سنگت اکیڈمی آف سائنسز کوئٹہ کی ماہانہ علمی و ادبی نشست ’پوہ زانت‘کی نشست27 مئی2022 کی صبح گیارہ بجے پرفیشنل اکیڈمی میں منعقد ہوئی۔ نشست کی صدارت سنگت اکیڈمی کے مرکزی جنرل سیکرٹر ی ڈا کٹر عطا ء اللہ بزنجونے کی۔

نشست میں علی عارض نے ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ْ یورپ کا عروج‘پہ اور نجیب سائر نے سنگت رسالہ کے مئی کے شمارے پہ تبصرہ پیش کیا۔ڈاکٹر منیر رئیسانی نے اپنی تازہ غزل تنقید کے لیے پیش کی جبکہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے انسا ن کی معاشی  اور سماجی ارتقا پر بات کی۔ نظامت کے فرائض ڈپٹی سیکرٹری  نجیب سائرنے ادا کیے۔

علی عارض نے بتایا کہ ڈاکٹر مبارک علی نے یورپ کے عروج کے محرکات، مسیحیت  کا معاشرے میں کردار، مڈایول دور کا یورپ اور رینیساں کے بارے تفصیل سے بیان کیے ہیں۔یورپ میں medieval دور یورپ کا تاریک دور رہا ہے جس میں فرد کو کوئی آزادی نہیں تھی۔وہ  چرچ، بادشاہ اور فیوڈل لارڈز کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا۔معاشرہ سماجی، مذہبی اور سیاسی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ تخلیقی عمل رک چکا تھا۔معاشرے میں طبقاتی جبر اس قدربڑ چڑھا کہ لوگ بھوک اور افلاس سے مرنے لگے۔چرچ نے لوگوں کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔آہستہ آہستہ چرچ نے پورے یورپ پر اپنا سیاسی تسلط جما لیا۔

نجیب سائر نے کہا کہ سنگت میگزین کا جتنا شاندار سرورق ہے، مواد بھی اسی قدر امیر اور غنی ہے۔اس شمارے نے واقعی مزدور ایڈیشن کا حق ادا کردیا ہے۔ ہر مضمون خوبصورت اور ہر ایک شعر قابلِ داد ہے۔مضامین اور شاعری میں مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کی بات کی گئی ہے۔ خصوصا ً بلوچستان میں مزدوروں اور ٹریڈ یونینز کی تحریک کا ذکرتفصیلاًموجود ہے۔سنگت اکیڈمی کی یہ شاندار روایت (مزدور ایڈیشن،عورت ایڈیشن وغیرہ) جاری رہے تاکہ ہم جیسوں کے علم میں اضافہ ہوتا رہے۔

 

ڈاکٹر منیر رئیسانی کی غزل کو پسند کیا گیا۔حاضرینِ محفل نے انہیں خوب داد دی۔ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ایک شعر پہ انہیں مخاطب کرکے کہا ’اس کی قیمت بتا دو‘۔غزل کے چند اشعار  ملاحظہ ہوں:

ہوائے سرد سے لرزاں، بجھا بجھا سورج

قریبِ نخلِ صنوبر، تھکا تھکا سورج

ہم اپنی خاک پہ بکھرے ہیں راکھ کی صورت

ہمیں تْو آگ دکھائے گا؟ جارے جا سورج

جو شب نڑادوں سے الجھا بہ صرفِ شعلہ ء جاں

پھر اس چراغ کا بنتا ہے خوں بہا سورج

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنی گفتگو  علی عارض کے تبصرے سے شروع کی۔ کہا کہ ریناساں وقت کی ضرورت تھی۔انسانی سرگرمیوں کا نام تاریخ ہے۔سوچنا چاہیے کہ دوسرے لوگ تاریخ کو کیسے دیکھتے ہیں اور ہم کیسے دیکھتے ہیں۔

مہر گڑھ سے پندرہ بیس ہزار سال پہلے بلوچستان میں کسی وادی میں کچھ لوگ اکٹھے رہتے تھے۔انسان اس قدرِ primitiveتھا کہ وہ خود پیداوار نہیں کرتے تھے۔ بس پہاڑی پھل اور بہت بعد میں آگ کی دریافت کے بعد جنگلی جانوروں کے شکار  پہ گزارہ کرتا تھا۔ زبان،رواج عقائد   آئین وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہی  نہیں تھی۔ ذاتی ملکیت نہیں تھی۔یہ Hunterاورgatherer سوسائٹی کہلاتی تھی۔ یہی قدیم کمیونسٹ سوسائٹی تھی۔

اس کے بعد غلامانہ سوسائٹی کا آغاز ہوا۔جہاں جنگلی پھل کے ساتھ ساتھ شکار خوراک کی ضرورتیں پورا کرنے لگا۔ شکاری پارٹیاں شکار پہ لڑ پڑتیں اور کمزور پارٹی قتل کردی جاتی۔ بعد میں قتل کرنے کے بجائے اسے غلام بنا کر فاتح پارٹی کے لیے شکار کے کام پہ لگادیا گیا۔ غلام داری کو ڈویلپ ہونے میں صدیاں لگیں۔ اور پھر رومن ایمپائر کو اپنے کندھوں پہ استوار کیا، معدنیات کا سار کام کیا، بڑی بغاوتیں کیں۔ جب انسان نے جانوروں کو پالتو بنانے کا عمل شروع کیا۔ انسانی ضروریات بڑھتی رہتی ہیں۔انسان اس عمل کو پسند کرتا ہے جس میں مشقت کم سے کم ہو اور پیداوار زیادہ سے زیادہ۔ لہٰذا اس نے زراعت کے لیے آلاتِ پیداوار ایجاد کیے۔آہستہ آہستہ ملکیت در آئی اور جاگیرداریت نے منصب سنبھال لیا۔

جاگیرداری، چرچ اور بادشاہ نے مل کر انسانیت کی بدترین تذلیل کیے رکھی۔۔ اس ڈارک ایج میں بالخصوص عورتوں کو ڈائن قرار دے کر قتل عام کیا گیا۔

زرعی دستکاری ڈویلپ کرتے کرتے انڈسٹری بنی۔ سائنسی ایجادات اور فکری سوالات نے ابھر کر رینیساں نامی روشن فکر ماحول بنا دیا۔ صنعتی انقلاب ہوا اور جاگیرداری نظام سے جمپ کرکے انسان کپیٹلزم میں داخل ہوا۔۔ آج ہم جدید ترین عالمی کپیٹلزم کا حصہ ہیں۔  اس  نے کہا کہ اگلا دور پھر کمیونزم کا ہوگا۔

ڈاکٹر مبین میروانی نے مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کیں اور اجلاس سے منظوری لی۔

۔1۔یہ اجلاس سیاسی رہنما جناب یوسف مستی خان کی اہلیہ کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتا ہے۔

۔2۔یہ اجلاس سیاسی ورکرز خصوصاً سند ھ اور بلوچستان کی خواتین کو لاپتہ کرنے کی مذمت کرتا ہے۔

۔3۔بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے۔ اسے سنجیدہ طور پر سمجھا جائے اور اس کا سیاسی حل نکالا جائے۔

۔4۔یہ اجلاس بڑھتی ہوئی مہنگائی کی مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

۔5۔ملکی سطح پر اخراجات بالخصوص غیرپیداواری اور فوجی اخراجات کم کیے جائیں تاکہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کے رحم و کرم پہ معاملات کو نہ چلایا جائے۔

صدارتی کلمات میں ڈاکٹر عطاء  اللہ بزنجو نے کہا کہ ملکی صورتحال سب کے سامنے ہے، آئی ایم کی گرفت ہے، گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کی باتیں ہیں۔اربوں کھربوں کا قرض ہے۔ڈالر کی اڑان ہے۔ لوئر کلاس ختم، مڈل کلاس تباہ ہے۔ مہنگائی مزید بڑھے گی۔اس نے کہ سنگت کے دوست تنظیمی امور کا خیال رکھیں۔ اس کے معاملات کو ڈسپلن کے ساتھ چلائیں۔ سنگت ہمارا گھر، ہمارا ادارہ ہے۔ اس گھر سے شعور و آگہی کی کرنیں ہر سمت بکھررہی ہوتی ہیں۔یہ وہ روشن شمع ہے جس کو مل کر جلائے رکھنا ہوگا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے