ایڈیٹر صاحب
اسلام علیکم۔ امید ہے کہ گوئٹہ کے ٹھنڈے ٹھنڈے موسم میں آ پ لحاف اوڑھےْ بیٹھے ہونگے۔ ہم کراچی والے تو کوئٹہ کا نام سْنتے ہی ٹھٹھرنے لگتے ہیں۔
آپ کا رسالہ سنگت بہت عرصے بعد ملا۔ بہت اچھا لگا۔ ہر بار میری ناقص معلومات میں کچھ بہتر اضافہ کر دیتا ہے۔
بیچ میں نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔ میرے خیال میں کوئی پڑھا لکھا پوسٹ مین ہو گا جو گھر لے جا کر اطمینان سے پڑھتا ہو گا۔یہ میرا تجربہ ہے کہ بلوچستان کے لوگ ذہین اور پڑھنے کے شوقین ہوتے ہیں اور حاضر جواب بھی۔ سبط حسن کی سب سے زیادہ کتابیں بلوچستان میں ہی بکتی رہیں۔ایک بار میں کوئٹہ سے واپس آ رہی تھی ائرپورٹ پر میں نے ایک ہینڈ بیگ ڈالا سامان میں جس میں تالا نہیں تھا۔ پورٹر نے توجہ دلائی تو میں نے کہا۔
” ہاں جانے دو پہنے ہوئے کپڑے ہیں کون نکالے گا۰ جواب نے مجھے حیران کر دیا۔
” میڈم سماجی انصاف نہ ہو تو یہ بھی ہو سکتا ہے۔
اچھا تم پڑھے لکھے لگتے ہو۔
” میڈم پڑھا لکھا تھوڑا بہت ہوں سبط حسن کی ایک دو کتابیں پڑھی ہیں مگر یہ ہمارا رات دن کا تجربہ ہے”۔
میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور نہ ہی یہ اْس کے ساتھ (بلکہ اصلی بلوچستان) کے ساتھ یہ چھوٹا سا انٹرایکشن بھول پائی۔
معلوم نہیں وہ پورٹر کہاں ہو گا۔ ابھی تک سامان ڈھو رہا ہے یا گردشِ دوراں سے تنگ آ کر پہاڑوں پر چلا گیا ہو۔ بہر حال اپنا ایک انمٹ نقش چھوڑ گیا جو مجھے ہمیشہ بلوچستان کے مسائل اور محرومیوں کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
انیس ہارون۔کراچی