ہم تعداد میں چھبیس تھے۔ چھبیس متحرک مشینیں، ایک مرطوب کو ٹھڑی میں مقید، جہاں ہم صبح سے لے کر شام تک بسکٹوں کے لیے میدہ تیار کرتے۔ ہماری زندان نما کو ٹھڑی کی کھڑکیاں جن کا نصف حصہ آہنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا اور شیشے گرد و غبار سے اٹے ہوئے تھے، اینٹوں اور کوڑے کرکٹ سے بھری ہوئی کھائی کی طرف کھلتی تھیں۔ اس لیے سورج کی شعاعیں ہم تک نہ پہنچ سکتی تھیں۔

ہمارے آقا نے کھڑکیوں کا نصف حصہ اس لیے بند کرادیا تھا کہ ہمارے ہاتھ اُس کی روٹی سے ایک لقمہ بھی غریبوں کو دینے کے لیے باہر نہ نکل سکیں، یا ہم اُن بھائیوں کی مدد نہ کرسکیں جو کام کی قلت کی وجہ سے فاقہ کشی کر رہے تھے۔

ہمارا مالک، ہمیں ”جیل کے غلاموں“ کے نام سے پکارتا۔

اس سنگین زندان کی چھت جو دھوئیں کی سیاہی اور مکڑیوں کے جالے سے اُٹی ہوئی تھی۔ ہم نہایت تکلیف دہ زندگی بسر کر رہے تھے، اس چار دیواری میں جو کیچڑ اور میدے کے خمیر سے بھری ہوئی تھی ہماری زندگی۔۔۔غم و فکر کی زندگی تھی۔

پُوری نیند اور آرام کیے بغیر ہم ہر روز صبح پانچ بجے بیدار ہو کر نیم خوابی ہی کی حالت میں اُس میدے سے  بسکٹ تیار کرنے لگ جاتے جو ہمارے دوسرے رفیقوں نے ہمارے سونے کے وقت تیار کیا ہوتا تھا۔

اس طرح صبح سے لے کر رات کے دس بجے تک ہم میں سے کچھ تو بسکٹوں کے لیے خمیر تیار کرتے رہتے اور کچھ میدگوندھتے رہتے۔ اسی دوران اُبلتے ہوئے پانی کی آواز اور بھٹی میں نانبالی کے سُلاح ڈالنے کا شور ہمارے کانوں میں گونجتا رہتا۔صبح سے لے کر شام تک بھٹی جنہم کی طرح دہکتی رہتی اور اُس کی سرخ شعاعوں کا عکس دیوار پر اس طرح رقص کرتا معلوم ہوتا، گویا وہ ہم بد نصیبوں کو دیکھ کر خاموش ہنسی ہنس رہا ہے۔

وہ بڑی بھٹی کسی دیو کے بدوضع سر کے مشابہ تھی، جو اپنے  بڑے حلق سے آگ اُگل رہا ہو،یا ہمارے سامنے جہنم کی آگ کی طرح جھلسا دینے والے گرم سانس لے رہا ہو اور ہمارے غیر مختتم کام کا اپنی پیشانی کے دو سیاہ تاریک سوارخوں سے مطالعہ کر رہا ہو۔ یہ دو عمیق سوراخ آنکھوں کے مشابہ تھے۔ آنکھیں جو کسی دیو کی آنکھوں کی طرح ہمدردی اور رحمدلی کے جذبے سے عاری ہوں۔

ہر روز ہم ناقابلِ برداشت گر دو غبار اور پانی کی جھلسا دینے والی بھاپ کے درمیان اپنے عرق آلود ہاتھوں سے میدہ گوندھتے رہتے اور  بسکٹ تیار کرتے۔ ہمیں اس کام سے سخت نفرت تھی اور یہی وجہ تھی کہ ہم اپنے تیار کردہ بسکٹوں پر ریت ملی سیاہ روٹی کو ترجیح دیتے۔

روز مرہ کے کام سے ہمارے اعضا مشینوں کی طرح خود بخود کام کرنے کے عادی ہوگئے تھے۔ اور بسا اوقات اُن کی حرکت ہمارے دل و دماغ سے محوہو جاتی تھی۔

کام کے دوران ہم ایک دوسرے سے بالکل ہمکلام نہ ہوتے کیونکہ ہماری گفتگو کے لیے موضوع ہی نہ تھا۔ اس لیے ہمارا تمام وقت خاموشی میں گزرتا۔ بشرطیکہ ہم میں سے کوئی کسی سے جھگڑ نہ پڑے۔ مگر جھگڑنے کا موقع کبھی نہ آتا تھا۔ اور آتا بھی کیسے؟ جبکہ انسان نیم مردہ ہو یا اُس کی حسیات شب و روز کی متواتر محنت سے ایک بُت کی طرح کند اور مردہ کر دی گئی ہوں۔

خاموشی ان اشخاص کے لیے جو سب کچھ کہہ چکے ہوں اور کچھ کہنے کے لیے باقی نہ رکھتے ہوں، ایک خوف اور اذیت ہے مگر اُن انسانوں کے لیے جو ابھی تک اپنی آواز ہی سے نا آشنا ہوں، خاموشی بجائے تکلیف دہ ہونے کے آسان اور راحت رساں ہے۔ اس خاموشی کو کبھی کبھار ہمارا راگ توڑ دیتا۔۔۔ وہ راگ اس طرح ظہور میں آتا۔

ہم میں سے کبھی،ایک تھکے ہوئے گھوڑے کے ہنہنانے کی طرح کوئی ایسا راگ الاپنا شروع کر دیتا جو عموماً ایسے موقعوں پر رُوح کے بوجھ کو ہلکا کرنے میں مدد دیتا ہے۔پہلے پہل تو اس،اداس، راگ میں کوئی شامل نہ ہوتا اور وہ راگ ہماری زندان نما کو ٹھڑی کی چھت تلے شمع کی لوکی طرح لرزتا رہتا، مگر تھوڑی دیر کے بعد اس گانے والے کے ساتھ ہم میں سے ایک اور شریک ہوجاتا۔۔۔ اب دو غمگین وہم آہنگ آوازیں ہماری قبر نما کوٹھڑی کی کثیف فضا میں تیرتی نظر آتیں۔ تھوڑی دیر کے بعد سب اس راگ میں شامل ہوجاتے۔ اب بہت سی آوازیں جمع ہو کر سمندر کی موجوں کی طرح اس سنگین قفس کی سیاہ دیواروں سے ٹکر اکر گونجنا شروع کردیتیں۔

اس طرح ہم سب اپنے آپ کو راگ میں مصروف پاتے۔ ہمارے بلند راگ کے سُر کو ٹھڑی میں سما نہ سکتے تھے۔ وہ پتھر کی سیاہ دیواروں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ وزاری اور نالہ و فریاد کرتے اور ہمارے بے حِس دلوں میں ایک ہیجان، ایک میٹھا سادرد پیدا کردیتے جومندمل زخموں کو پھر ہرا کردیتا اور دل کو ایک نئے الم کے لیے بیدار کردیتا۔

اکثر کوئی گانے والا، سرد آہ بھرتے ہوئے اپنا گانا بند کردیتا اور آنکھیں بند کیے اپنے رفیقوں کی راگ کو خاموشی سے سُنتا، مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر اُن کے ساتھ شامل ہوجاتا۔۔۔ اُس کی نگاہوں میں راگ کی بڑھتی ہوئی لہر ایک دُور اُفتادہ سڑک تھی۔ دور۔۔۔ بہت دُور ایک کُشادہ سڑک، سورج کی جاں پرور روشنی سے مُنور،جس پر وہ اپنے آپ کو گامزن پاتا۔

اس دوران میں آگ کے شعلے بھٹی میں سُرخ زبانیں نکال رہے ہوتے۔ نا نبائی کی آ  ہنی سلاخ بھٹی کی زرد اینٹوں پر تیز آواز سے کھیل رہی ہوتی۔ اُبلتے ہوئے پانی کا شور بدستور جاری رہتا اور شعلوں کا عکس دیور پر رقصاں خاموش ہنسی ہنس رہا ہوتا۔۔۔۔اور ہم کسی غیر کے لفظوں میں اُن افسانوں کا دُکھ درد بیان کرنے میں مصروف ہوتے جن سے سورج کی روشنی چھین لی گئی ہو۔۔۔جو غلام ہوں۔

یہ تھی ہماری زندگی۔۔۔چھبیس غلاموں کی زندگی۔ اس قفس میں زندگی کے ایام اس قدر تلخ گزرتے کہ معلوم ہوتا تھاکہ اس سنگین مکان کی تینوں منزلیں ہمارے کندھوں پر تعمیر کی گئی ہیں۔

گانے کے علاوہ ہمارے پاس ایک شغل تھا،جس کی ہماری نظروں میں ویسی ہی قدر و قیمت تھی  جیسی سورج کی دلفریب شعاعوں کی۔

ہمارے مکان کی دوسری منزل میں زری کا ایک کارخانہ تھا جس میں بہت سی لڑکیاں ملازم تھیں۔ ان لڑکیوں میں سولہ برس کی ایک دوشیزہ ٹینیا نامی بھی تھی۔ جو ہماری سامنے والی دیوار کی چھوٹی کھڑکی کے پاس ہر روز آتی اور سلاخوں کے ساتھ اپنا گلاب سا چہرہ لگا کر سُریلی آواز میں پُکارتی ”مظلوم قیدیو! مجھے تھوڑے سے  بسکٹ دو!“۔

اس آواز کو سُنتے ہی ہم سب کھڑکی کے پاس دوڑے جاتے اور اس خوبصورت اور معصوم چہرے کی طرف مسرت بھری نظروں سے دیکھنے لگتے۔ اُس کی آمد ہمارے لیے ایک نہایت خوشگوار چیز تھی۔ اُس کی تیکھی ناک کو کھڑکی کے شیشے کے ساتھ چمٹے ہوے اور سپید دانتوں کو مُسکراتے ہوئے سرخ ہونٹوں میں چمکتے ہوئے دیکھنے سے ہمارے دل کو راحت پہنچتی تھی۔اُس کو کھڑکی کے پاس دیکھ کر ہم سب دروازے کی جانب بڑھتے اور ایک دوسرے کو ریلتے ہوئے دروازہ کھول دیتے، دروازہ کھلنے پر وہ اندر آجاتی۔ ہمیشہ اُسی اندازکے ساتھ مسکراتی ہوئی اپنے خوبصورت سرکو ایک طرف لٹکائے ہوئے جس سے بھورے بالوں کے خوبصورت گیسو، عجب دلکش انداز میں اُس کے شانوں پر لٹک رہے ہوتے۔

ہم غلیظ، رشت رُو، بدوضع اور حسرت زدہ بھکاریوں کی طرح کھڑے اُس کی شکل کی طرف دیکھا کرتے اور وہ دروازے کی دہلیز پر کھڑی محوِ تبسم ہوتی۔ ہم سب اُس کی خدمت میں صبح کا سلام عرض کرتے اور اُس کے ساتھ گفتگو کرتے وقت خاص الفاظ استعمال کرتے۔ وہ الفاظ ہماری زبان سے خاص اُسی اور صرف اُسی کے لیے نکلتے۔

اس سے ہمکلام ہوتے وقت ہماری آواز خلافِ معمول طائم اور نرم ہوتی اور ہمارے بُھونڈے مذاق اور ٹھٹھے اُس وقت بالکل غائب ہوجاتے۔۔۔ یہ آداب صرف اُسی کے لیے مخصوص تھے۔

نانبائی سرخ اور خستہ  بسکٹ نکال کر اُس کی جھولی عجیب چابکدستی سے پھینک دیا کرتا۔

دیکھو یہ خیال رہے۔ کہیں آقا کے دام میں گرفتار نہ ہوجانا۔ ہم ہمیشہ اُسے اس خطرے سے آگاہ کرتے رہتے۔

اس پر وہ دلکش ہنسی ہنستی ہوئی یہ جواب دیتی ”خدا حافظ میرے ننھے قیدیو“، اور یہ کہتے ہی وہ ہماری نظروں سے غائب ہوجایا کرتی تھی۔

اُس کی رخصت کے بعد ہم دیر تک اُس کے متعلق گفتگو کرتے رہتے۔ہمارے خیالات ہمیشہ یکساں ہوتے اس لیے کہ وہ،،ہم اور ہمارے گردونواح کی اشیا ہمیشہ وہی ہوتیں۔

اُس انسان کے لیے زندگی ایک عذاب ہے جس کا ماحول غیر متغیر ہو۔ جتنا عرصہ وہ اس ماحول میں بسر کرے گا اسی قدر اس فضا کا سکون اُس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا جائے گا۔

ہم صنفِ نازک کے متعلق ایسے الفاظ میں گفتگو کیا کرتے تھے  کہ بعض اوقات وہ گفتگو ناگوارِ خاطر ہوجایا کرتی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ نہ اخذ کیا جائے کہ ہمارے خیالات عورتوں کے متعلق اس قدر بُرے تھے۔ بلکہ وہ صنف جس کے متعلق ہم اظہار خیال کیا کرتے  عورت کہلانے کی مستحق ہی نہیں۔ مگر ٹینیا کی شان میں ہمارے مُنہ سے کبھی کوئی گستاخانہ کلمہ نہ نکلنے پاتا۔۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ ہمارے پاس بہت کم عرصہ ٹھہرتی تھی۔ وہ آسمان سے ٹوٹے ہوئے ستارے کی طرح روشنی دکھا کر ہماری نظروں سے پھر اوجھل ہوجایا کرتی تھی۔ اور یا اس کی وجہ اُس کا حُسن۔کیونکہ ہر حسین چیز انسان کے دل میں اپنی وقعت اور عزت پیدا کردیتی ہے۔ خواہ وہ انسان غیر تربیت یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔

اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی تھی۔ گوکہ زنداں جیسی مشقت نے ہم سب کو وحشی درندوں سے بدتر بنادیا تھا مگر پھر بھی ہم انسان تھے  اور بنی نوعِ انسان کی طرح ہم بھی بغیر کسی کی پرستش کیے زندہ نہ رہ سکتے تھے۔

ہمارے لیے اس کی ذات سے بڑھ کر دُنیا میں کوئی اور شے نہ تھی۔ اس لیے کہ بیسیوں انسانوں میں سے جو اُس عمارت میں رہتے، ایک صرف وہی تھی جو ہماری پرواہ کیا کرتی تھی۔۔۔سب سے بڑی وجہ یہی تھی۔

ہر روز اس کے لیے بسکٹ مہیا کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے تھے۔یہ ایک نذرانہ ہوتا جو ہم ہر روز اپنے دیوتا کی قربانگاہ پر پیش کیا کرتے تھے۔

آہستہ آہستہ یہ رسم ایک مُقدس فرض ہوگئی۔ جس کے ساتھ ہمارا اور اُس کا رشتہ بھی باہم مضبوط ہوگیا۔ بسکٹوں کے نذرانے کے علاوہ ہم ٹینیا کو نصیحتیں بھی کیا کرتے تھے۔۔۔ یہی کہ وہ اس سردی میں گرم کپڑے استعمال کیا کرے اور سیڑھیوں پر سے احتیاط کے ساتھ اُترا کرے۔ ہماری ان نصیحتوں کو وہ مسکراتی ہوئی سُنا کرتی۔ اور اُن پر کبھی عمل نہ کرتی۔ اُس کا یہ طرزِ عمل ہمیں کبھی ناگوار معلوم ہوتا کیونکہ نصیحتوں کے پس پردہ ہماری صرف یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اس بات سے باخبر ہوجائے کہ ہم اُس کی حفاظت کر رہے ہیں۔

بعض اوقات وہ ہمیں کوئی کام کرنے کے لیے کہتی جسے ہم بعد خوشی نہیں ایک فخر کے ساتھ کرتے، لیکن جب ایک دفعہ ہمارے رفیق نے اُسے اپنی قمیص دے کر پیوند لگانے کو کہا تو اُس نے ناک بُھوں چڑھاتے ہوئے جواب دیا گیا یہی فضول کام رہ گیا ہے میرے لیے!۔۔ مُجھے اور بہت سے کام کرنے ہیں۔

ہم اپنے بیوقوف ساتھی کی اس حرکت پر خوب ہنسے اور پھر اُس سے کبھی کوئی کام کرنے کو نہ کہا۔ ہمیں اُس سے محبت تھی۔ اگر محبت کہا جائے تو سمجھ لیجئے تمام جذبات اسی لفظ میں نہاں ہیں۔

انسان کی ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ وہ کسی کو اپنی محبت کو مرکز بنائے خواہ اُس کا محبوب اُس کے بوجھ تلے پِس ہی کیوں نہ جائے۔ ہم اگر ٹینیا سے محبت کرتے تھے تو بہ مجبوری، اس لیے کہ ہمارے پاس اور کوئی شے موجود نہ تھی جس سے ہم اپنا دل پہلا سکیں۔

کبھی کبھی ہم میں سے کسی شخص کو یہ خیال آتا کہ ہم سب اس لڑکی کے متعلق بے فائدہ سر گردانی کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔ اس چھوکری کی محبت سے آخر ہمیں کیا ملے گا؟“

اُس شخص کی جو ٹینیا کی شان میں ایسے گستاخانہ کلمات کہنے کی جرات کرتا بہت بری حالت کی جاتی۔ہم چاہتے ہیں کہ کسی شے سے محبت کریں اور اب چونکہ ہمیں وہ چیز جسے ہم ڈھونڈتے تھے مل گئی تھی، اس لیے اُلفت کرتے اور وہ چیز جسے ہم چھبیس اشخاص محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے لازم تھا کہ دوسرے اُس کا احترام کریں۔ اس لیے کہ وہ ہماری مقدس عبادت کا مرکز تھی، اور اگر کوئی شخص اس کے خلاف چلتا تو وہ ہمارا دشمن تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ اکثر اُس چیز سے محبت کرتے ہیں جو حقیقت میں محبت کیے جانے کے قابل نہیں ہوتی۔ مگر یہاں ہم چھبیس شخص ایک ہی کشتی میں سوار تھے، اس لیے ہم چاہتے تھے کہ اس چیز کو جسے ہم پیار کرتے ہیں، دوسرے مُقدس خیال کریں۔

بسکٹ کے کارخانے کے علاوہ ہمارا آقا ایک کیک بنانے والی فیکٹری کا مالک بھی تھا جو اسی مکان میں واقع تھی، ہماری قبر نما کوٹھڑی اور اس کے درمیان صِرف ایک دیوار حائل تھی، اس فیکٹری کے ملازم اپنے کام کو ہمارے سے اعلیٰ اور مُصفا خیال کرتے ہوئے ہمیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ہمارے ساتھ بہت کم ملنے کی زحمت گوارا کرتے بلکہ جب کبھی اُنہیں صحن میں ہمارے ساتھ دوچار ہونے کا اتفاق ہوتا تو وہ ہمیں دیکھ کر ہنسا کرتے تھے۔

ہمیں اُن کے کارخانے میں جانے کی اجازت نہ تھی۔ صرف اس لیے کہ ہمارے آقا کو شبہ تھا کہ ہم وہاں سے مکھن کے کیک چرالیں گے۔ ہمیں بھی اُن لوگوں سے نفرت تھی، شک تھا، اس لیے کہ اُن کا کام نسبتہً کم اور مزدوری کہیں زیادہ تھی اُن کے لیے خوردونوش کا سامان ہم سے نہایت اچھا تھا۔ اُن کے کام کرنے کی جگہ روشن اور صاف تھی، اور وہ ہمارے برعکس تندرست اور صاف ستھرے تھے، اُن کے مقابلے میں ہم سب زرد اور نحیف تھے، ہم میں سے تین دائم امراض اور باقی تپ دِق ایسے لرزہ خیز مرض میں مبتلا تھے۔ ایک بے چارہ تونقرس کی وجہ سے قریب قریب اپاہج ہورہا تھا۔

تعطیل کے دِنوں میں وہ خوبصورت لباس نئے روغن کیے ہوئے بُوٹ پہن کر باغ میں چہل قدمی کے لیے جاتے اور ہم چیتھڑے لٹکائے پھٹے ہوئے بوٹ پہنے باغ کی جانب جاتے مگر پولیس ہمیں اندر داخل ہونے کی اجازت نہ دیتی۔ ان حالات کی موجودگی میں یہ کب ممکن ہوسکتا تھا کہ ہم ان کیک بنانے والوں کو محبت کی نظروں سے دیکھتے۔

چند روز ہوئے ہم نے یہ افواہ سُنی کہ منتظم شراب نوشی کی وجہ سے نکال دیا گیا ہے۔ اور اُس کی جگہ ایک اور شخص کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ جو کسی زمانے میں سپاہی تھا۔ اس سپاہی کے متعلق روایت تھی کہ وہ شوخ رنگ کی واسکٹ پہنے ایک بڑی زنجیر لٹکائے صحن میں گھوما کرتا ہے۔ ہم اس نئے منتظم کو دیکھنے کے بہت شائق تھے۔ اور اُس کی ملاقات کی اُمید میں ہم سب نے باری باری صحن میں چکر کاٹے مگر بے سو۔ ایک روز وہ خود ہی ہمارے کار خانے میں چلا آیا۔

بُوٹ کی ٹھوکر سے دروازے کو کھول کر وہ دہلیز پر کھڑا ہوگیا۔ اور مُسکراتے ہوئے کہنے لگا۔”خدا تمہارے ساتھ ہو! میرے بچو آداب عرض ہے“۔

بھٹی کا دھواں سیاہ بادلوں کی طرح چکر لگاتا ہوا دروازے سے گزر رہا تھا۔ جہاں سپاہی عجب پُر رعب انداز میں کھڑا اسی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس نے اپنی مونچھوں کو کمال صفائی سے تاؤ دے رکھا تھا۔ جن کے نیچے سے اُس کے زرد دانت ظاہر ہورہے تھے، وہ آج نیلے رنگ کی ایک بھڑکیلی کا مدار واسکٹ پہنے ہوئے تھا جس پر سُنہرے بٹن جابجا چمک رہے تھے۔ سونے کی وہ زنجیر جس کے متعلق ہم نے سُنا تھا، ببلاشک وشبہ اپنی جگہ پر موجود تھی۔

یہ سپاہی درواز قد، مضبوط اور خوبصورت تھا۔ اس کی بڑی اور روشن آنکھوں میں تندرستی کی جھلک دکھائی دے رہی تھی، ایک کلف شدہ ٹوپی اُس کے سر کی زینت تھی۔ اور اُس کے پاجامے کے پانچوں کے نیچے اُس کا تازہ روغن  کیا ہوا بوٹ چمک رہا تھا۔

ہمارے نانبائی نے اُس کی خدمت میں دروازہ بند کرنے کے لیے مودبانہ التجا کی۔ دروازے کو بند کرنے کے بعد اُس نے ہم سے طرح طرح کے سوالات کرنے شروع کیے۔ ہم نے اُن سوالات کا جواب دیتے ہوئے اُسے بتایا کہ ہمارا آقا خون چوسنے والا پسو، غلاموں کا تاجر، انسانی اجناس فروخت کرنے والا گماشتہ،اور ایذارساں انسان ہے، ہم نے اُن خیالات کا اظہار بھی کیا جو ہمارے دل میں اپنے آقا کے متعلق تھے، مگر اُن کا صفحہ قرطاس پر لانا ناممکن ہے۔

سپاہی اپنے سوالوں کا جواب بڑے غور سے سُنتا رہا۔ مگر یکلخت جسے وہ چونک پڑا ہو۔ پھر یوں گویا ہوا۔ تم لوگوں کے پاس چھوکریاں تو بہت ہوں گی؟“

اس پر ہم میں سے بعض تو ہنس پڑے اور بعض نے افسردہ مُنہ بنالیے۔آخر کار ہم میں سے ایک نے سپاہی پر واضح کردیا کہ ہمارے گردونواح میں چھوکریاں ضرور موجود ہیں۔ کوئی درجن بھر کے قریب!

اس پر سپاہی نے آنکھیں جھپکتے ہوئے پوچھا: کیا اُن سے دل لگی بھی ہوا کرتی ہے؟

ہم ہنس پڑے۔ ہم سے اکثر اس امر کے خواہشمند تھے کہ سپاہی پر واضح کردیا جائے کہ وہ چھوکریاں جن کے متعلق وہ اس قسم کی گفتگو کر رہا ہے۔ بعنیہ اُس کے مانند تیز وطرار ہیں، مگر یہ بات کہنے کی ہم میں سے کسی کو جرات نہ تھی، لیکن ایک نے تو دبی زبان سے کہہ ہی دیا۔

”اس حالت میں جس میں ہم ہیں یہ کیونکر ممکن۔۔۔“

درست ہے، اس حالت میں اس قسم کی تفریح تمہارے لیے ناممکن ہے۔

”اس حالت میں جس میں ہم ہیں یہ کیونکر ممکن۔۔۔۔۔“

درست ہے، اس حالت میں اس قسم کی تفریح تمہارے لیے ناممکن ہے۔دراصل تمہیں اپنی موجودہ حالت میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں، تمہاری قسمت ہی بُری ہے۔۔۔ میرا مطلب سمجھتے ہونا؟۔۔ اور عورتیں تم جانتے ہو اُس مرد کو پسند کرتی ہیں جو وضع دار جوان اور خوبصورت ہو اس کے علاوہ وہ مرد میں طاقت اور قوت کی بھی عزت کرتی ہیں“۔

اس کے ساتھ ہی اُس نے آستین چڑھا کر بازو کو کہنی تک برہنہ کرتے ہوئے کہا۔ ”اس بازو کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟“

بازو مضبوط اور سفید تھا۔ جس پر سنہرے بال چمک رہے تھے۔

پھر اُس نے کہا ”ٹانگیں اور چھاتی بھی ایسی ہی مضبوط ہے۔ گوشت سے بھری ہوئی۔ اب طاقت کے علاوہ مرد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بہترین لباس زیب تن کرے۔ میری طرف دیکھو۔ تمام عورتیں محبت کرتی ہیں۔ حالانکہ میں اُن کے بارے میں کبھی کوشش ہی نہیں کرتا۔۔۔ ایسی درجنوں ہیں“

یہ کہہ کر وہ ایک ٹوکری پر بیٹھ گیا۔ اور ہمیں سُنانا شروع کیا کہ عورتیں اُس کی محبت میں کس طرح گرفتار ہوتی ہیں اور اُن کے ساتھ اُن کا سلوک کس قسم کا ہوتا ہے۔

اُس کے جانے کے بعد ہم عرصہ دراز تک خاموش رہے اور اس عرصے میں اُ س کے افسانہائے عشق کے متعلق دل میں سوچتے رہے۔ اس خاموشی کے بعد دقعتہً ہم گفتگو میں مشغول ہوگئے جس میں اتفاق آرا سے سپاہی خوش خلق قرار دیا گیا۔

سپاہی خوش طبع اور حلیم تھا۔ اُس نے ہم سے اس طرح گفتگو کی گویا وہ ہمیں میں سے ہے۔۔۔ ہمارے پاس آج تک کوئی ایسا شخص نہ آیا تھا جس نے ہمارے ساتھ اس قسم کی دوستانہ گفتگو کی ہو۔

عرصے تک اُس کی اُن تازہ کامیابیوں کے متعلق ذکر کرتے رہے جو اُسے فیکٹری کی لڑکیوں کی محبت جیتنے میں حاصل ہوئی تھیں۔ اُن لڑکیوں کی محبت جو ہماری طرف دیکھ کر نفرت سے مُنہ پھیر لیتیں جیسے اُنہیں ہم سے کوئی غرض ہی نہیں اور جن کو ہم للچائی للچائی نظروں سے دیکھتے  اور وہ صحن میں مختلف قسم کے خوبصورت لباس پہن کر گزر رہی ہوتیں۔

نانبائی نے دفعتہ دیگر آواز میں کہا ”ٹینیا کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے۔ کہیں وہ سپاہی کی گرفت میں نہ آجائے؟“۔

ان الفاظ نے ہم پر بہت اثر کیا، اس لیے ہم خاموش رہے۔

ٹینیا کا خیال ہمارے دماغ سے تقریباً محو ہوچکا تھا۔ یعنی سپاہی کے خوبصورت اور مضبوط جسم نے اُسے ہماری آنکھوں سے کچھ عرصے کے لیے اوجھل کر دیا تھا۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد بحث شروع ہوگئی۔ ہم میں سے بعض کو یقین تھا کہ ٹینیا معمولی سپاہی کی خاطر اپنی عصمت کو ہر گز ہاتھ سے جانے نہ دیگی۔مگر بعض کا خیال تھا کہ وہ سپاہی کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ نہ کرسکے گی۔

ہم میں سے بعض نے رائے دی کہ اگر سپاہی اپنی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرے تو اُس کی پسلیاں کُچل ڈالی جائیں۔ اس بحث کے اختتام پر یہ فیصلہ ہوا کہ ہم سب ٹینیا  کی حفاظت کریں۔ اور اُسے آنے والے خطرے سے آگاہ کریں۔

ایک زمانہ گزر گیا۔

سپاہی حسب ِ معمول اپنے کام میں مشغول رہا۔ اس دوران میں وہ ہمارے کارخانے میں کئی دفعہ آیا۔ مگر چھو کر یوں پر فتح پانے کے قصوں کے متعلق کسی قسم کی گفتگو نہ ہوئی۔

ٹینیا بھی ہر روز صبح کے وقت اپنے بسکٹوں کی خاطر آتی۔ اُس کا رویہ حسب دستور ویسا ہی دوستانہ تھا۔ ہم نے اُس کو سپاہی کے متعلق آگاہ کرنا چاہا۔ مگر اُن پھبتیوں سے جو وہ اُس پر اُڑاتی، ہمیں یقین ہوگیا کہ وہ اُس کے ہتھے نہیں چڑھ سکتی۔

ہمیں اپنی ننھی دوشیزہ ٹینیا ؔ پر ناز ہوتا۔ جب ہم روز سپاہی کے ساتھ کوئی نہ کوئی نئی لڑکی دیکھتے۔ ٹینیا کے اس باوقار رویے نے ہمارے حوصلوں کو اور بھی بڑھا دیا۔ اب ہم اُس کی عصمت کے نگہبان، سپاہی کو حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگے۔ اس کے برعکس ٹینیا کی محبت و عظمت ہمارے دِلوں میں روز بروز بڑھتی گئی۔

ایک روز سپاہی شراب سے مخمور، ہنستا ہوا ہمارے کمرے میں داخل ہوا۔جب ہم نے اُس کے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو اُس نے جواب دیا“ وہ چھو کریاں مجھ پر آپس میں لڑ رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو کس طرح ذلیل۔۔۔ ہاہاہا!۔  ایک دوسری کے بال پکڑ کر زمین پر گر پڑیں۔۔۔ہاہاہا!۔۔ اور دیوانی بلیوں کی طرح نوچنا شروع کردیا۔۔۔ اور میرا ہنسی کے مارے بُرا حال ہورہا تھا۔ مجھے تعجب ہے کہ عورتیں صاف لڑائی کیوں نہیں لڑتیں۔۔۔نوچنے سے فائدہ؟“

وہ بنچ پر بیٹھا نہایت تندرست اور صاف ستھرا نظر آرہا تھا۔ ہم خاموش تھے اس لیے کہ اُس کی آمد ہمیں ناگوار گزر رہی تھی۔

”میں اس مُعمے کو حل کرنے سے قاصر ہوں۔ خُدا جانے عورتیں مجھ  پر فریفتہ کیوں ہیں۔ بس آنکھ جھپکنے کی دیر ہے“۔

یہ کہتے وقت سپاہی اپنے سفید بازوؤں کو ہوا میں حرکت دے رہا تھا۔ اور ہماری طرف دوستانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

ہمارے رفیق نانبائی نے غصے کی وجہ سے آہنی سلاخ کو بھٹی میں تیزی سے حرکت دیتے ہوئے کہا ”ننھے ننھے پودوں کا اکھاڑنا کوئی جوانمردی نہیں، مزا تو جب ہے کہ کسی مضبوط درخت کو گرایا جائے“۔

سپاہی نے دریافت کیا”تم مُجھ سے مخاطب ہوکیا؟“

”ہاں،تمہیں سے مخاطب ہوں!“۔

”اس سے تمہارا مطلب؟“

”کچھ بھی نہیں۔۔۔کچھ بھی نہیں!“

ٹھہرو، ٹھہرو، وہ کونسا مضبوط درخت ہے جس کا تم ذکر کر رہے تھے؟“

نانبائی نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اور بھٹی سے پکے ہوئے  بسکٹ نکالنے میں مشغول رہا۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سپاہی اور اُس کی گفتگو کو بالکل بھول چکا ہے۔ مگر سپاہی بہت بے چین ہوگیا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر بھٹی کے قریب آیا۔ اور بولا“ کہو تو۔ کس عورت کا ذکر کر رہے تھے؟۔۔ تم نے میری ہتک کی ہے، کوئی عورت مجھ پر غالب نہیں آسکتی۔۔۔“

اس کی گفتگو سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ نانبائی کے اس جملے سے سخت ناراض ہوگیا ہے۔ غالباً اُس کو اس بات پر فخر تھا کہ اُس میں عورتوں کو مسخر کرنے کا وصف بدرجہ اُتم موجود ہے، ورنہ درحقیقت سوائے اس وصف کے اُس شخص میں زندگی کے متعلق کوئی چیز بھی موجود نہ تھی۔۔ اسی ایک رہے سہے وصف کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو زندہ انسان کہلانے کا مستحق ہوسکتا تھا۔۔۔دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں جو بیماری کو خواہ وہ رُوحانی ہو یا بدنی زندگی کا ایک پیش قیمت جزو تصور کرتے ہوئے اُس کی تمام عمر پرورش کرتے رہتے ہیں۔ اور اسی میں اپنی زندگی کا راز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسی زندگی عموماً تکلیف دہ ہوا کرتی ہے۔ وہ اس پُراز مصائب زندگی کے متعلق دوسروں سے شکایت ضرور کرتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ اپنے ہم جنسوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراسکیں اور اس طرح وہ انہیں ہمدروانہ نگاہوں سے دیکھیں۔ اگر ایسے افراد سے یہ بے چینی، یہ کرب اور تکلیف چھین لی جائے۔ اُن کے درد کی دوا کردی جائے تو وہ پہلے کی طرح شادماں نہ رہیں گے۔ اس لیے کہ اُن کی زندگی کا آخری سہارا اُن سے علیحدہ کردیا گیا۔ اب وہ کھوکھلے برتن کے مانند ہوں گے۔

بعض اوقات انسان کی زندگی  اس قدر مفلس اور نادار ہوتی ہے کہ وہ بے مقصد کسی معیوب چیز ہی سے محبت کرنے لگ جاتا ہے، اور اُسی کے بھروسے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اکثر لوگ صرف دماغی بیکاری کی وجہ سے گناہ کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔

سپاہی سخت ناراض ہوگیا تھا۔ وہ نانبائی کی طرف اور درشت لہجے میں بولا میں جو بار بار کہہ رہا ہوں کہ بولو۔ کہیں لڑکی کا ذکر کر رہے ہو؟“

نانبائی نے سپاہی کی طرف اچانک مڑتے ہوئے کہا ”کہوں پھر؟“

”ہاں، ہاں“

کیا تم ٹینیا کو جانتے ہو؟

”کیوں؟“

”بس وہی لڑکی ہے۔ اُسے قابو میں لانے کی کوشش کرو“۔

”میں؟“

”ہاں، ہاں تم!“

”یہ تو بالکل معمولی بات ہے“۔

”ہم بھی دیکھیں کیسے؟“

”تو پھر دیکھ لو گے۔۔۔ ہا ہا۔۔۔!

”وہ تمہاری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے گی!“

صرف ایک مہینے کی مہلت چاہتا ہوں“

”شیخ چلی مت بنو، میاں سپاہی!“

”اچھا چودہ روز سہی۔ اس کے بعد تم دیکھ لینا۔ کیا نام لیا تھا؟۔ٹینیا“

”اب جاؤ تم کام میں حارج ہورہے ہو“۔

”بس چودہ روز اور وہ میرے قابو میں ہوگی۔ تمہاری قسمت!“

”میں کہتا ہوں، یہاں سے دُور ہوجاؤ!“

یہ کہہ کر نانبائی وحشیوں کی طرح غضبناک ہوگیا۔ اس حالت کو دیکھ کر سپاہی سخت حیران ہوا اور خاموشی سے یہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا ”اچھا!“

اس بحث کے دوران میں ہم سب خاموش رہے۔ اس لیے کہ ہم اُن کی باہم گفتگو کو بہت غور سے سُن رہے تھے۔ لیکن جونہی سپاہی رخصت ہوا۔ ہمارے درمیان گفتگو کا ایک ہنگامہ سا برپا ہوگیا۔ ہم میں سے ایک نے چلا کر نانبائی سے کہا:۔

مگر نانبائی نے تُندی سے جواب دیا۔ ”کام کیے جاؤ اپنا۔ سُنا ہے یا نہیں؟“

ہمیں دراصل اس امر کی فکر لاحق ہورہی تھی کہ چونکہ سپاہی اپنے الفاط کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے لازم طور پر ٹینیا کی عصمت خطرے میں ہے۔

مگر باوجود اس کے ہم اس بحث کا نتیجہ دیکھنے کے لیے سخت بیقرار تھے۔ اس بحث کا نتیجہ جو کسی حالت میں بھی خوشگوار نہ تھا۔

”کیا ٹینیاؔ سپاہی کے مقابلے کی تاب لاسکے گی“ اس سوال پر ہم سب بیک زباں چِلّا اُٹھے جیسے ہمیں اُس پر پوری طرح بھروسہ ہو ”ننھی ٹینیا ضرور ثابت قدم رہے گی!“

ہمیں اپنے ننھے دیوتا کی ثابت قدمی اور استقلال کا امتحان لینے کی عرصے سے خواہش تھی، لیکن ہم آپس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ ٹینیا اس امتحان میں ضرور سُرخرو ہوگی۔

اس دن  سے ہماری زندگی عجیب قسم کی ہوگئی۔ جس سے ہم بالکل نا آشنا تھے۔آپس میں پہروں بحث کرتے رہتے جیسے ہم پہلے سے زیادہ عقلمند اور ذی فہم بن گے ہیں۔ اور ہماری گفتگو کچھ معنی رکھتی ہے۔ اب ہمیں معلوم ہورہا تھا کہ ہم شیطان کے ساتھ بازی لگا رہے ہیں۔ اور ٹینیا ہماری طرف سے داؤ ہے۔

جب ہم نے کیک بنانے والے نانبائی سے یہ خبر سُنی کہ سپاہی نے ٹینیاؔ کا پیچھا کرنا شروع کردیا ہے تو ہمیں سخت رنج پہنچا اور ہم اُس رنج کو مٹانے کے لیے اس قدر محو تھے کہ ہمیں یہ تک معلوم نہ ہوا کہ آقا نے ہماری بے چینی اور اضطراب کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے  میدے میں تیس سیر کا اضافہ کردیا ہے۔

ا س اضطراب کے دوران میں ٹینیا کا نام ہر وقت ہمارے وردِ زبان ہوتا اور ہم ہر روز صبح کے وقت غیر معمولی بے صبری کے ساتھ اُس کا انتظار کیا کرتے۔

گو وہ ہر روز ہمارے پاس آتی مگر ہم نے سپاہی والی تکرار کا اُس کے ساتھ ذکر تک نہ کیا، اور نہ اُس سے کسی قسم کے سوالات کیے، بلکہ حسبِ معمول جذبہِ اُلفت سے ملتے رہے۔ مگر اب اس جذبہ الفت میں کسی نئی چیز کی جھلک تھی۔۔۔تیز تجسس کی جھلک۔۔۔ فولاد کے پھل کے مانند تیز اور سرو!

نانبائی نے صبح کے وقت اپنا کام شروع کرتے ہوئے کہا ”دوستو، میعاد آج کے روز پوری ہوجائے گی!“

ہمیں اس سے پیشتر ہی اس چیز کا علم تھا۔ مگر پھر بھی یہ سُن کر ہم سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔

نانبائی نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا“۔وہ بھی ابھی  آئے گی اور غور سے دیکھنا اُسے!“

ہم میں سے ایک نے [ر سوز لہجے میں کہا ”جیسے اُس کی آنکھیں کچھ بتا سکیں گی؟“

اس پر بحث چھڑ پڑی۔ آج کے روز ہمیں معلوم ہوجانے والا تھا کہ برتن جس میں ہم سب اپنے دل رکھے ہوئے تھے، کتنا صاف اور بے لوث ہے۔ صرف آج کی صبح ہم کو ایسا معلوم ہونے لگا جیسے ہم کوئی بڑا کھیل کھیل رہے ہوں جس میں ہمیں اپنے معبود کے کھوجانے کا اندیشہ ہو۔

گذشتہ چند دن سے ہم سُن رہے تھے کہ سپاہی حصولِ مقصد کے لیے ٹینیا کے پیچھے سائے کی طرح لگا ہوا ہے۔ ٹینیا ؔ حسب معمول بسکٹوں کے لیے ہر روز آتی مگر ہم اس سے سپاہی کے متعلق کسی قسم کا استفسار نہ کرتے۔ ہم خود متعجب تھے کہ کیوں؟

آج کے روز بھی ہم نے اُس کی آواز سُنی، ننھے قیدیو، میں آگئی ہوں۔۔۔“

اس پر ہم سب آگے بڑھے اور جب وہ اندر آگئی تو ہم خلافِ معمول اُسے خاموشی سے ملے، گو ہماری آنکھیں اُس پر جمی ہوئی تھیں مگر ہمیں معلوم نہ تھا کہ سلسلہ کلام کیونکر شروع کریں۔۔۔۔ ہم خاموشی اور حسرت کی تصویر بنے اُس کے سامنے کھڑے تھے۔

اس انوکھے اور خلاف معمول استقبال کو دیکھ کر وہ سخت حیران ہوگئی۔۔۔۔وفعتہ  اُس کے چہرے کا رنگ زرد پڑگیا۔ بے چین و مضطرب وہ دھیمی آواز میں کہنے لگی۔

”تمہیں آج کیا ہوگیا ہے“۔

نانبائی نے درد انگیز لہجے میں کہا”تم اپنی سناؤ؟“

”اپنی؟۔ کیا مطلب ہے تمہارا؟

”کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں!“

”تو چلو مجھے  بسکٹ دو،ذرا جلدی کرنا!“

اس سے قبل اُس نے آج تک اتنی پُھرتی نہ دکھائی تھی۔

نانبائی نے ٹینیا ؔ سے آنکھیں جُدا نہ کرتے ہوئے کہا”تم جلدی کیوں کر رہی ہو؟“

اس پر وہ دفعتہ مڑی اور دروازے سے باہر بھاگ گئی۔

نانبائی نے اپنی سلاخ پکڑی اور بھٹی کی طرف جاتے ہوئے دبی زبان میں کہنے لگا۔”اس کا مطلب ہے کہ وہ اب اُس کی ہے۔ آہ، یہ سپاہی۔ حرامزادہ۔ بدمعاش۔۔۔“

اس پر ہم بھیڑوں کے گلے کی طرح اپنے شانوں کو ہلاتے ہوئے میز کی طرف بڑھے اور خاموشی سے کام کرنا شروع کردیا۔ ہم میں سے کسی نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا ”لیکن کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے۔۔۔!“

نانبائی چیختے ہوئے جواب دیا۔“ بس بس!!۔ اب بولنے کی کیا ضرورت ہے؟“

ہمیں معلوم تھا کہ نانبائی عقلمند ہے۔۔۔۔ ہم سے کہیں عقلمند اس لیے کہ اُس کے چلانے سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ وہ سپاہی کی فتح اور کامیابی کا اعتراف کر رہا ہے۔ یہ خیال کرتے ہوئے ہم نے اپنے آپ کو اور زیادہ مصیبت زدہ اور بے چین پایا۔

بارہ بجے یعنی دوپہر کے کھانے کے وقت سپاہی آیا، اور حسبِ معمول خوشی و خرم، وہ ہماری نظروں سے نظریں ملا کر دیکھنے لگا۔ اور پُر فخر لہجے میں بولا۔

”معزز دوستو!! اگر چاہتے ہو کہ میں تمہیں اپنی کامیابی کا نمونہ دکھاؤں تو صحن کے ساتھ والے کمرے میں جا کر کھڑکیوں میں سے جھانک کر دیکھو۔۔۔۔سمجھ گئے!“

سپاہی کے کہنے پر ہم صحن کے ملحقہ کمرے میں چلے گئے۔ اور اپنے چہرے کھڑکیوں کے روز نوں کے ساتھ جمادیے۔ہمیں بہت عرصے تک انتظار نہ کرنا پڑا۔کیونکہ جلد ہی ٹینیا تیز قدم اٹھاتی ہوئی صحن کے گڑھوں کے پاس سے جو کیچڑ اور برف سے بھرے ہوئے تھے، گزری۔ اس کے چند منٹ بعد سپاہی نمودار ہوا۔ اُس کا رُخ ٹینیا کی طرف تھا۔ بڑے کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سیٹی بجاتا ہوا، وہ بھی ٹینیا کی طرح ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ اسی اثنا میں بارش برسناشروع ہوگئی اور ہم بارش کے قطروں کو جو گڑھوں میں گر کر عجیب قسم کا شور پیدا کر رہے تھے خاموشی سے دیکھنے لگے۔

بارش کی وجہ سے آج کا دن بہت اُداس اور مرطوب تھا۔ مکان کی چھتوں پر برف کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ اور زمین کیچڑ سے لت پت ہورہی تھی۔ بارش سسکیاں لیتی ہوئی زمین پر گر رہی تھی۔

گو ہمیں اس سردی میں اس طرح کھڑے رہناناگوار گزر رہا تھا۔ مگر چونکہ ہم ٹینیا کی بے وفائی پر سخت برانگیختہ تھے، کہ اُس نے ایک معمولی سپاہی کی خاطر ہم سب کو چھوڑ دیا۔ اس لیے ہم جلادوں کی سی ہولناک خاموشی سے اُس کا انتظار کرنے لگے۔

تھوڑی دیر کے بعد ٹینیا واپس لوٹی۔ اُس کی آنکھیں،ہاں اُس کی آنکھیں کسی نامعلوم مسرت وانبساط سے چمک رہی تھیں، ہونٹ مسکرا رہے تھے اور جُھومتی ہوئی چلی آرہی تھی جیسے خواب میں ہو۔

ہم اس منظر کو خاموشی سے نہ دیکھ سکے۔ دروازے سے نکل کر صحن کی طرف دیوانہ وار بھاگے ہوئے گئے اور اس پر طعن وتشیع کی بوچھاڑ شروع کردی۔ ہمیں اس حالت میں دیکھ کر وہ کانپی اور ٹھہر گئی جیسے وہ کیچڑ میں گڑ گئی ہو۔ ہم سب اُس کے گرد جمع ہوگئے اور بغیر کچھ کہے سُنے جی بھر کے لعن طعن کی اور شرمناک سے شرمناک گالیاں سُنائیں۔

ہم نے ایسا کرتے وقت اپنی آوازوں کو زیادہ بلند نہ ہونے دیا۔ بلکہ اُس موقع سے اچھی طرح فائدہ اُٹھاتے رہے۔ کیونکہ ہمیں یقین تھا  کہ ہمارے درمیان گھری ہوئی وہ کہیں نہیں جاسکتی اور ہم جتنا عرصہ چاہیں اپنا غصہ نکال سکتے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ ہم نے اُسے مار پیٹ نہ کی!

وہ ہمارے درمیان گھری ہوئی، ہماری گالیوں کو خاموشی سے سُن رہی تھی۔ اور ہم گالیوں اور طعنوں کے ذریعے اپنے جلے دل کی آگ اُگل رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اُس کے چہرے کا رنگ اُتر گیا اُس کی نیلگوں آنکھیں جو کچھ عرصے پہلے فرطِ مُسرت سے چمک رہی تھیں اب پھٹی پھٹی معلوم ہونے لگیں۔ اُس کی چھاتی متلاطم تھی اور ہونٹ تھر تھرا رہے تھے۔

ہم اس کے گرد حلقہ بنائے، اپنے انتقام کی آگ بجھا رہے تھے۔ اس لیے کہ اُس نے ہمیں دھوکا دیا تھا،وہ ہماری تھی۔ چنانچہ ہم نے اُس کی خدمت میں اپنے دل پیش کیے۔۔۔۔گو وہ بھکاری کے ٹکڑے سے زیادہ قیمتی نہ تھے مگر اُس نے اُن چھبیس دلوں کو سپاہی کی خاطر ٹھکرادیا۔

ہم اُسے بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور وہ خاموشی سے۔۔۔ اُس جانور کی طرح جسے شکاریوں نے آلیا ہو، پھٹی ہوئی آنکھوں سے، سرتاپا ارتعاش، ہماری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس موقع پر اور لوگ بھی جمع ہوگئے۔ ہم میں سے ایک نے ٹینیا کی آستین پکڑ کر کھینچ لی۔ جس پر اُس کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوگئی۔ اور اپنے سرکو ذرا اوپر اُٹھا کر بالوں کو سنوارتے اور ہماری طرف گھورتے ہوئے دفعتہ بولی ”اونہہ۔ جیل کے ذلیل جانور!“

یہ کہہ کر وہ ہمارے پاس سے بغیر کسی جھجک کے گزر گئی  جیسے ہم اُس کے راستے میں بالکل حائل نہ ہوں۔۔۔اُس کی اس دلیری سے ہمیں اس بات کی جُرات نہ رہی کہ اُسے روک لیں۔

ہمارے پاس سے گزرتے ہوئے وہ حقارت آمیز لہجے میں بولی”کمینے۔ ناپاک انسان!“ یہ کہتے ہوئے وہ ہماری نظروں سے غائب ہوگئی  اور ہم صحن میں کیچڑ اور برف کے تودوں کے درمیان موسلادھار بارش میں سورج سے محروم آسمان تلے کھڑے رہے۔

تھوڑی دیر کے بعد ہم خاموشی سے اپنے سنگین قفس میں چلے آئے۔سورج کی جان بخش شُعاعیں حسب معمول ہم تک کبھی نہ پہونچیں۔ ٹینیا پھر کبھی نہ آئی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے