پہلی اپریل دو ہزار بائیس کو انجمن ترقی پسند مصنفین کا ماہانہ اجلاس معمول کے مطابق حشمت لودھی کی رہائشگاہ پر منعقد ہوا۔صدارت مرزاشاہد بیگ نے فرمائی چودھری سہیل اسلم مہمان خصوصی تھے۔اجلاس کا پہلا حصہ۔ ماہر تعلیم استاد مارکسی دانشور کامریڈ مشتاق احمد بھٹی کے تعزیتی ریفرنس پر مشتمل تھا۔اس حوالہ سے فضل احمد خسرو نے پنجابی نظم سنائی حشمت لودھی نے اپنی نظم (تم کہاں چلے جاناں) کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا۔
رانا محمد اظہر خان اور مشتاق احمد بھٹی میں دیرینہ رفاقت تھی، انہوں نے اپنی گفتگو میں مشتاق احمد بھٹی کی یادوں کو دہرایا۔ انکے بارے میں بات کرتے ہوئے رانا محمد اظہر خان کئی بار گلوگیر ہوئے کئی بار آبدیدہ ہوئے۔جاوید عارف مظفر میاں محمد فاروق اسلم پراچہ نے بھی مشتاق احمد بھٹی کے حوالے سے اپنے تعلق اور انکی علمی سیاسی مہربانیوں کو بیان کیا۔بلاشبہ مشتاق احمد بھٹی کی وفات ترقی پسند علمی ادبی حلقوں کیلئے ایک بڑا نقصان ہے۔مرحوم نے چوراسی سال عمر پائی اور تمام عمر نہایت اخلاص اور محبت کیساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا اور اپنے پیچھے ترقی پسندوں مارکسسٹوں سیاسی کارکنوں کا ایک وسیع حلقہ سوگوار چھوڑا۔
تعزیتی ریفرنس کے بعد محمد فاروق نے اپنا افسانہ”کنفیوزڈ“ تنقید کیلئے پیش کیا۔ افسانہ موجودہ سیاسی سماجی منظر میں تھا۔حاضرین نے افسانہ کو ایک کامیاب اور پر اثر افسانہ قرار دیا چند ایک تکنیکی پہلوؤں کی نشاندہی بھی کی گئی مجموعی طور پر افسانہ کو پسند کیا گیا۔
اجلاس کا تیسرا مرحلہ محفل مشاعرہ تھا جس میں شعراء نے اپنے کلام سے محظوظ کیا اور داد پائی۔فضل احمد خسرو، حشمت لودھی، عارف اقبال،جاوید عارف، آفاق منظر، محبوب عالم طارق، محمد سلیم آصف، شکیل احمد شکیل اور مصطفےٰ مغل نے اپنی شعری تخلیقات کے ذریعے حصہ لیا۔ حاضرین اجلاس نے شاعری کو اس حوالہ سے بھی پسند کیا کہ یہ موجودہ عہد کے سیاسی و سماجی کرب کو بیان کرتی ہوئی ترقی پسند شاعری تھی۔
بزم شاعری کے بعد(آج کا سوال)کے حوالہ سے گفتگو ہوئی جس میں مکالمہ کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی باری پر سب احباب نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔چودھری سہیل اسلم نے موجودہ سیاسی ماحول پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ استحصالی نظام خوشنما نعروں کیساتھ محنت کشوں کا استحصال کر رہا ہے حکمران اشرافیہ سے بہتری کی کوئی امید رکھنا عبث ہے محنت کش طبقہ کو اپنی لڑائی آپ لڑنا ہوگی اس نظام کو توڑنا اور بدلنا ہوگا۔رانا اظہر نے بھی حکمران اشرافیہ کی اس سیاسی کشتی سے لاتعلقی رکھنے کا مشورہ دیا انکا کہنا تھا یہ حکمران اشرافیہ کی اپنی لڑائی ہے اس سے عوام کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ اس نظام میں عوام کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ حشمت لودھی نے شعوری عملی طور پر محنت کش طبقہ کو منظم کرنے کی بات کی گفتگو کے اس سیشن میں جن دوسروں نے حصہ لیا ان میں فضل احمد خسرو، حشمت لودھی، مبشر لکھوی، اسلم پراچہ، مظفر میاں، جاوید عارف، محمد فاروق، عارف اقبال، آفاق منظر،محمد عباس میؤاور شکیل احمد شکیل کے نام بھی شامل ہیں۔نظامت کے فرائض فضل احمد خسرو نے ادا کیے اجلاس کے اختتام پر شرکاء کی مہمان نوازی کی گئی۔۔۔۔