میں  ڈاکٹر خالد سہیل اور عظمی عزیز کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ نہ صرف انہوں نے مجھے اپنی کتاب ”عزیز الحق لاہور کا سقراط“کا تحفہ دیا بلکہ اس کی رونمائی کی تقریب میں اپنا مضمون پڑھنے کی دعوت دی۔میرا تعلق ہیلتھ سائنس کے شعبے سے ہے اور طبعا“ میں ثقیل الفاظ اور گفتگو سے دور بھاگتی ہوں۔ اس لیے اج کل کے مو ٹویشنل اسپیکرز،  عالمہ اور دانشور حضرات کے لیے ہم جیسے لوگ ایسا چکنا گھڑا ؤتے ہیں جن کے اوپر نہ ہی ان کے  بناوٹی الفاظ اور نہ ہی کسی کی مخیر حضرات کی دولت اور نمودونمائش کا اثر ہوتا ہے۔وہ بات جو سادہ اور بامعنی ہو اور کسی مخلص شخص کے منہ سے ادا ہو رہی ہو وہ زیادہ پر اثر ہوتی ہے۔ میرے لیے اس کتاب کو پڑھنا اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنا دلچسپ تھا۔کیونکہ جتنا میں نے ڈاکٹر صاحب سے بات چیت کے دوران عزیز الحق کو جانا اس نے ان کے اس image کو built کیا کہ انہوں نے اپنی مختصر سی عمر میں بغیر کسی کے اپنی ideology کو سمجھا، پڑھا، مانا اور ترویج کی اور کسی بھی دولت کے ساتھ اپنی ذہانت، لوگوں کے ساتھ اپنے دلی تعلق کا سودا نہیں کیا اور نہ ہی اپنے الفاظ پر قدرت کو کسی بھی ناخدا کو خدا بنانے کے لیے استعمال کیا۔ایسے لوگ کمیاب ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ تعلق آپ کے دل و دماغ کو سیراب کرتا ہے اور چاہے ان کا مادی وجود ہو یا نہ ہو ان کا نظریہ ان کے سچ کی گواہی دیتا ہے۔ایسے سچے کھرے لوگوں کے لیے لکھنا اعزاز ہوتا ہے۔کیونکہ آپ کو علم ہوتا جو وہ آپ کو بتا رہے ہیں وہ اس پر دل وجان سے یقین رکھتے ہیں۔ اور اس کو جیتے ہیں یہ ڈر نہیں ہوتا کہ پتہ نہیں بیک ڈور ان کے کس سے روابط ہوں، کس سے پیسے لے کر اس کے خلاف جان کر بول رہے ہوں تاکہ مخبری کر سکیں کہ اصل باغی کون ہیں۔ آپ یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے لفظ کسی آمر کے سیاہ کو سفید کرنے والے شخص کے لیے نہیں اور ایسا میں نے عزیز الحق کو پایا۔جب مجھے کتاب ملی تو اس کی شخصیت کے مقالموں کی گہرائی کی نوید مجھے ڈاکٹر صاحب سے مل چکی تھی اور آپ میں سے کوئی بھی جس کا کوئی ڈاکٹر دوست ہو وہ جانتا ہو گا کہ ہم ہیلتھ سائنس کے طالبعلم جب تک دو تین کتابیں نہ جمع کر کیں ہمیں سکون نہیں آتا اس لیے  میں میں نے عظمی سے ان کے والد کے مقالوں کی کتاب جو ان کے چچا نے چند سال پہلے اکھٹے کر کے چھپوائی تھی مانگی۔عظمی نے کمال مہربانی سے یہ پوچھے بغیر کے پہلے والی پڑھی یا نہیں، مجھے وہ کتاب فوراً ای میل کی۔اس کتاب کے اوپر ایک نظر ڈالتے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ یہ ایسا ہے کہ آپ کے پاس میڈیسن کی ڈیوڈسن ہو اور دو ہفتے بعد امتحان ہو،پاس کرنے کے لیے آپ بازار سمری بک شمیم لینے جائیں اور harrisson خرید کے لائیں اور اپنی راتیں کالی کریں۔ لیکن اس کتاب کو پڑھنے اور اس کے نوٹس بنانے اور اس پر مضمون لکھنے کا سہرا دو لوگوں کے سر ہے۔ ایک وہ جس کے بارے میں یہ کتاب ہے کہ ان کی زندگی اور writing نے مجھے excite کیا۔دوسرے ڈاکٹر خالد سہیل جو سہرا باندھنے کے حق میں نہیں، ان کا فون اور اس پر شگفتہ جملے جو آپ کو stimulate کریں اور ساتھ میں آپ کی سستی کے باعث آپ کی میٹھی میٹھی عزت افزائی ہواور حوصلہ افزائی کا یہ عالم  کہ معلوم ہو کہ آئن سٹائن کا دوسرا جنم آپ ہیں تو آپ ٹائم کے ساتھ ریس لگا کر  E = mc 2 کو الٹ پلٹ کر کے اس ناممکن کو ممکن کر لیتے ہیں۔

 

عزیز الحق کے بارے میں پڑھتے اور لکھتے ہوئے  مجھے میر کا یہ شعر بہت یاد آیا

ان بلاوْں سے کب رہائی ہے

عشق ہے، فقر ہے، جدائی ہے

لفظ کی سچائی کی گواہی یہ کہ صدیوں بعد بھی اپنے پڑھنے والے کو اپنے کھرا ہونے کا یقین دلایا۔ خود عزیز الحق نے اپنے مقالہ”خواب اور شاعری“میں لفظ، شعور اور تجربے کو بیان کیا ہے اور اس نظریے کے مطابق صدیوں کے تجربات سے انسان جو نظریہ کشید کر تا ہے یہ الفاظ کے قالب میں ڈھال کر جب اپنے احساسات کا حصہ بناتا ہے تو وہ تجربات اور الفاظ جو اجتماعی شعور کو جنم دیتے ہیں وہ ہی صدیوں کے امتحان پر پورا اترتے ہیں اور ہر دور کا سقراط زہر کا پیالہ یہ سوچ کر پی جاتا ہے کہ اس کا نظریہ اور الفاظ کی سچائی اس کو سچ کے متلاشیوں کے دل ودماغ میں رہتی دنیا تک زندہ رکھیں گے۔اسی اجتماعی شعور نے لاہور کے سقراط سے“ مردہ معاشرے کی زندگی“ تحریر کروایا۔اس ایک مقالے میں عقیدے اور کپیٹلزم جیسے انسانوں کو چلتی پھرتی لاشوں میں تبدیل کر کے معاشروں کو قبرستان میں بدل دیتے ہیں، کے سچ کو عزیز الحق نے اپنے ذاتی تجربات اور احساسات کے ساتھ وقت کے دھارے پر اس طرح تحر یر کیا ہے کہ پچاس سال کے بعد پڑھنے والی سارہ نے اس سے اتنی آسانی سے relate کیا کہ عزیز الحق اور ہردیال سنگھ کا dilemma مجھے اپنا dilemma لگا کہ کینڈا میں ہر چیز کی آزادی اور سہولت ہوتے ہوئے اپنے آپ کو“international“ ثابت کرنا کیوں مشکل ہوتا ہے۔کیونکہ بقول عزیز الحق Where is my father for whom i should commit myself کے سوال میں ہمارے قانونی، خونی رشتوں اور  مشترکہ مظلومیت کے طبقاتی رشتوں کی اساس ہے کیسے انفرادی دولت کے حصول کے اوپر بنایا گیا یہ سسٹم  ہمیں ہمارے ہی وجود سے الگ کر کے اس چیز پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم ان رشتوں میں سے ایک کا انتخاب کریں اور صرف میں اور میرا کی گردان کرتے جائیں اور اجتماعیت سے منہ موڑ کے اپنی ذات کے خول تک محدود ہو جائیں۔ لیکن اس سچ تک پہنچنے کے لیے خود عزیز کتنی دفعہ سچ کے پل صراط سے گزرا،اس کا گواہ یہی مقالہ ہے اور یہ وہ شخص ہے جس نے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ migration کا درد سہا۔بچپن میں جوانی میں یہ کہہ دینا بہت آسان ہے لیکن کرنا کٹھن۔پودے کو بھی جب آپ ایک جگہ سے اکھاڑ کے دوسری جگہ پر لگائیں تو ہر پودا ہرا نہیں ہو جاتا۔کچھ سوکھ بھی جاتے ہیں۔ اور عزیز اور ہردیال اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے 1947 کی خون آشام ہجرت دیکھی۔منٹوں میں اپنے گھر وں گاوں شہروں کو اجاڑتا دیکھا اپنوں کو اسی سامراج کے ہاتھوں پرایا ہوتا دیکھا۔کسی، بھی نظریے پر آنکھ بند کر کے عمل کرنا آسان ہے اور ہمیشہ سچ کی تلاش مشکل ہے۔اس سچ نے نویں جماعت کے تبلیغ پر گئے عزیز الحق کو انسانیت کے دکھ سے آشکارکیا اور گاؤں کے میاں جی کی بیٹی کی موت نے عزیز الحق کے لیے  اس سفر کی ابتدا کی جو اس سے شروع ہوا کہ یہ تکلیفیں غربت،ان انسانوں کے اپنے گناہوں،اور اعمالوں کا نتیجہ ہے اور یہ سب خدا کی طرف سے ہے اور اس پر منتہی ہوا کہ یہ ظلم اس نظام نے برپا کیا جس نے چند انسانوں کو ساری زمینوں فکیڑیوں اور دولت کا مالک بنا کر باقی انسانوں کو ان کے ٹکڑوں پر پلنے کے لیے چھوڑ دیا اور صرف دکھ اور موت ان کے حصے میں آئی اور سکھ شانتی ان ایک فیصد انسانوں کا مقدر ٹھرا اور دان کیے گئے  ٹکڑے بھی اتنے خطیر کہ بغیر ایک دوسرا کا گلا کاٹے زندگی کی دوڑ جیتنا محال ہوا

اور سادہ لوح انسانوں کو عقیدے کی آڑ میں صبر اور شکر کی گولی کھلائی گئی اور موت اور قبر کے علاوہ ہر چیز پر سے ان کا اختیار چھین لیا گیا

 

ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے

بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

 

عزیز کو اپنے بھگوان کے گم ہو جانے کا دکھ نہیں کیونکہ وہ سچ کے متلاشی تھے اور سچ آپ کو کڑوا بھی کرتا ہے اور بہادر بھی، دکھی بھی کرتا ہے اور آزادی بھی عطا کرتا ہے۔  اسی وجہ سے انہیں اپنے اوپر لگائے گئے لبیلز کی پرواہ نہیں کیونکہ ان کو آگاہی تھی کہ انْ کا سچ انْ کو عطا کیے گئے خطابات بے دین سے زیادہ طاقتور ہے ان کو اپنے علم اور خطابات عطا کرنے والوں کی جہالت کا بخوبی علم تھا۔ان کو اس سچ نے آزاد خیالی کے صحیح مطلب اور معنی سے روشناس کیا۔ان کے لیے آزادی خیالی یا لبرل ہونا ایک فیشن statement نہیں اور نہ ہی یہ called so دیسی لبرلز کی خود غرضانہ enlightment ہے جس کے اصول دوسروں کے لیے اور اور اپنے لیے اور ہوں یہ ایکscientific  thought process  ہے جو صرف دوسروں کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات اور نظریات بھی ہر وقت اس کے کہڑے میں ہیں ایسا سائنٹفک process thought جس میں آپ کھلے دل و دماغ سے نئے اور پرانے نظریات اور عقائد کو عمل عقل اور شعور کے پیمانے میں تول کے رد یا قبول کریں اور اس کے لیے ان کے ہاں لیفٹ رائٹ کی کوئی قید نہیں بلکہ عزیز الحق بغیر لگی لپٹی رکھے لیفٹ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر آپ کھلے دل ودماغ کے آزاد خیال انسان نہیں تو آپ کے extremism اور رائٹ کے extremist میں کوئی فرق نہیں کیونکہ ان کے لیے یہ thought process ارتقا کا ناگزیر عمل ہے جس کے بغیر ہر نظریہ ہر تحریک stagnant ہے۔ہر دور کا سقراط اپنے سچ تک خود علم اور تجربے کی بھٹی سے سچ کو کندن بنا کر دنیا کے سامنے آشکار کرتا ہے اور یہی ایک عام انسان اور سچ کے متلاشی سر پھروں، روایات کے باغیوں کے درمیان فرق ہے۔عام انسان کے لیے موت ایک خوف ہے کیونکہ ان کی زندگی کا مقصد انفرادی ہے۔میرا کیرئر، میرا خاندان، میرا بینک بیلنس جائیداد اور یہ سب اس زندگی کے ساتھ ہیں اور سچ کے مسافر موت سے اس لیے نہیں ڈرتے کیونکہ ان کا پیغام ہر وقت کے لیے سچ ہے اور اس چیز کا ادراک کہ اس راہ میں ہر جگہ آہ کی موت کا گھاٹ تیار ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ وہ سفر ہے جس میں جہاں ایک سچ کا مسافر اپنی شمع چھوڑتا ہے وہاں دوسرا آگے بڑھ کر اسے اٹھا لیتا ہے۔اس میں دشمن سے زیادہ خطرہ اپنے دوست سے ہوتا ہے کہ سچ کو اپنے پرائے  کی پہچان نہیں اس لیے“ یونگ اور پاکستانی ادب“ پڑھتے ہوئے  آپ کو احساس ہوتا ہے کہ اپنے دشمن کے منہ پہ سچ بولنا کتنا آسان اور اپنے ہی ہم پیالہ و ہم نوالہ کے آگے سچ بولنا کتنا کھٹن ہے۔ لیکن اس مقالے کا سچ پاکستان میں پچاس سال کے بعد بھی حرف بہ حرف وقت پہ عزیز الحق کی گرفت کی دلیل ہے۔ اگر آپ پڑھنے والے کو آگاہ نہ کریں کہ اس کا سنہ اشاعت کیا ہے تو اس کو معلوم ہوگا کہ یہ ابھی کے لیے لکھا گیا ہے۔ پاکستان میں کلاسیکی اردو ادب کے جمود کی تاریخ  اور  پاکستانی معاشرے کے انتشار کی وجوہات  اس ایک مقالے میں پنہاں ہے اپنے کلچر اور تہذیب جس کی تلاش میں ہم آج بھی عربوں اور وسط ایشیا تک اپنے شجرہ نسب کو لے جاتے ہیں اس کو ہم نے نئے آباد ہونے والے ملک میں سرمایہ کارانہ اور جاگیردارنہ نظام کے ہاتھوں کھو دیا اور جن حسین امیدوں کے ساتھ یہ ملک قائم ہوا تھا جب وہ مریں تو ادب کے ساتھ معاشرہ بھی انتشار کا شکار ہوا اور ہم نے ماضی اور مذیب میں پناہ لی۔پچاس سال پہلے بھی اور آج بھی تہذیب وتمدن کے خیرخواہ اپنی ماں بولی اس کی ادبی تخلیقات سے جڑنے کی بات کرتے ہیں کیونکہ ان کا ادب سیکولر ہے۔لیکن اس وقت بھی اور آج بھی اس کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔حالانکہ جو بات آپ عوام تک ان کی ماں بولی میں پہنچا سکتے ہیں وہ انگریزی اور اردو میں نہیں۔میرے لیے یہ بات آج بھی معمہ ہے کہ پاکستان کے انقلابی حضرات اپنی کتابیں انگریزی میں کیا سوچ کر لکھتے ہیں۔کیا یہ واقعی عام کے لیے ہوتی ہیں یا اس لبرل لیفٹ ایلیٹ کو خوش کرنے کی کوشش ہوتی ہے جس کی خوشنودی کا حصول ہمارے اندر کے کپٹیلسٹ کی انا کو سکون بخشتا ہے۔ بار بار ان کے ہاتھوں استعمال  ہو کربھی ہم اسی طبقے کی اپنے مفادات کے مطابق بدلتی ہوئی آزاد خیالی پر تالیاں پیٹتے ہیں اور اپنا تعاون پیش کرتے ہیں جب کہ پشت میں انہی کے کسی بھائی بہن نے خنجر گھونپا ہوتا ہے آپ ایک ہی وقت میں دو مخالف قوتوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوسکتے یا تو آپ نظام کے ساتھ ہوتے ہیں یا خلاف۔اس میں بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔پچاس سال پہلے بھی ہمارے کوئی صوبائی ہیرو نہیں تھے اور آج بھی نہیں آج بھی شاہ عنایت، احمد کھرل کو نہیں۔ جانتے کل بھی سی آر اسلم، غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر زیر عتاب تھے آج بھی صورتحال وہیں ہے۔ایک نظر اپنی سڑکوں پر پر ڈالیں تو بھوک افلاس، طبقاتی فرق نے مذہبی انتہا پسند ی کے ساتھ مل کر جس آتش فشاں کو جنم دیا ہے وہ اب سب جو جلا کے راکھ کرنے کو تیار ہے۔اس لیے عزیز الحق چایتے تھے کہ اس گفتگو کو جو انسان کے دکھوں کا مداوا لیے ہوئے ہے اس نظام کی بنیادیں ہلاتی ہے جو انسان سے اس کے بنیادی حقوق چھین لیتا ہے، اس گفتگو کو ٹی ہاوس کی ڈرائنگ روم کی دیواروں سے باہر کھیتوں، فیکڑیوں، سکولوں کالجوں میں لے جانے کی ضرورت ہے۔عام آدمی کے ساتھ اس کی ماں بولی میں اس کے لوکل ہیرو کے منہ سے کہلوانے کی ضرورت ہے تاکہ اس اجتماعی شعور کی راہ ہموار ہو سکے جو مساوات کے نظام کو جنم دے۔ ان کا کام اس کا گواہ ہے کہ عزیزالحق کو  اپنے نظریے اور کام سے عشق تھا اور اس میں وہ ہماری طرح نہیں تھے کہ نہ عشق صحیح سے کیا نہ کام بقول فیض

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے

جو عشق کو کام سمجھتے تھے

یا کام سے عاشقی کرتے تھے

ہم جیتے جی مصروف رہے

کچھ عشق کیا کچھ کام کیا

کام عشق کے آڑے آتا رہا

اور عشق سے کام الجھتا رہا

پھر آخر تنگ آ کر ہم نے

دونوں کو ادھورا چھوڑ  دیا

 

عزیز الحق نے اپنی زندگی میں کبھی اپنے کام کو ادھورا نہیں چھوڑا اور وہ بے وقت موت جس کے لیے وہ تیار تھے اور جس کا ان کو افسوس نہ تھا کیونکہ وہ ان بھوک اور بیماری کے مارے اپنے لوگوں سے جڑ چکے تھے اس موت کے ہاتھوں عزیز کا صرف ایک کام رہ گیا تھا اور وہ یہ کہ ان کا پیغام ان کا سچ اگلی نسل تک پہنچ جائے  اور اس نسل کا سقراط زہر کا پیالہ پینے سے پہلے اس کو اپنے طالبعلموں، دوستوں اور عوام تک پہنچا دے تاکہ ظلم کے نظام کی چکی کے پہیوں میں جتنی رکاوٹ ڈالی جاسکتی ہے ڈال دی جائے اور اس لیے انہوں نے عظمی کے ہاتھوں خالد سہیل کے دروازے پر دستک دی کیونکہ ان کو اپنے سچ پر یقین تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید میں اس کتاب کے باب نمبر دو کے سحر میں مبتلا نہ ہوتی اور نہ ہی خالد سہیل کے عظمی کے نام خط نمبر ۲ کے۔ مجھے یہ بات ماننے میں کوئی شرمندگی نہیں کہ اس خط سے پہلے وہ میرے لیے صرف عظمی کے والد تھے اور میں بے طور بیٹی  عظمی کے لیے لکھنا چاہتی تھی اس خط نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس کا باب دو پڑھوں اور بار بار پڑ ھوں تاکہ میں اس شخص کے بارے میں جان سکوں جس نے 1970 میں مردانگی کی نفسیات اور انقلابی عمل لکھا کہ ہم تو آج بھی 2022 میں بھی ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر بتاتے ہیں کہ جہاں ایک مرد اور عورت ہوتے ہیں ویاں تیسرا شیطان ہوتا حالانکہ میرے خیال میں شیطان کو اور بھی بہت کام ہیں۔ میں عزیز الحق کی عورت کو بطور پرائیوٹ پراپراٹی لیے جانے کی مخالفت اور مردوں کا عورتوں سے حقیقت پسندانہ رشتہ استوار کرنے کے نظریات نے متاثر ہوئی کہ آج بھی خواتین اس property private کے نظریے کے تحت ونی ہوتی ہیں،گینگ ریپ کا شکار ہوتی ہیں اور غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں اور جہاں تک ایسی شادیوں کا تعلق ہے جہاں یہ رشتے افسانوی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں تو ان کا جو انجام ہوتا ہے وہ ایسی نسل کی صورت میں نمودار ہوتا ہے جس کو رشتے میں باونڈری اور باہمی عزت سے ناآشنائی ہوتی ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ ڈاکٹر صاحب کے الفاظ ہیں یا عزیز الحق کے کہ ایسے جوڑوں کے بستر پر کیکٹس اگ آتے ہیں بصد احترام دونوں سے عرض ہے کہ کیکٹس بچارے کے بھی سال میں ایک دفعہ پھول اگتا ہے اور وہ دلفریب ہوتا ہے کیکٹس کے دیوانے اس ایک پھول کو دیکھنے کے لیے ترستے ہیں میرے خیال میں تو کیکر کے کانٹے ہوتے نوکیلے تیز دھار روح کو چھلنی کرنے والے یہ مردہ معاشرے کے رشتے ہیں اور عشق فنا کر دیتا ہے۔

اس کتاب کو پڑھنا اور سمجھنا صرف علمی لحاظ سے نہیں بلکہ جذباتی لحاظ سے بھی ایک مشکل کام ہے۔جب آپ خود کسی ایسے شخص سے منسلک ہوں جس نے اپنے سچ اور نظریات کی بھاری قیمت چکائی ہو تاکہ وہ تاریخ کی صحیح سمت پر کھڑا ہو تو آپ کو ایسے انسان کے گھر والوں کے دکھ زیادہ گہرائی سے اندازہ ہوتا ہے ضروری نہیں کہ وقت کا سقراط کا جسم ایک ساتھ زہر کا پیالہ پینے سے نیلا ہو جائے کئی بار یہ سقراط آہستہ آہستہ اپنے اور پرایوں کے ہاتھوں دغا کھا کے،مردہ معاشرہ کے ساتھ adjust کرنے کی کوشش میں مرتے ہیں۔ جسم پر جابجا نیلے داغ لیے اپنے کندھوں پر اپنے ہم وطنوں کے دکھوں کا بوجھ لیے وہ سچ بولتے جاتے ہیں۔یہ سننے میں دلنشین لگتا ہے لیکن اس شخص کے ساتھ محبت میں بندھے لوگ جو چوٹ دل پر کھاتے ہیں وہ زمانے کی آنکھ سے اوجھل رہتی ہے۔خاص کر جب آپ ان کے سچ کا کوئی فائدہ اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔انہی لمحوں میں میں نے اپنے والد کو ان کی جدوجہد کا کوئی فائدہ قریب مستقبل میں نہ ہونے کا طعنہ دیا تو جو جواب انہوں نے مجھے دیا اس نے میرے لیے چناؤ کے راستوں کو آسان کیا۔بقول ان کے نظریہ ایک جہد مسلسل ہے جس کے لیے ایک انقلابی جہاں تک جدوجہد کر سکتا ہے کرتا ہے پھر اس کے بعد وہیں سے دوسرا اس جدوجہد کا آغاز کر دیتا ہے اور یہ جہد مسلسل ہی سچ کو اور اس کے بولنے والوں کو زندہ رکھتا ہے یہ جان آنی جانی چیز ہے نظریہ زندہ رہتا ہے۔

 

موجِ خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری

اور کیا کوچہ قاتل کی ہوا چاہتی ہے

 

افتخار عارف

میں آخر میں عظمی سے اتنا کہنا چاہوں گی کہ اس محفل میں دو ایسی بیٹیاں ہیں جو اپنے والد کی legacy کی وجہ سے اس محفل کا حصہ ہیں۔ ایک میں خود اور دوسرا افشین قمبرانی۔ ہم دونوں کے والد نظریاتی ہیں اور لیفٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔  اس لیے میں عظمی سے کہنا چاہوں گی کہ ہم اس کتاب کو جی چکے ہیں لیکن آج بھی ہم اپنے والد کرامت علی اور نادر قمبرانی کے عشق میں مبتلا ہیں اور ان کی اور ان کے نظریات کی خوشبو آج بھی ہزاروں میل دور ہمارے ساتھ ہے اور ہماری نظریہ سے کمٹمنٹ کی وجہ ہے۔

اس لیے ہم دونوں اس زندگی کے درد اور خوشی دونوں سے آگاہ ہیں اور آپ کے لیے خوش ہیں کہ آپ نے آج پھر اپنے والد کو پا لیا اور دوبارہ بہار آ رہی ہے۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے