منشی پریم چند کا ایک افسانہ ہے، ‘ سوا سیر گیہوں ‘، بٹوارے سے پہلے کی کہانی ہے۔ شنکر نامی ایک شریف النفس کسان جو ہر راہگیر، بالخصوص سادھوؤں اور درویشوں کو کھانا کھلائے بغیر جانے دینا، اپنے دھرم کے خلاف سمجھتا تھا۔ ایک روز ایسے ہی ایک سادھو کا گزر ہوا، شنکر اسے کھانا کھانے کے لئے اپنے غریب خانے لے گیا اور وہاں گیہوں نہ پا کر شرمندہ ہوا۔ قریب ہی پروہت کا گھر تھا، جہاں سے وہ اْدھار پر سوا سیر گیہوں لے آیا۔ جب شنکر سے کچھ بن پڑا تو اسی قیمت کو کھلیانی دے کر اپنا حساب پورا سمجھا۔ پروہت جی تین سال بعد مہاجن بنے اور فوراً سوا سیر گیہوں پر سود سمیت چھ روپے مانگ لئے۔ اس زمانے یہ اتنی بڑی رقم تھی کہ شنکر کے حواس ہی گم گئے۔ مہاجن سے کچھ وقت مانگا، پیٹ کاٹا، ضرویات پر سمجھوتہ کیا اور جیسے تیسے چھ روپے ادا کیے, پر اْن پر51روپے کا مزید سود چڑھ چکا تھا۔ تین سال تک لالہ جی نے دوبارہ پیسوں کا تقاضہ نہ کیا اور شنکر 51 روپے ادا کرنے کے چکر میں دیوانہ ہو گیا۔ تین سال بعد شنکر کی ایک بار پھر پیشی ہوئی اور اب کی بار سود میں 120روپوں کا مطالبہ ہوا۔ شنکر کی تو گویا روح ہی فنا ہو گئی۔ کہنے لگا، ‘ لالہ جی، میری کْٹیا لے لو، بھینس لئے لو، مزید میرے پاس کچھ نہیں ‘۔ اور مہاجن نے مکارانہ انداز میں کہا ‘ تم خود تو ہو، میرے کھیتوں میں کام کرو، کھانے کو مِل جائے گا اور سونے کو چھت بھی، تنخواہ تمہاری قرض کی ادائیگی میں جائیگی۔یوں سالہا سال شنکر بیگار کی مزدوری کرتا رہا اور پھر خالق حقیقی سے جا ملا۔ اْدھر مہاجن جی کے ہاتھ شنکر کے کمسن بیٹے کی گردن تک آ پہنچے کہ انکا قرض ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور یوں شنکر کی دوسری نسل بھی غلامی کی چکی میں پسنے لگی۔

اس لمبی کہانی کو مختصراً لکھنے کا مقصد آج کے بین الاقوامی مہاجن ہیں جو کبھی IMF اور کبھی World Bank کے نام سے قرضے دیتے ہیں اور نسلوں کو غلام بنا لیتے ہیں۔ یہی حال ان امیر ممالک کا ہے جو غریب ممالک کے امراء کو قرضے دیتے ہیں اور شنکر جیسوں کا بال بال قرضوں میں جکڑ جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ شنکر کھیتوں میں کام کریں اور جان بوجھ کر قرضے لیں۔ انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ9 سے5 نوکری انکو قرض خواہ بناتی ہے نہ مزدور۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ8-8 گھنٹے سر کھپانے کے بعد بھی نہ صحت, نہ تعلیم نہ انصاف۔۔۔ اور لگان ہر شخص چھوٹی سے چھوٹی چیز پر دے رہا ہے۔ ہم سب وہ شنکر ہیں، جن پر مسلط پروہت, کسی مہاجن کا قرضدار ہے اور اسکا تاوان کوئی شنکر بھر رہا ہے۔ تو صاحب مزدور پر ایک تو وہ عمومی مزدوری ہے، جس سے ہم سب آگاہ ہیں۔ ضرورت اس مزدوری اور غلامی کو پرکھنے اور سمجھنے کی بھی ہے  جہاں کبھی، ‘ beggars  not  chosers ‘ کی نصیحت کی جاتی ہے اور دوسری طرف ماں کی کوکھ سے بچہ قرض دار بن کر نکلتا ہے اور سوا سیر گیہوں جو اس کے پر دادا کی نسل نے لیا تھا، اْسکے بدلے اْسکی زندگی گروی رکھ دی جاتی ہے۔

***

 

زورِ یک نفر

ہماری زندگیوں میں کتنی بار ایسا ہوا کہ جی جان سے جس تبدیلی کے خواہش مند تھے، اسے پائے تکمیل تک اس لئے نہیں پہنچا سکے کہ آخر ایک اکیلا فرد کیا کر سکتا ہے، جب نہ وسائل ہوں اور نہ ہی کوئی ساتھی۔

لیکن 10 سالہ اقبال مسیح نے ایسا نہیں سوچا، 4 سال کی عمر میں والدین کا قرض اتارنے کے لئے گروی رکھوائے گئے، ننھی جن نے ایسا نہیں سوچا۔ خدا جانے اس ذہین بچے کو کب، کیسے یہ خبر ہوئی کہ اتنی کم عمری میں جبری مشقت قانوناً جرم ہے۔ اس جرم کے سد باب کے لئے وہ تھانے جا پْہنچا، مگر بے حس افسران جن کے اپنے بچے تو آسائشوں میں پلتے ہیں، معصوم اقبال تو ایک بار پھر اتشیں قالینوں کی آگ میں جھونک دیا گیا۔

اقبال مسیح نے ہار نہ مانی اور دوبارہ بھاگ کھڑا ہوا، اس بار قسمت نے اسکا ساتھ دیا اور بیگار مزدوری کے سد باب کے لئے بنے ادارے BLLF یعنی Bonded labour liberation front کے پاس پناہ حاصل کر لی۔ وہ ذہین بھی تھا، خوش گفتار بھی۔ پیٹ میں نوالہ گیا، وہاں موجود سکول کے سبق سے ذہن اور روشن ہونے لگا تو اقبال ادارے کا فعال کارکن بن گیا۔ اس ننھی جان کی باتوں اور تجربے میں اتنا اثر تھا کہ جہاں کہیں اْس نے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کی آنکھیں نم ہوئیں اور آگاہی بڑھتی چلی گئی۔ اقبال کی داستان کو باہر کے ممالک میں بھی پذیرائی ملی۔

پر ہوا یوں کہ اقبال مسیح جن حیوانوں کی نظر میں غلام تھا، غلام ہی رہا اور غلاموں کو ایسی جرات پر موت کے تحفے ملتے ہیں۔اپنے اِرد گرد ہوتے ظلم کو آنکھیں میچ کر دیکھنے سے کہیں بہتر ہے کہ ان مثالوں کو مشعل راہ بنائیں اور کسی بیکس اور نادار کے لئے اکیلے ہوتے ہوئے بھی جو کر سکیں کر لیجیے۔21 سالہ اقبال کو ایسٹر کے مقدس تہوار کے روز چھلنی کر دیا گیا۔

اب مختصراً ایک اور کہانی کی جانب چلتے ہیں، جسکا تانتا اقبال مسیح کی کہانی سے ملتا ہے۔ سیدہ غلام فاطمہ انسانی حقوق کی کارکن ہیں اور اینٹوں کی بھٹی میں زبردستی کی بیگاری کے خاتمے میں انکا بڑا ہاتھ ہے۔ غلام فاطمہ، جامعہ پنجاب سے تعلیم یافتہ،متمول گھرانے کی فرد ہیں۔ انکو ہر مخالفت اور آسائش کے باوجود اپنی زندگی کا مقصد قالینوں کے کاروبار، بھٹیوں اور زراعت میں بیگاری کے خاتمے میں نظر آیا۔ پچھلے 38 سال سے وہ یہ کار خیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ غلام فاطمہ کو بھی کئی  طرح سے ہراساں کیا گیا، تھانے کچہری کے چکر لگوائے گئے، ہر قسم کے الزامات کی بوچھاڑ ہوئی، مگر انکے حوصلے پست نہ ہوئے۔

عالمی سطح پر غلام فاطمہ اور ننھے اقبال  کے کام کو سراہا گیا، مگر یہاں صرف صعوبتیں سہنی پڑیں۔ اقبال مسیح کی زندگی کا چراغ تو مشقت کرتے کرتے گل ہو گیا، مگر غلام فاطمہ اور اْن جیسے بہت سے کارکن اپنے حصے کی شمع جلائے ہوئے ہیں۔

ان داستانوں کو سنانے کا مقصد یہ تھا کہ آج بھی بچے، بزرگ اور کمزور خواتین غلامی کرنے پر مجبور ہیں۔ سوچئے کے اقبال مسیح کو600 روپے کے قرض کی عدم ادائیگی پر 4 سال کی عمر میں گروی رکھوا دیا گیا تھا۔

لیکن خواہ اقبال جیسا مسکین ہو یا غلام فاطمہ جیسی پڑھی لکھی خاتون، دونوں نے یہ نہیں سوچا کہ ہم کر ہی کیا سکتے ہیں، انہوں نے بس کر دکھایا۔

بقول حضرتِ فیض

گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا

گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

اپنے اِرد گرد ہوتے ظلم کو آنکھیں میچ کر دیکھنے سے کہیں بہتر ہے کہ ان مثالوں کو مشعل راہ بنائیں اور کسی بیکس اور نادار کے لئے اکیلے ہوتے ہوئے بھی جو کر سکیں کر لیجیے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے