میری غزل میں اس لیے دریا کا شور ہے

لکھتا ہوں شعر بیٹھ کے جہلم کے گھاٹ پر

آپ جلدی رخصت ہو گئے یا میں نے آنے میں دیر کر دی ورنہ اسی گھاٹ پر سلام کرنے حاضر ہوتی۔میں لکھنا چاہ رہی ہوں لیکن کیا لکھوں کہ اپنے بارے میں سب کچھ تو وہ خود ہی لکھ گئے۔

اظہار  کا  دباؤ بڑا  ہی  شدید  تھا

الفاظ روکتے ہی مرے ہونٹ پھٹ گئے

یہ پہلا شعر تھا جو کالج کے زمانے میں مجھے تنویر سپرا تک لے گیا۔خون رِستے لفظوں نے اپنے حصار میں ایسا لیا کہ جب تک جی بھر کے روئی نہیں،کسی سے بات کرنے کو من نہیں کیا۔سوچتی رہی کہ صنعت کاری کے ایسے گھٹیا نظام میں خدا کسی کو مزدور نہ بنائے۔اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر کسی مزدور کو حساس نہ بنائے۔

اس بار سنگت کا مزدور ایڈیشن جہلم کے شاعر تنویرسپرا کے نام، محنت کشی نے جس کے ہاتھ ہی نہیں لفظ بھی کھردرے کر دئیے۔

مزاحمتی ادب کا ہیرا،استحصالی طبقے کا نمائندہ،دبنگ لہجے  والا شاعر،جس کے اشعار ہر دور کے غاصبوں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔

 

رات کی شفٹ چلا کر مجھ کو خوابوں سے محروم کیا

میرے    آجر   نے   میری   فطرت   پر    ڈاکہ   ڈالا   ہے

 

مِل مالک  کے کتے بھی چربیلے ہیں

لیکن مزدوروں کے چہرے پیلے ہیں

 

میں اپنے بچپنے میں چھو نہ پایا جن کھلونوں کو

انہی کے واسطے اب میرا بیٹا بھی مچلتا ہے

 

دن بھر تو بچوں کی خاطر میں مزدوری کرتا ہوں

شب کو اپنی غیر مکمل غزلیں پوری کرتا ہوں

 

آج بھی سپرا اسکی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے

میں لوہے کے ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں

 

بارش کو دشمنی تھی فقط میری ذات سے

جوں ہی میرا مکان گرا ابر چھٹ گئے

 

کچھ لوگ ابھی میری کفالت میں ہیں سپرا

میں ان کے لیے موت سے لڑ کر بھی جیوں گا

 

موجد کا حسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی

ماں کا شباب کثرتِ اولاد کھا گئی

 

دیہات کے وجود کو قصبہ نگل گیا

قصبے کا جسم شہر کی بنیاد کھا گئی

 

تیری تو آن بڑھ گئی مجھ کو نواز کر

لیکن مرا وقار یہ امداد کھا گئی

 

کاریگروں نے بابوؤں کو زیر کر لیا

محنت کی آنچ کاغذی اسناد کھا گئی

 

قد تو پھلوں کا بڑھ گیا دور جدید میں

سپرا مگر اثر کو نئی کھاد کھا گئی

***

بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے

دل پہروں مرا کرب کے دوزخ میں جلا ہے

 

عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا

اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے

 

ہر اہلِ ہوس جیب میں بھر لایا ہے پتھر

ہمسائے کی بیری پہ ابھی بور پڑا ہے

 

اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط

اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

 

اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے

دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

 

شاید میں غلط دور میں اترا ہوں زمیں پر

ہر شخص تحیر سے مجھے دیکھ رہا ہے

 

کبھی اپنے وسائل سے نہ بڑھ کر خواہشیں پالو

وہ پودا ٹوٹ جاتا ہے جو لا محدود پھلتا ہے

 

تیری تو آن بڑھ گئی مجھ کو نواز کر

لیکن مرا وقار یہ امداد کھا گئی

 

کتنا بعد ہے میرے فن اور پیشہ کے مابین

باہر دانشور ہوں لیکن مل میں آئل مین

 

نئے بشر نے مسخر کئے مہ و انجم

نئے دماغ میں وسعت خلاؤں جیسی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے