اس کتاب میں ڈاکٹر مبارک علی صاحب نے یورپ کے عروج کے محرکات، مسیحی مذہب کا یورپی معاشرے میں کردار، age  medieval کا یورپ کیسا تھا۔ اور ریناساں کے بارے تفصیل سے بیان کیاہے۔

یورپ کی ترقی میں ریناساں کا دور بڑی اہمیت کا حامل ہےage  medieval کا دور یورپ میں تاریک دور رہا ہے جس میں فرد کو کوئی آزادی نہیں تھی. وہ سماج چرچ، بادشاہ اور فیوڈل لارڈز کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا. معاشرہ سماجی، مذہبی اور سیاسی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا تخلیقی عمل رک چکا تھا۔ معاشرے میں طبقاتی خبر  اس قدر بڑھ گیا تھا لوگ بھوک اور افلاس سے مرنے لگے تھے۔یورپ معاشی طور پر خستہ حال تھا۔ چرچ نے مذہب کے نام پہ لوگوں کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی.

مسیحیت کے ابتدائی پیروں کار دیہاتوں کے رہنے والے کسان اور غریب لوگ تھے جو  شہر کے خلاف تھے جہاں بادشاہ کا تسلط تھا.  چرچ اور پادریوں نے لوگوں کو ریاست کے ظلم کو صبر سے برداشت کرنا سکھاتاتھا یہی وہ مذہب ہے جو کہتا ہے کہ اگر کوئی تمہاری دائیں گال پہ تھپڑ مارے تو بائیں گال آگے کرنا۔ اس کی عدم تشدد کی فلسفے نے آہستہ آہستہ امرا اور شہری لوگوں کو بھی متاثر کیا اب اس کے پیروکاروں میں امرا اور شہری لوگ بھی شامل ہونے لگے۔آگے جاکر  جب مسیحیت تعداد میں بڑھتی گئی تو  رومی شہنشاہ قسطنطین نے بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر عیسائی مذہب اختیار کیا۔تب چرچ اور امپائر دونوں مل گئے. نے سیاست اور مذہب کو ملا کر اپنی طاقت زیادہ مظبوط کرلی.چرچ کو جب سیاسی سرپرستی اور اختیارات ملے تو اس مذہب میں بھی اندرونی طور پر تبدیلیاں آئیں اور یہ عزائم پیدا ہوئے کہ طاقت کے زریعے پوری انسانیت کو مسیحی بنالے۔ پھر جہاں جہاں چرچ کا تسلط قائم ہوا چرچ اور خانقاہوں کی تعداد بڑھتی گئی ساتھ ساتھ بے ظابطگی اور بد عنوانیاں بھی بڑھتی گئیں۔چرچ لوگوں کو روحانی ضابطہ اخلاق اور دنیاوی عیش و عشرت سے دور رہنے کی تلقین اور آخرت کا درس دینا تھا مگر خود پادری جنسی بے ضابطگی اور کرپشن  میں بدنام ہوگئے۔  چرچ نے اولیا کے تبرکات کو شفا اور قبولیت دعا کے لیے پیش کیا۔ لوگ مزاروں پر صدقہ اور خیرات دیتے جو چرچ کی آمدن کا ایک ذریعہ تھا۔ آگے جاکر  جب تبرکات کی مانگ زیادہ ہوئی تو حکمران اور امرا بھی اس میں شریک ہوئے اور جعلی تبرکات کا باقاعدہ کاروبار شروع ہوا  اور سینٹوں کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ان کی ہڈیاں بطور تبرک فروخت کی جاتیں۔ یہ جنون اس حد تک بڑھ گیا کہ سینٹ رونالڈوس (پادری) فرانس سے اس لیے بھاگا کہ اس کے مرید اس کو قتل کرکے اس کی ہڈیاں بطور تبرک تقسیم کرنا چاہتے تھے.

آہستہ آہستہ چرچ نے پورے یورپ پر اپنا سیاسی تسلط جما لیا.

ایک مرتبہ جب مسیحیت کو سیاسی اور روحانی طاقت مل گئی تو چرچ نے اپنے عقیدے اور اس کی ابتدا کے بارے میں نئی تشریح و تفسیر کی. اس کے نتیجے میں معاشرے کی بو قلمونی کو ختم کیا اور مسیحیت  سے علیحدہ ہر مذہب اور رویہ کو یا تو طاقت کے زور پہ  دبایا گیا یا اس پر کڑی تنقید کی گئی. اس مشن کے تحت چرچ نے پورے یورپ سے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو زبردستی مسیحی بنانا شروع کیا اور جو نہیں مانتے انہیں یا تو قتل کیا، زندہ جلا دیا یا جلا وطن کردیا۔ عورتوں کے ساتھ اس سے بھی خطرناک رویہ اپنایا. چرچ نے معاشرے کو جو نیا ضابط اخلاق دیا اس میں عورت کا سماجی رتبہ گرتا چلا گیا، پادریوں نے عورتوں کے زیب و زینت و آرائش پہ حملہ کردیا عورت کا جسم اور اسکا لباس ان کے وعظوں کا اہم موضوع بن گیا، عورت کو جنسی اعضا کے طور پر حقارت کی نگاہ سے پیش کیا گیا۔ سمجھدار اور چرچ کی بد عنوانیوں کے خلاف بولنے والی عورتوں (آوازوں) کو ڈاین،شیطان کا ساتھی یا پھر گمراہ قرار دیا۔ اس طرح اس (جنسی) ضابطہ اخلاق نے عورت کا سماجی رتبہ گھٹا دیا.

کنفیشن confession  کے عمل کے ذریعے چرچ نے افراد کی نجی زندگی میں مداخلت کرنا شروع کیا تھا اور ہر عیسائی کے لیے  یہ ضروری ٹھہرا کہ کم از کم سال میں ایک مرتبہ اپنے علاقے کے پادری سے اپنی گناہوں کا اعتراف confess  کرے. اس اعترافات کے نتیجے میں پادری نے افراد کے  ان معاملات میں بھی دخل دینا شروع کیا جو بہت زیادہ نجی تھے. چرچ سیاسی طور پر  اتنا مظبوط ہواتھا کہ بادشاہ کی  تاج  پوشی کی رسم بھی چرچ میں ہوتا تھا۔

چرچ نے اپنے مذہبی اور سیاسی تسلط کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے انکویزشن  کا محکمہ بنایا تاکہ منحرفین جو چرچ اور ریاست کے لیے خطرہ ہوں انہیں سزا دی جائے،جن میں اذیت دینا، جلا وطن کرنا جائداد ضبط کرنا، زندہ جلانا اور موت کی سزا شامل تھی. انکیوزیشن ادارے کا کام یہ تھا کہ ریاست اور چرچ کی بد عنوانیوں اور غلط پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبائے اور آگاہی کو روکے۔

جب جرمنی میں پرنٹنگ پریس مشین ایجاد ہوا "یہ ایجاد دنیا کی تاریخ میں ایک انقلاب تھا”تب کتابیں زیادہ چھپنے لگیں لوگ زیادہ پڑھنے لگے۔ اور بائبل کا بھی مقامی زبانوں میں ترجمہ ہونے لگا۔ اب لوگوں کو بائبل سمجھنے کے لیے چرچ کے کسی پادری کا محتاج نہیں بنانا پڑتااور اس طرح یورپ میں ترسیل علم تیز ہوگیا۔ چرچ کے خلاف جب آوازے اٹھنے لگی تو 1530 میں انکوزیشن نے اپنے دائرہ عمل میں دانشوروں اور تعلیمی درسگاہوں کو بھی لے لیا. یونیورسٹی کی تعلیم، نصاب کی کتابیں اور پروفیسروں کے خیالات کی نگرانی ہونے لگی۔ یونیورسٹی میں لکچر ہال کے برابر والے کمرے میں انکوزیشن کا عہدیدار پروفیسر کا لکچر سنتا تھا تاکہ پروفیسر ایسے خیالات کا اظہار نہ کرے جو کہ چرچ کی تعلیمات کے خلاف ہوں. پرتگال کے طالبعلموں کو تعلیم کے لئے دوسرے ملکوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی، کوپرنیکس، گلیلیو، نیوٹن اور کئی دوسری  ریسرچرز کی کتابیں ممنوع تھیں۔کتابوں کی اشاعت سے پہلے چرچ کے عہدیدار اس کی چھان بین کرتے، چرچ کی اجازت کے بغیر کوئی کتاب, مجلہ یا تحریر نہیں چھپ سکتی تھی اور جو کتابیں چرچ کی پہنچ سے خفیہ طور پر دوسرے شہروں میں چھپتیں جہاں انکا اثر نہیں تھا تو ان  کتابوں کا انڈکس چھپتا اور اس کا مقصد یہ بتایا جاتا کہ ایمان والے مسیحیوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے اُسے نہیں پڑھنا چاہیے.

چرچ اور ریاست کے اس قدر گھٹن زدہ ماحول میں لوگوں کا سانس لینا مشکل ہوگیا تھا۔ لوگ تنگ آ چکے تھے ان پابندیوں سے اور لوگ معاشی طور بہت ہی خستہ حال ہوچکے تھے۔ فرانس کے ایک گاؤں میں دو بہنوں کا ذکر ہے کہ نوکری اور ذریعہ معاش کے لیے انہوں نے ہر دروازے کو کھٹکھٹایا جدھر سے کام کی امید تھی سب کے پاس گئیں مگر انکو کوئی کام نہیں ملا اور آخر میں تنگ  آکر اپنے ہی گھر میں (گھر میں صرف ایک ہی کمرہ تھا) دونوں نے اپنے باپ کی موجودگی میں (انکا باپ گھونگا بہرا تھا) جسم کا کاروبار شروع کیا۔

یہ سب  وہ محرکات تھیں جس نے ریناساں کو جنم دیا۔  چرچ اور ریاست کی بربریت کے خلاف آوازیں تیز ہونے لگیں،اصلاحی اور ہیومنسٹ تحریکیں شروع ہوئیں اور آہستہ آہستہ روشن خیالی، سیکولر خیالات، اور فرد کی آزادی کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں اور بغاوت کی یہ تیز و طرار آواز  پورے یورپ میں گونجنے لگی اور فرانس میں انقلاب کے بعد یورپ کے دوسرے ریاستوں نے دباؤ میں آکر ہیومنسٹ تحریکوں اور اصلاحات کو تسلیم کیا اور اس طرح لوگوں کو چرچ اور بادشاہ کے ظلم و  ستم سے  آزادی ملی۔۔بادشاہ، اور چرچ کا تسلط ختم،فرد کی آزادی بحال ہوئی۔اب لوگوں کا رحجان معیشت پر ہوا۔اس کے لیے انہوں نے مختلف راستہ ڈھونڈنا شروع کیا۔

یورپ کا عروج ایک ایسی کتاب ہے جس کو میرے خیال میں عہد حاظر کے ہر نوجوان کو پڑھنا چاہیے۔ اس کتاب میں سمجھنے اور سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے اور ہمارے بہت سے سوالوں کے جواب بھی اس میں موجود ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے