھرنا دینے سے کسی مثبت نتیجے کی توقع نہیں۔اس بنیاد پر ریڈزون کی جانب ریلیز اور وہیں فیصلہ کن دھرنے کے لیے 24 مارچ کا دن مقرر کیا گیا۔ 7 مارچ کے پہلے احتجاجی پروگرام سے قبل اور 24 مارچ تک بیوگا میں شامل مختلف تنظیموں نے تحریک کے مومینٹم کو بڑھانے اور اس میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں مزدوروں اور ملازمین کی شرکت کو ممکن بنانے کے لیے اپنی ضلعی تنظیموں اور یونٹس کے ہنگامی دورے کیے۔ محنت کش، مزدوروں اور ملازمین کو اس فیصلہ کن تحریک کی اہمیت، اس کی جیت یا ہار کی صورت میں مستقبل کی تحریکوں پر مرتب ہونے والے اثرات سے آگاہ کیاگیا۔ اس طرح 15 مارچ کو ایک بار پھر مرکزی شہر کوئٹہ سمیت گوادر سے ژوب اور چمن سے ڈیرہ اللہ یار تک بلوچستان بھر کے پریس کلبز کے سامنے مزدوروں اور ملازمین نے اپنے مطالبات کے حق اور مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف بھرپور اور شان دار احتجاج ریکارڈ کرایا۔ غربت اور مہنگائی کے شدید ترین دور میں 23 مارچ کو بلوچستان کے ہرگاؤں، قصبے اور شہر کے کھیتوں، ورکشاپوں، فارموں، سکولوں، کالجوں اور دیگر اداروں سے ہزاروں کی تعداد میں مزدور اور ملازمین گریڈ اور عہدے کے زعم یا کسی امتیاز کے بغیر بسوں، ویگنوں اور دیگر ذرائع سے کوئٹہ پہنچنا شروع ہوئے،تاکہ 24 مارچ کے مرکزی احتجاج میں شرکت اور تحریک کے نئے مرحلے کی فیصلہ کن لڑائی لڑسکیں۔

۔24 مارچ کو وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب مزدوروں کے مارچ والے دن اور اس سے ایک ہفتہ قبل کوئٹہ شہر اور چھاؤنی پر کسی بڑے دہشت گرد حملے کی مصدقہ اطلاعات نے عمومی طور پر ایک خوف کا ماحول پیدا کردیا تھا۔ کوئٹہ چھاؤنی تین دن تک مکمل طور پر سیل کرکے بند کردی گئی تھی۔ سکول،کالجز اور تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے۔ کوئٹہ شہر میں بھی تمام تعلیمی ادارے بند کرکے عوام کو گھروں سے بلاجواز نکلنے، کاروباری جگہوں پر جمگھٹا لگانے اور رش والی جگہوں پر جانے سے گریز کی ہدایات جاری کردی گئی تھیں۔ ملکی سیاسی صورت حال عدم استحکام کی شکار اور انتشار جیسی کیفیت جنم لے چکی تھی۔ایسے منتشر حالات، عمومی عوامی خوف اور دہشت کے سائے میں 24 مارچ کا فیصلہ کن معرکہ آن پہنچا۔

چوبیس مارچ کو گرینڈ الائنس نے مختلف انتظامی کمیٹیاں تشکیل دے کر مزدور ملازمین کو تین حصوں میں تقسیم کرکے تین اطراف سے ریڈزون کی جانب مارچ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ کوئٹہ شہر کے تمام محنت کش ملازمین نے میٹروپولیٹن (ٹاؤن ہال) سے، شمالی بلوچستان کے مزدور و محنت کش ملازمین نے ایوب سٹیڈیم سے جب کہ جنوب و جنوب مغربی بلوچستان کے محنت کشوں مزدوروں اور ملازمین نے ریلوے سٹیشن سے بہ یک وقت ریڈزون کی جانب مارچ کا آغاز کرنا تھا۔ دن کے 12 بجے تینوں اطراف سے ہزاروں مزدوروں، محنت کشوں اور ملازمین نے اپنے جمع ہونے والی جگہوں سے مارچ کا آغاز کیا۔تینوں اطراف سے ریلیز،بڑے بڑے بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے جن پر مطالبات نوشتہ تھے اور مختلف نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھنے لگے؛

حق دو حق دو،جینے کا حق دو

آئی ایم ایف ورلڈ بینک، مردہ باد مردہ باد

امریکی سام راج، مردہ باد مردہ باد

لاٹھی گولی کی سرکار، نہیں چلے گی نہیں چلے گی

ہمارے مطالبات، تسلیم کرو تسلیم کرو

ہم لے کے رہیں گے، 25 فیصد

ہم سب، ایک ہیں

درج بالا سمیت مہنگائی کے خلاف اور مزدوروں کے دیگرروایتی نعرے لگاتے ہوئے ریڈ زون کی جانب قدم بڑھاتے گئے۔ اس دوران کوئٹہ شہر مکمل طور پر جام ہوا۔ ایوب سٹیڈیم کی ریلی کو ٹی این ٹی چوک ریڈ زون کی سڑک کے شمالی گیٹ پر، سٹیشن کی ریلی کو ایدھی چوک پر سڑک کے جنوبی گیٹ پر جب کہ ٹاؤن ہال کی ریلی کی کمشنر آفس کے سامنے پولیس فورس کی کھڑی کی گئی دیوار کے ساتھ مڈبھیڑ ہوئی۔ پولیس فورس حفاظتی لباس میں ملبوس، ہیلمٹ، ڈھال، ڈنڈوں، آنسو گیس کے شیل گن سے مسلح تھی۔ جب کہ پچھلی صف میں پولیس آتشیں اسلحہ سے لیس ایستادہ تھی۔ مزدوروں نے اپنے حوصلے بلند رکھنے اور ماحول سے مانوس ہونے کی خاطر کچھ دیر شدید نعرہ بازی کی۔ اس کے بعد پولیس فورس کی دیوار ہٹانے کے لیے دھکم پیل اور زبردستی داخل ہونے کا آغاز ہوا۔ بے رحم لاٹھی چارج اور کئی اطراف سے مزدوروں اور ملازمین پر شیلنگ شروع ہوئی۔ احتجاجی مظاہرین کچھ قدم پیچھے ہٹے۔ جن میں سے کچھ زخمی اور کچھ بے ہوش ہوئے، جن کو فوری طور پر قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔نہتے مظاہرین دوبارہ فورسز کی دیوار کو ہٹانے کے لیے جمع ہوئے۔ اب مظاہرین کے نعروں کی شدت میں مزید اضافہ ہوا۔مزدور احتجاجی مظاہرین اور پولیس فورس ایک بار پھر آمنے سامنے تھے۔ اسی دوران گرینڈ الائنس کی مرکزی قیادت کی طرف سے خبر آئی کہ حکومت نے مزدور ملازمین کے راہنماؤں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اس خبر کے اعلان کے ساتھ ہی ملازمین کے چہروں پر فاتحانہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جس کا اظہار انھوں نے شدت کے ساتھ فلک شگاف نعروں کے ساتھ کیا۔

حکومت کے اعلیٰ سطحی وفد نے وزیراعلیٰ کی قیادت میں جس میں چیف سیکریٹری، وزرا‘ اور سیکریٹریز شامل تھے، مزدوروں اور ملازمین کے گرینڈ الائنس کے راہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں جتنی مہنگائی ہوئی ہے اس کی نسبت سے مزدوروں اور ملازمین کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ ہونا چاہیے لیکن مختلف مجبوریوں کو سامنے رکھ کر ایک بلوچ کا آپ کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ جتنا اضافہ مرکز نے کیا ہے، وہی اضافہ ہم بلوچستان کے مزدوروں اور ملازمین کی تنخواہوں میں کریں گے۔ اور دیگر مطالبات پر تشکیل شدہ سفارشات کو منظوری کے مرحلے سے گزار کر اس پر فوری عمل درآمد کریں گے۔ مذاکراتی میز سے دو وزیر اور دیگر حکام احتجاجی مظاہرین کی ریلی میں آئے، انھوں نے وزیراعلیٰ کی طرف سے مظاہرین کے مطالبات کو ماننے اور اس پر فوری عمل درآمد کا عہد اور پیغام پہنچایا۔

تحریکیں روزانہ کی بنیاد پر نہیں ابھرتیں، نہ کوئی تحریک اپنے تمام تر مطالبات اور مسائل کسی ایک ابھار یا لڑائی میں جیت سکتی ہے بلکہ تحریک ایک مسلسل عمل کا نام ہے، جو ایک طرف کچھ حاصلات لے کر اپنے طبقے کو حوصلہ اور نیا عزم بخشتی ہے،دوسری طرف تحریک کے دوران طبقے کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے، وہ اپنی طبقاتی لڑائی میں ریاستی ستونوں کے گٹھ جوڑ اور حکم رانوں کے مفادات کے تحفظ کی کوشش،ان کی سفاکیت کو چشم بینا سے دیکھتے ہوئے ریاست کے طبقاتی کردار کو سمجھ جاتے ہیں۔ تحریک کے کسی اگلے مرحلے پر محنت کش طبقہ زیادہ بلند شعوری سطح پر نئے جوش اور ولولے کے ساتھ طبقاتی جدوجہد کے میدان میں اترتا ہے۔ محنت کشوں کی تحریکوں کے تناظر میں موجودہ عبوری عہد اپنی کوکھ میں پیچیدگی، ابہام اور سراب رکھتا ہے۔ مارکیٹ کی معیشت کے نیولبرلزم کی سفاکانہ، عوام اور مزدور دشمن پالیسیوں کے دور میں ایک طرف مہنگائی کے خلاف اجرتوں میں اضافے کی معاشی جدوجہد اور دوسری طرف عوام و مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف سیاسی لڑائی کی آمیزش نے تحریکوں کے پروگرام اور ترجیحات کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ تحریک میں شامل غریب مڈل کلاس ملازمین کی پرت کی بے چینی کو حکم ران اور بیوروکریسی مسائل کے حل میں تاخیری حربوں کے ذریعے تحریک ہی کے خلاف مشتعل کرتے رہتے ہیں اور اسی غریب مڈل کلاس کے اضطراب کا چند تحریک مخالف متوازی دھڑے اور شخصیات بھی استحصال کرتی ہیں۔ لیکن کسی مسئلے کے حل پر لگنے والے ناگزیر وقت کے بعد حاصلات سے یہ پرت بھی مثبت نتائج حاصل کرلیتی ہے۔ساتھ میں تحریک کے ہر موڑ اور مرحلے سے گزرتے ہوئے محنت کش مزدور اور ملازمین مہنگائی، غربت، بے علاجی، بے روزگاری، بھوک اور افلاس کی وجوہات سمجھتے جارہے ہیں۔وہ یہ بھی محسوس کررہے ہیں کہ مزدوروں کے وفاقی اور دیگر اداروں کو بھی اس اتحاد اور تحریک کا حصہ بنانا لازمی ہے۔مزدور یہ تو سمجھ رہے ہیں کہ یہ سرمایہ دارنہ نظام محنت کش طبقے اور غریب عوام کے مسائل حل کرنے کی سکت نہیں رکھتا بلکہ یہ نظام عوام کی اکثریت کو مسلسل اذیت اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رہا ہے، لیکن یہ سمجھنا ابھی باقی ہے کہ اس کا متبادل کیا ہے؟؟ اس کا متبادل‘ تحریکوں کے تسلسل،اس میں انقلابی کیڈرز کی فعال اور سرگرم موجودگی سے مشروط ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے