دِیا ہوا کا دل میں جب جلا سکو تو ساتھ دو

یہ زندگی کا فاصلہ مٹا  سکو تو ساتھ دو

 

مِرے جو دل کا شوق اب بڑھا ہے یار جس قدر

سمجھ سکو یہ حال اگر نبھا سکو تو ساتھ دو

 

کْھلا کہاں ہے در مِرا نظر کہاں ہٹی مِری

گھڑی یہ انتظار کی مٹا سکو تو ساتھ دو

 

تری ادا کے واسطے میں سوچتا ہی رہ گیا

زرا زرا سا حالِ دل سْنا سکو تو ساتھ دو

 

قدم  قدم  پہ خار ہیں قدم  قدم مْرادِ دل

خطر بھی ہے گْزر بھی ہے نبھا سکو تو ساتھ دو

 

چٹان حوصلہ مجھے جواب دے گیا ہے اب

زمیں کو اب اٹھاؤگے اْٹھا سکو تو ساتھ دو

 

مِرا یقیں سے اب فداؔ یقین اْٹھ گیا فداؔ

مِرے لئے نیا سا گھر بنا سکو تو ساتھ دو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے