شمارہ مئی 2022 (مزدور ایڈیشن)
مئی 2022 کے سنگت میگزین کا جتنا شاندار سرورق ہے، مواد بھی اسی قدر امیر اور غنی ہے۔رسالہ لیٹر ٹوایڈیٹر، ایڈیٹوریل، آرٹیکلز، کتاب پر تبصرہ، رپورٹ،افسانے اور شاعری پہ مشتمل ہے۔ ہر مضمون خوبصورت اور ہر قابلِ داد ہے۔مضامین اور شاعری میں مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کی بات کی گئی ہے۔ خصوصا ً بلوچستان میں مزدوروں اور ٹریڈ یونینز کی تحریک کا ذکرتفصیلاًموجود ہے۔
عاقب نے تربت سے سلام بھیجا ہے۔ سنگت کو اپنے خط کے ذریعے پسند کیا ہے۔ایڈیٹوریل ہمیشہ کی طرح جاندار ہے۔ یہاں ”رائٹسٹ اور فاشسٹ سماج“کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ بلوچستان میں 29مئی کو بلدیاتی انتخابات ہوگئے۔ اس بابت ایڈیٹوریل سے کچھ سطور نقل کرنا چاہوں گا۔
”ہر کیپٹلسٹ ملک دولت مندوں کی وجہ سے ہمہ وقت بحرانوں میں لپٹاہوتا ہے۔“
”طبقاتی نظام میں ہر چیز بکتی ہے تو ووٹ بھی بکے گا۔“
”پاور پالیٹکس کی سیاست جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔“
ایڈیٹوریل کے آخر میں تجویز دی گئی ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے ”مزدور طبقے کی اپنی اور الگ سیاست۔“
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ یہ سوال ذہن میں لیے آگے بڑھا تو پاکستان میں محنت کشوں کی تحریک، کشتی سازی کی صنعت، کسانوں کی تحریک، بلوچستان کی مزدور تحریک، نئے دور کی مزدوری،غلامی سمیت کئی شاندار مضامین اورافسانے میرا راستہ تک رہے تھے۔ میں جوں جوں آگے بڑھتا گیا مجھ پر مزدوروں، محنت کشوں کی قربانیوں کے ابواب کھلتے چلے گئے۔ جن صعوبتوں سے تحریک گزری اس کا ہم شاید تصور ہی کر سکیں۔ آج ہم تک اشیائے خورونوش سمیت جو کچھ پہنچ رہا ہے یہ سب انہی کی مرہونِ منت ہے۔
شاہ محمد مری صاحب نے بلوچستان میں محنت کشوں کی تحریک پرتفصیل سے لکھا ہے۔ بلوچستان میں ٹریڈ یونین کی تاریخ پہ اچھی بحث ہے۔ 1927کاایک عدالتی فیصلہ نقل کیا ہے جو بنا م قاضی داد محمد ہے جو کسان تحریک کے روح ِ رواں رہے۔ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ بلوچستان میں ٹریڈ یونین تحریک کا بانی یوسف عزیز مگسی تھا،نظریاتی طور پر بھی اور تنظیمی طور پر بھی۔ یہ انتہائی دلچسپ مقالہ ہے۔ 1941کی بلوچستان مزدور پارٹی کا ذکر ہے اس میں اور بلوچستان لیبریشن کا بھی۔ ریلوے، واپڈا، پوسٹل غرض جن اداروں میں ٹریڈ یونین بنے ان سب کا تذکرہ اس مقالے میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 2021 میں بنی بلوچستان ایمپلائز گرینڈ الائنس پہ تفصیلی گفتگو اسی آرٹیکل کا حصہ ہے۔
شا ن گل کی تحریر’کسانوں کی تحریک‘ ہمیں ششک تحریک سے آگاہ کرتی ہے۔1972میں کسانوں پر حملے کا بتاتی ہے۔ سامراجی قوتوں اور فیوڈلز کا چہرہ بے نقاب کرتی ہے۔ پٹ فیڈر اور اس کی کسان تحریک،بھٹو کی زرعی اصلاحات اور افغانستان کے نیمروز میں موجود کسانوں کا ذکر اس تحریر میں موجود ہے۔ ہماری نسل کو خاص طور پر اس تاریخ کو پڑھنا چاہیے۔ ان فیوڈلز نے جس طرح ستر کی دہائی میں حکومت کے ساتھ مل کر کسانوں کی تحریک کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی آج بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔
پروفیسر حمید خان نے’بلو چستان کی مزدور تحریک‘ کے عنوان سے گزشتہ برس گرینڈ الائنس کی سرگرمیوں پر تفصیل سے لکھا ہے کہ کیسے ملازمین کے سامنے حاکم وقت نے گھٹنے ٹیک دیے۔اقصیٰ غرشین نے اپنے آرٹیکل ’نئے دور کی مزدورانہ غلامی‘ کا آغاز شاندار طریقے سے پر یم چند کے افسانے ”سوا سیر گیہوں“کے خلاصے سے کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ”آج کے بین الاقوامی مہاجن ہیں جو کبھی آئی ایم ایف اور کبھی ورلڈ بینک کے نام سے قرضہ دیتے ہیں اور نسلوں کو غلام بنا لیتے ہیں۔“
فلموں پہ تبصرہ کرنے والے مایہِ ناز مبصر ذوالفقار زلفی نے مزدور دوست مارکسی فلم Aghaat پر تبصرہ کیا ہے۔اور رنجیدہ ہیں کہ’آج کل ان موضوعات پر دھیان نہیں دیا جا رہا حالاں کہ سماج میں آج بھی محنت کشوں کے بنیادی مسائل اور مارکسی دانشور وں کا نظریاتی انجماداپنی جگہ برقرار ہے بلکہ شدید تر ہے۔‘ جمیل بزدار لکھتے ہیں کہ مارکس کے یہ دو مقولے آپ کا تنظیمی منشور بھی ہیں اور آپ کا لائحہ عمل بھی؛ ’دنیا کے مزدوروایک ہوجاؤ‘ اور’تمہارے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں سوائے زنجیر کے‘۔
رزاق شاہد نے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتاب ’ہوچی منہہ‘ پر تبصرہ لکھا ہے۔ تبصرہ پڑھنے کے بعد لگتا ہے آپ ایک عظیم ہستی سے مل چکے ہیں اور کتاب پڑھنے کی جانب مائل کرنے والا تبصرہ ہے۔مبصر بتاتے ہیں کہ ہوچی منہہ کی سوانح ایک فرد، ایک خطے کی نہیں بلکہ انسانی جدوجہد کی داستان ہے۔
افسانوں میں سعادت حسن منٹو کا ’مزدور‘ اور عابد میر کا’خدا ترس‘شامل ہیں۔ منٹو کا کردار ایک کشمیری مزدور ہے جس کے ہاتھ چاول کی بوری لگتی ہے اور وہ عوام کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔ پکڑے جانے پر ان الفاظ میں التجا کرتا ہے”حضرت تم بوری اپنے پاس رکھ۔میں اپنی مزدوری مانگتی۔ چار آنے۔“ دوسری جانب عابد میر کے مزدور کردار کو بیماری کے باوجود رخصتی نہیں ملتی۔ سیٹھ کے حکم اور دیہاڑی نہ ملنے کے ڈر سے کام میں لگ جاتا ہے اور بوریاں اتارتے اتارتے اْن کے نیچے دب جاتا ہے۔سیٹھ اس کے فرزند کو دس ہزار روپے کفن دفن کے دیتا ہے تو لوگ ہیں عش عش کر اٹھتے ہیں کہ خدا ترسی تو ایسی۔۔۔۔ واقعی۔ہیں تلخ بندہ مزدور کے اوقات۔
شاہ محمد مری نے ’لینن کی شخصیت‘ کے عنوان سے اْن کی زندگی پر خوبصورت مقالہ لکھا ہے۔ ان کی شریک حیات کا ذکر ہے۔ لینن کی زندگی،اس کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ کیا سادہ لوگ تھے ساتھ نبھانے والے۔ ڈاکٹر قیس اسلم کا انگریزی میں آرٹیکل چھپا ہے وہ پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی اور غربت پر بحث کرتے ہیں۔انہوں نے اعداد و شمار سے اپنی بحث کو آگے بڑھایا ہے۔پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن اوکاڑہ کے اجلاس کی رپورٹ بھی میگزین کا حصہ ہے جسے راؤ شکیل احمد شکیل نے لکھا ہے۔جناب عبدالحمید شیرزاد نے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے ساتھ بیتے وقت کا حال بیان کیا ہے۔ ان کی سیاسی جدوجہد پر روشنی ڈالی ہے اور انہیں مظلوم و محکوم عوام کی توانا آواز، بلوچ جدوجہد کا استعمارقرار دیا ہے۔
رخشندہ بتول نے مزدور شاعر تنویر سپرا کے اشعار کو سنگت کی زینت بنایا ہے۔ میر گل خان نصیر، فیض احمد فیض، ڈاکٹر منیر رئیسانی، محمود فدا کھوسہ،اسرار الحق مجاز، اقصیٰ، رخشندہ نوید، فضل احمد خسرو،ثروت زہرا، محمد رفیق مغیری جیسے مایہ ناز شعرا کا کلام اس شمارے کا حصہ ہیں۔
گل خان نصیر
کڑکڑاتی دھوپ میں ننگا کسان
ہل چلاتا ہے ضعیف و ناتوان
نیم عریاں فاقہ کش مزدور ہے
پیٹ پل سکتا نہیں مجبور ہے
تنویر سپرا
رات کی شفٹ چلا کر مجھ کو خوابوں سے محروم کیا
میرے آجر نے میری فطرت پر ڈاکہ ڈالا ہے
مل مالک کے کتے بھی چربیلے ہیں
لیکن مزدور کے چہرے پیلے ہیں
اسرارالحق مجاز
محنت سے یہ مانا چْور ہیں ہم
آرام سے کوسوں دور ہیں ہم
پر لڑنے پر مجبور ہیں ہم
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم
مذکورہ رسالہ ایک توانا آواز ہے۔ جہاں اس میں کے مزدوروں کی بات کی گئی ہے وہیں عوام کو سامراج کے ہاتھوں یرغمال بننے پربھی بحث کی گئی ہے۔اس شمارے نے واقعی مزدور ایڈیشن کا حق ادا کردیا ہے۔سنگت اکیڈمی کی یہ شاندار روایت (مزدور ایڈیشن،عورت ایڈیشن وغیرہ) جاری رہے تاکہ ہم جیسوں کے علم میں اضافہ ہوتا رہے۔