پاکستان میں حکمران طبقات ایک بار پھر لڑ پڑے۔اور اُن کی یہ آپسی لڑائی صرف نظر آنے والے ادارے یعنی پارلیمنٹ تک محدود نہیں ہے۔ یہ مناقشہ تواقتدار کے ہر ایوان اور ہر ادارے میں سنجیدگی اور سنگینی سے جاری ہے۔
کمال یہ ہے کہ کشمیر پہ کوئی اختلاف نہیں، آئی ایم ایف پرستی اور طالبان نوازی پہ بھی کوئی اختلاف نہیں۔ بنیاد پرستی کے فروغ اور استحکام پہ بھی اتفاق ہے۔ گائیڈڈ اور تالا لگی جمہوریت پر بھی زبردست اتفاق پایا جاتا ہے۔ نچلے طبقے کا استحصال کرنے اور اُس استحصال کے طریقوں پہ بھی ہم آہنگی ہے۔ دونوں طرف کے لوگ مزدور دشمن ہیں، قوموں کے وجود او رحقوق کے مخالف ہیں،اور مرد بالادستی کے پکے علم بردار ہیں۔دونوں دھڑے جاگیرداری نظام کی حفاظت پہ متفق ہیں۔ دونوں طرف کے لیڈر عوام، جمہوریت اور سیاسی آزادیوں کے مخالف ہیں۔دونوں دھڑے عالمی سرمایہ داری نظام کے کارندے ہیں۔ دونوں دھڑے اکیسویں صدی کے کپٹلزم (اور اس کے بحرانوں)کو سر کا تاج سمجھتے ہیں۔ اور ڈیموکریٹ ہونے کے بجائے، یہ اُس کے بالکل برعکس بنیاد پرست فاشسٹ لوگ ہیں۔۔۔۔ الغرض دونوں طرف کوئی بنیادی تضادات موجود نہیں ہے۔
مگر اس سارے مشترکہ ایجنڈے کے باوجود اس حکمران طبقے میں پھوٹ پڑ چکی ہے۔دو موقف سامنے آچکے ہیں۔ اور اِن دونوں موقفوں کے ظاہری ترجمان شہباز شریف اور عمران خان ہیں۔وجوہات فروعی ہی سہی،مگر اختلافات تیز اور گہرے اور شخصی ہوتے جارہے ہیں۔ سوشلسٹ تحریک کمزور ہو تو کپٹلزم کے بحران میں مخالف دھڑے باہم مصالحت نہیں کرتے بلکہ آپس میں لڑتے ہیں، سازش رشوت کرتے ہیں، حتیٰ کہ فاشزم کی حد تک چلے جاتے ہیں۔
جس وقت تشدد ہوتا ہے تو بورژوازی کے سارے دھڑے صرف فاشزم کو راہِ نجات سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسا فاشزم جو باہمی جھگڑوں کے باوجود حکمران طبقات کے مجموعی مفادات کی حفاظت کرسکے۔ ایک دھڑا یکا یک پارلیمانیت کو روندتے ہوئے فاشزم کی طرف لانگ مارچ کرتا جاتا ہے۔ فاشزم خود ایک اور بورژوا سیاست یعنی پاپولزم کا لباس ہوتا ہے۔ پاپولسٹ لیڈر ہمیشہ ”الٹرا حب الوطنی“کا ٹھیکیدار بن جاتا ہے۔ اس میں، ”فرسودہ کے خلاف ایک ریڈیکل جہاد“ کا دعویٰ بھی مل جاتا ہے۔ پاپولزم، الٹرا حب الوطنی،اور موجود کے خلاف نفرت کے سارے مجموعے پر شاندار ماضی کا رنگ چڑھانا بھی ضروری ہوجاتا ہے، لہٰذا پاکستان میں ریاستِ مدینہ کو بھی اس سارے مکسچر میں ڈال دیا گیا۔ خود سب سے زیادہ کرپشن کرنے والا،کرپشن کے خلاف نعرے لگانے لگتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ تباہ حال عوام کے اندر یہ سارے معجون ومرکبات کے نعرے بہت مقبول ہوئے۔ اس سب ”مقبولوں“کی وجہ سے لوگ سطحی نعروں میں لگ گئے۔ یوں برائیوں کی ماں یعنی کپٹلزم تو چھپ گیا، اور اسے چند ماہ یا چند سال کی زندگی کی ضمانت مل گئی۔حکومت اس خطے کے سب سے بڑے موقع پرست بورژوا سیاست دان شہباز شریف کو ملی، اور پاپولسٹ عمران کسی اگلی حکومت میں وزارت ِعظمیٰ کے لیے ریزرو ہوگیا۔
بورژوازی ہمیشہ ایک ایسی کلاس ہوتی ہے جسے لبرلزم متعین کرتا ہے۔ یعنی بورژوازی ہمیشہ لبرل ہوتی ہے۔۔۔لبرلزم حتمی طور پر مارکسسٹ دشمن ہوتا ہے۔لبرلزم،بورژوازی کی وہ قسم ہے جس سے ایک شاخ کے بطور ”فاشزم“ نکلتی ہے اور دوسری شاخ پاپولزم نام کی۔ لبرلزم بورژوازی کی عینک سے دیکھی جانے والی فرد کی ”آزادی“ کا چیمپین ہوتا ہے۔ یہ ہر وقت ”نمائندہ جمہوریت، فری مارکیٹ، پرائیویٹ پراپرٹی،اور فرد کی آزادی“ چیختا رہتا ہے۔ پاکستان میں این جی اوز اور اُن سے نکل کر سیاست کرنے والی ساری پارٹیاں،فورمز، ایسوسی ایشنیں، خیراتی ادارے، انسانی حقوق والے،اور عورتوں کے حقوق والے ادارے اسی لبرل بورژوازی سے تعلق رکھتے ہیں۔ لبرلزم نے کبھی زرعی اصلاحات کی بات نہیں کی۔کبھی غیر پیداواری اخراجات کم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس نے قوموں، عورتوں اور فرد کی نجات کی اپنی تحریک کو کپٹلزم مخالف تحریک سے کبھی نہیں جوڑا۔
آئی ایم ایف اپنی سرپرستی میں پاکستان میں جاری معاشی، سیاسی، سماجی اور حکمرانی کے بحران کے اندر عوام کو کپٹلزم کے خلاف اٹھنے نہیں دیتا۔ وہ اِدھر اُدھر کر کے عوام کو ایک وقت کی روٹی ضرور دیتا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام یہی کچھ توکرتا ہے، لنگر خانے، آشیا نہ سکیم، دارالامان، ایدھی، اور چھیپا جیسے سرکاری اور غیر سرکاری خیراتی ادارے استحصالی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے عوام کو حتمی بھوک سے مرنے نہیں دیتے۔یہ سب ادارے اس لیے بھی قائم ہیں کہ عوام الناس کو اپنی زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے سوچنے کا موقع ہی نہ ملے، بس نانِ شبینہ کا غم ہو۔اور یہ نانِ شبینہ اسے خواہ داتا دربار سے ملتا رہے یا کسی اور لنگر سے،بس ملتا رہے تاکہ انقلاب سے بچا جاسکے۔اِن خیراتی اداروں کا بجٹ اگر دس گنا بھی بڑھادیا جائے تب بھی آئی ایم ایف کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
یہ بے شک بہت گہرا بحران ہے۔اور آئی ایم ایف اِس بحران کا حل نہیں، اس کا سبب ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستان کے بورژوا حکمرانوں پہ خواہ پہاڑ بھی ٹوٹے، یہ عوام کے طبقاتی شعور کو کم کرنے کا اپنا کام کبھی نہیں بھولتے۔ جلسوں جلوسوں میں گانے، ڈانس، مذہبی ”ٹچ“، دھرنے، جلسے، عدم اعتماد۔۔۔اِس سارے ٹورنامنٹ میں غریب کا، غریب طبقے کا،اور طبقاتی جمہوریت کا ایک فقرہ تک موجود نہیں ہوتا۔ بلکہ الٹا سیاسی جلسوں میں غیر سیاسی پن کو رواج دیا جاتا ہے۔ لوگوں کی توجہ غربت سے، مہنگائی سے اور بے روزگاری سے ہٹائے رکھی گئی۔ سیاست جیسی بھاری اور باعزت انسانی سرگرمی کو گالیوں، بازاری فقروں اور نیچ ناچ گانوں سے گندہ کیا جاتا رہا ہے۔ سیاست سے باہر پوری ثقافتی زندگی میں بھی ہر طرح کا ہلکا پن رائج کر کے لوگوں کو سنجیدہ فکر اور نظریات پہ غور کرنے نہیں دیا جاتا۔
بورژوازی اپنی مارکیٹ کی وسعت کے لیے نئے مواقع تلاش کر تا رہتا ہے۔ تاکہ کپٹلزم کے ناکارہ انجنوں کو بحال رکھا جاسکے۔ وہ اس کام کے لیے ہیجانی کوششیں کرتا رہتا ہے۔کبھی دیکھو تو حکمران سعودی عرب پہنچے ہوتے ہیں، کبھی عرب امارات، چین، امریکا اور ترکی۔ ان کے سرگردان دورے ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے۔ مگر یہ ساری امداد، قرضے اور ”ٹریڈ ناٹ ایڈ“ کی زکاتیں معاشی بحران ختم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک پکا، دیرپا اور بنیادی (عالمی)بحران ہے۔کرونا وبا نے اس بحران کو شدید بنادیا۔اور یہ صرف معاشی بحران بھی نہیں ہے۔ یہ بحران زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کرچکا ہے۔ یہ صرف ایک ملک کا اندرونی بحران بھی نہیں ہے۔ یہ دراصل عالمی کپٹلزم کا بحران ہے۔ اس بحران کا حتمی حل بھی ملکی نہیں، بین الاقوامی ہے۔ یعنی کپٹلزم کا خاتمہ۔
یاد رکھیے، حکمران ہمیں دیوالیہ ہونے کا خوف دلا کر ہمارے خلاف خوفناک اقدامات کرتے ہیں۔ اور یہ اقدامات عوام دشمن ہوتے ہیں۔ ملک ٹوٹنے کا خوف دلا کر، یا، دیوالیہ ہونے سے ڈرا کر حکمران اپنے طبقاتی مفاد کو بچاتے ہیں۔ ہمیں بورژوازی کے دھوکے باز نسخوں کو فی الفور مسترد کر نا چاہیے۔ ہمیں عوامی اور سائنسی متبادل کی بات کرنی چاہیے۔ پہلا یہ کہ اشیا(خواہ پٹرولیم مصنوعات ہوں یا کھانے پینے کی چیزیں) مہنگی نہ کی جائیں۔ اس کی ضرورت ہی نہیں۔ آئی ایم ایف سے تعلق توڑ دیا جائے تو قرضہ کی بھی ضرورت نہیں۔ بس جاگیرداروں کی زمین ضبط کر کے کسانوں میں بانٹ دی جائے، خوراک کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ عیش وعشرت کی چیزوں کی امپورٹ فوراً بند ہو۔ ضرورت سے کئی گنا بڑی ریاستی مشینری (سول ملٹری بیوروکریسی) کو کم کیا جائے۔ بے کار محکمے بند کیے جائیں۔ خود مختار نیم سرکاری اداروں کو سرکاری تحویل میں لیا جائے۔ ہمسایوں سے تعلقات بہتر کر کے اُن کے ساتھ جنگی ماحول ختم کیا جائے۔غیر جنگی فوجی اخراجات پہ پابندی لگائی جائے۔ اورتجارت پڑوسی ممالک سے کی جائے۔اور اُن کی مدد سے بنیادی اور ضروری انڈسٹری لگائی جائے۔