پاکستان ایک ترقی پذیر کپٹلسٹ ملک ہے۔ اور ہر کپٹلسٹ ملک دولتمندوں کی وجہ سے ہمہ وقت بحرانوں میں لپٹا ہوتا ہے۔
دولتمندوں کی پارلیمانی سیاست کو ”جمہوری سیاست“ کہا جاتا ہے۔ اس سیاست کے نتیجے میں پاکستان میں اقتدار اب شہباز، زرداری، فضل الرحمن اور اختر مینگل کے ہاتھ میں ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ ہائبرڈ نظام کی بیساکھیوں پہ کھڑے عمران کے پاس تھا۔
یہ سیاست دراصل رائٹسٹ پارٹیوں کے اپنے درمیان ہوتی ہے۔ ایک طرف کم ”رائٹسٹ“ پارٹی ہوتی ہے اور دوسری طرف ”زیادہ رائٹسٹ“۔ یا ایک طرف ”کم فاشسٹ“پارٹی ہوتی ہے اور دوسری طر ف ”زیادہ فاشسٹ“ پارٹی۔
فاشزم، دراصل پورے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے۔ عوام فاشزم کو پسند کرتے ہیں،وہ فاشسٹوں کی پرورش کرتے ہیں، انہیں اپنا حکمران بناتے ہیں اور اس طرح اپنے اندر موجود فاشزم کی تسکین کرتے چلے جاتے ہیں۔
چونکہ اِس رائٹسٹ سیاست کا گڑھ پنجاب میں ہے اس لیے یہ دنگل بھی وہیں سجا رہتا ہے۔ جس زمانے میں نیپ یا پیپلز پارٹی زندہ تھیں تو پنجاب کے ”کم رائٹسٹوں“ اور ”زیادہ رائٹسٹوں“ نے مل کر ایک بڑی اور طویل لڑائی اور کشت و خون کے بعد اِن دونوں پارٹیوں کی مکمل تباہی کردی۔ اور یوں پورے ملک پر رائٹسٹوں اور فاشسٹوں کی حتمی حکمرانی پکی ہوگئی۔ جس کے بعد انہوں نے مختلف ناموں سے پارٹیاں بنالیں۔ اور یوں وہ آپس ہی میں مقابلہ کرنے لگے۔ آپس میں ہی الیکشن کرنے لگے۔
اسی انتظام کے ساتھ اپنے زمانے کے سب سے بڑے رائٹسٹ اور فاشسٹ ضیاء الحق نے ”زیادہ فاشسٹ“ اور ”زیادہ رائٹسٹ“ پارٹی کے بطور مسلم لیگ نواز کی پرورش کی اور اس کو اقتدار دے کر اپنے فکر کی زہریلی حکمرانی کو یقینی بنایا۔ پھر جب یہ مسلم لیگ نون اقتدار کے دوران ریاستی، سیاسی اور خارجی مجبوریوں کے سبب ذرا سا معتدل ہونے لگی تو ”زیادہ رائٹسٹوں“ نے اُس کی بھی مخالفت شروع کردی۔ بیوروکریسی فوج، پروفیسر ، صحافی، جج الغرض سب رائٹسٹ ایک ہوگئے۔ جلسہ گاہ سے لے کر بیرک اور دربار تک سارے فاشسٹ ایک ہوگئے اور مسلم لیگ نون کو مار پڑنے لگی۔ دس گیارہ برس کے لیے اُسے اقتدار بدر کردیا گیا۔ اور اس کی جگہ پہ دوسرے ”زیادہ رائٹسٹ“چودھری شجاعت حسین اور عمران خان کے کندھے پہ پرویز مشرف کو بٹھا کر اپنے نظام کو زندہ رکھا گیا۔ اُس کے بعد وہ ایک بار پھر ملے اور چار برس تک اُسی نوازشریف کے پیچھے موجود رہ کر فاشزم کو مسلط کیے رکھا۔اس دوران رائٹسٹ خوب پلے بڑھے، ان کا پروگرام پرائمری سکول سے لے کر خارجہ معاملات تک پہ چلتا رہا۔
اس درمیان میں ایک اور گھوڑا تیار کیا جانے لگا۔ اس بار فاشسٹوں رائٹسٹوں کے متحدہ محاذ نے کرکٹ کے پاپولر کھلاڑی کو آگے کردیا۔ اور نواز لیگ کا تختہ الٹنے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ تحریک لبیک کھڑی کی گئی، اُس کے ہاتھوں نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا، احسن اقبال کو گولی ماری گئی اور دوچار بڑے وزیروں کو ”کافر“ قرار دیا گیا۔ اور یوں اقتدار عمران کو دے کر اختیار حسبِ معمول اپنے پاس رکھا۔
جیسے کہ کہا گیا اِن کی ”جمہوری پارلیمانی“ سیاست دراصل بورژوا سیاست ہوتی ہے۔ جسے پاور پالٹکس بھی کہتے ہیں۔ گوکہ یہ رائٹسٹ سیاست آئین، قانون، اصول اور اخلاقیات کے نام پر کی جاتی ہے مگر اصل میں یہ ساری باتیں وہاں نایاب ہوتی ہیں۔ پاور پالٹکس میں تو استادی چلتی ہے، مکر فریب، گالی گلوچ، ہلکاپن،بے وفائی،بے قولی چلتی ہے۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ طبقاتی نظام میں جب ہر چیز بکتی ہے تو ووٹ بھی بکے گا۔ جب سماج دھوکے پہ کھڑا ہو تو اسمبلی میں بھی دھوکہ بازی ہوگی۔ جان جائیے کہ طبقاتی نظام میں حقیقی جمہوریت وجود ہی نہیں رکھتی۔
پاور پالٹکس کی سیاست جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ اپنے ساتھیوں سے جھوٹ، اپنے طبقے سے جھوٹ اور عوام سے جھوٹ۔ یہ جھوٹ وہ اخباروں کے ذریعے،اپنے ٹی وی چینلوں کے ذریعے،اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتے رہتے ہیں۔وہ غلط اعداد و شمار بیان کرتے ہیں، اصل معاملات سے عوام کی توجہ ہٹاتے رہتے ہیں اور انہیں فروعی معاملات پہ لگائے رکھتے ہیں۔ کارپوریٹ چکا چوند اور چمک دمک میں پوری آبادی کو گرفتار رکھا جاتا ہے۔عوام کو دلکش نعروں کی خوراک پر پالا جاتا ہے۔ نام نہاد اور انتہائی مجہول قسم کی تاریخی شخصیات گھڑی جاتی ہیں، اور بار بار دہردہرا کر اُن شخصیات کو بلند بنایا جاتا ہے اور پھر خود کو اُن مجہول و نام نہاد شخصیات کا سب سے بڑا پیروکار بنا کر عوام الناس میں موجود شخصیت پرستی اور ہیروپرستی کے جذبات کی تسکین کا سامان کیا جا تا ہے ۔
چنانچہ ہمیشہ ایک خمینی، ایک ہٹلر کی تلاش میں سرگرداں پاکستانی عوام کو عمران کی شکل میں ہٹلر، اور خمینی مہیا کیا گیا۔ اب وہ خوش ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ گاتے ہیں، ناچتے ہیں، اُس کی بے سروپا تقریر یں سنتے ہیں۔ اپنے گالوں پہ اُس کے سٹکر لگاتے ہیں۔ اور اپنا سارا غم دور کر لیتے ہیں۔
عمران نے جب بربادی آخری حدوں تک پہنچا دی تو ”رائٹسٹ پارٹیاں“اور قوتیں ایک بار پھر حرکت میں آگئیں۔انہوں نے اپنے سلیکٹڈ عمران خان کو اُس کے غیر ملکی مشیروں سمیت کباڑ خانے میں پٹخ دیا۔
اُس خمینی اور ہٹلر عمران کے مقابلے میں فضل الرحمن کے پی ڈی ایم کو اقتدار تھما دیا گیا ہے۔ لطیفہ دیکھیے کہ فضل الرحمن کی پی ڈی ایم بھی”رائٹسٹ“ ہی ہے۔اس لیے ہم سب جانتے ہیں کہ یہ حکومت بھی آئی ایم ایف یعنی عالمی سرمایہ داری نظام ہی کو قائم دائم رکھے گی۔ یہ بھی داخلی طور پر فیوڈلزم کو برقرار رکھے گی۔ عام انسان کے معیارِ زندگی پہ کوئی فرق نہیں آئے گا۔ مہنگائی آسمان کو چھوئے رہے گی اور بیروزگاری حسب ِ سابق دندناتی پھرے گی۔ غیر پیداواری اخراجات میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ انسانی حقوق اسی طرح روندے جاتے رہیں گے۔اپنے دل میں لکھ لیں کہ یہ لوگ بھی مزدور اور غریب کے دشمن ہی ہیں۔ خواہ یہ سندھی بولتے ہیں یا بلوچی اور سرائیکی۔ لکھ کے رکھیے کہ یہ لوگ بھی ہر عوام دشمن اقدام کو ”جمہوریت کا حسن“ کہتے رہیں گے۔
دولتمندوں کی ”جمہوری“ سیاست اپنے اس واحد مقصد میں کامیاب ہے کہ اُس نے اپنے سب سے بڑے مخالف یعنی مزددور طبقے کو سیاست سے باہر رکھا ہوا ہے۔ اُن کی ٹریڈ یونین پہ باقاعدہ پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں پاکٹ یونینیں بنائی ہوئی ہیں۔ مزدور لیڈر شپ کو ابھرنے نہیں دیا گیا۔ مزدوروں کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا گیا۔مضبوط اور لڑاکا یونینوں کے بغیر مزدور تو سمجھیے کہ نہتے ہیں۔ دولتمندوں نے مزدوروں کے لیے عقل اور شعور کے حصول کے سارے راستے بند کیے گئے ہیں۔
اور اس جرم میں شہباز شریف، عمران خان،زرداری، فضل الرحمن اور ان سب کے پیچھے موجود ساری قوتیں شریک ہیں۔ اُن سب کا ون پوائنٹ ایجنڈا یہ ہے کہ مزدور کی طرف سے طبقاتی سیاست کا راستہ روکا جائے۔
ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی ”زیادہ دائیں بازو“کی فاشسٹ یلغار اس قدر پُر زور اور پُر تاثیر ہے کہ اُس نے مزدور سیاست کے راہنماؤں،دانشوروں اور ہمدردوں تک کو بھی اپنے بہاؤ میں لیے رکھا ہے۔ پورے سماج کو سیاسی نعروں، سازشوں، پیچیدہ قوانین اور الجھائے گئے نظریوں کے ڈھیر میں غرق کردیا گیا ہے۔ اور مزدور دانشور کو مزدور سیاست کی شناخت اور تلاش کی اہلیت سے محروم کردیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انقلابی سیاست کا حامی بھی بہت سطحی سوچ کا فرد بن کررہ گیا ہے۔ روشن فکر سیاست اب تنظیمی و نظریاتی طور پر اس قدر نیچے آگئی کہ یہ اب مقبول ِ عام بننے کے لیے عوام میں نہیں جاتی بلکہ یہ ہوائی طرز کی سازشیں بُننے اور ایک دوسرے کے خلاف اقدامات کرنے تک محدود ہوکر رہ گئی۔
انقلابی سیاست اب تنظیمیں نہیں بنا رہی۔ اُس کی کوئی ہمہ گیر طلبا تنظیم نہیں ہے۔ اس کا کوئی مؤثرو نظریاتی عورت ماس فرنٹ موجود نہیں ہے۔ روشن فکر ادیبوں دانشوروں کی تنظیم چار چھ ضلعوں میں ایک کاغذی تنظیم کی صورت تک محدود ہے۔ انقلابی سیاست کا کوئی قابلِ ذکر اخبار، رسالہ، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ اس کے سٹڈی سرکل مُرجھا چکے ہیں۔ اس کے انقلابی نعروں کا گلہ بیٹھ چکا ہے۔ اس کے مندے دیہاڑوں کی ساعتیں صدیاں بن چکی ہیں۔
ایک ہی حل ہے۔ مزدور طبقے کی اپنی اور الگ سیاست۔ اُس کی اپنی سیاسی پارٹی۔ یہ پارٹی مزدوروں کے حقوق، قوموں کی نجات اور عورتوں کی ترقی کے تین نکات پہ سیاست کرے ۔اور اُس الگ سیاسی پارٹی کا حتمی منزل مزدور طبقے کے لیے سیاسی اقتدار کا حصول ہو۔