مزدوروں اور غریب کسانوں پر مشتمل تنظیم کی تشکیل

 

اب ہم یہ جان چکے ہیں کہ سوشل ڈیموکریٹس کیا چاہتے ہیں۔ وہ عوام کو غربت سے نجات دلوانے کے لیے تمام امیر طبقہ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ شہروں کی نسبت دیہاتوں میں غربت کچھ کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ہے۔ ہم یہاں اس کا تذکرہ کرنے سے اجتناب کریں گے، مزدور(جو دیہات میں رہے ہوں) اور کسان احتیاج، بھوک اور دیہاتوں کی ابتری اور بدحالی سے بخوبی واقف ہیں۔

لیکن کسان اپنی بدحالی،بھوک اور محرومی کی وجہ نہیں جانتا۔ اسے یہ بھی علم نہیں کہ ان سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے؟۔اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ شہروں اور دیہاتوں میں غربت اور احتیاج کی کیا وجوہ ہیں؟۔اس موضوع پر ہم مختصر روشنی ڈال چکے اور اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ غریب کسانوں اور دیہی مزدوروں کو شہر کے مزدوروں کے ساتھ متحد ہوجانا چاہیے۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا کہ دیہاتوں میں کس قسم کے لوگ امیروں اور صاحب ِجائیداد افراد کا ساتھ دیں گے۔ اور کون لوگ مزدوروں اور سوشل ڈیموکریٹس کی حمایت اور پیروی کریں گے۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ان کسانوں کی تعداد کتنی ہے  جو کم و بیش جاگیرداروں کی طرح سرمایہ حاصل کرنے کے قابل ہیں اور جو دوسروں کی محنت پر زندہ ہیں؟۔جب تک ہم اس مسئلہ کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں غربت کے متعلق جتنا بھی کہا جائے وہ بے سود ہوگا۔ اور دیہات کے غریب یہ نہ جان پائیں گے کہ دیہات میں کن عناصر کو اپنے درمیان اور شہری مزدوروں کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے۔ یا اسے ایک قابلِ اعتماد تنظیم بنانے کے لیے کیا اقدام کرنا چاہیے تاکہ جاگیرداروں کے علاوہ امیر کسان کو غریب کسان کی آنکھ میں دھول ڈالنے سے روکا جاسکے؟۔

اس بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ  دیہاتوں میں جاگیردار اور امیر کسان کتنے مضبوط ہیں؟۔

پہلے جاگیرداروں کو لیجئے۔ ہم پہلی ہی نظر میں اراضی کے رقبے سے جواُن کی نجی جائیداد ہے، جاگیرداروں کی طاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یورپی روس میں اراضیات کے کل رقبے کا تخمینہ جس میں کسانوں کو الاٹ کی ہوئی اراضی اور نجی ملکیت کی زمین شامل ہے۔ تقریباً 240,000,000  Dessiatinesلگایا گیا ہے۔ (ریاست کی اراضیات اس میں شامل نہیں۔ جس کے متعلق ہم جداگانہ تذکرہ کریں گے)۔اس 240,000,000  Dessiatinesمیں سے الاٹ کی ہوئی اراضیات کا 131,000,000  Dessiatinesکسانوں کے پاس یعنی دو کروڑ خاندانوں کی ملکیت جبکہ 100,000,000  Dessiatines اراضی کی نجی ملکیت کے حقوق دس لاکھ خاندانوں کے پاس ہیں۔ اگر ہم اس کا اوسط نکالیں تو ہر کسان خاندان کے حصے میں تیرہ Dessiatinesاور نجی مالکوں کے ہرخاندان کے حصے میں Dessiatines 218 آئیں گے جیسا کہ ابھی ہم دیکھیں گے زمین کی تقسیم کا عمل انتہائی غیر مساویانہ ہے۔

Dessiatines 109,000,000 میں سے جو نجی مالکوں کی اراضی ہے۔ ستر لاکھ Dessiatines شاہی خاندان کی اراضی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ شاہی خاندان کے اراکین کی نجی جائیداد ہے۔ روس میں بادشاہ اور اس کا کنبہ سب سے پہلا جاگیردار اور سب سے بڑا زمیندار ہے۔ علاوہ ازیں گر جاگھروں اور خانقاہوں کے تصرف میں ساٹھ لاکھ Dessiatines اراضی ہے۔ ہمارے دیس کے راہب، کسانوں کو تو کفایت شعاری،پرہیز گاری اور نفس کشی کا درس دیتے ہیں۔ مگر خود انہوں نے جائز اور ناجائز طریقوں سے اراضی کا ایک بہت ہی بڑا رقبہ ہتھیا لیا ہے۔

تقریباً بیس لاکھ Dessiatines اراضی شہروں اور دیہاتوں کی ملکیت اور اسی رقبہ کے مساوی اراضی پر مختلف تجارتی اور صنعتی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کا قبضہ ہے۔ نو کروڑ بیس لاکھ  Dessiatines اراضی (صحیح اعداد و شمار 91,605,845ہیں۔ مگر آسانی کے لیے ہم تخمینی اعداد شمار ہی بیان کریں گے پانچ لاکھ سے بھی کم 481358نجی جائیدادوں کے مالک خاندانوں کے تصرف میں ہے۔ ان میں سے نصف کنبے تو بالکل چھوٹے مالکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کے پاس دس Dessiatines سے بھی کم اور بحیثیت مجموعی ان کے پاس دس لاکھ Dessiatines سے بھی کم اراضی ہے۔ دوسری طرف سولہ ہزار کنبوں میں سے ہر ایک کے پاس ایک ہزار Dessiatines سے بھی زائد اراضی ہے۔ اور زمین کا کل رقبہ جو اُن کے قبضہ میں ہے، چھ کروڑ پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

زمین کے وسیع وعریض قطعات کا بڑے بڑے جاگیرداروں کے دستِ تصرف میں ہونا اس حقیقت کی جانب بھی رہنمائی کرتا ہے کہ ایک ہزار سے بھی کم خاندانوں (924) میں سے ہر ایک کے پاس دس ہزار Dessiatines اراضی ہے۔ اور وہ بحیثیت مجموعی 2کروڑ80لاکھ Dessiatinesاراضی کے مالک ہیں۔ ایک ہزار کنبوں کے پاس اتنی زمین ہے جتنی بیس لاکھ کسان کنبوں کے پاس ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ لاکھوں کروڑوں انسان غربت اور بھوک کا شکار رہیں گے۔ اور اس وقت تک غربت اور فاقہ کشی کی چکی تلے پستے رہیں گے جب تک اراضی کے یہ وسیع و عریض قطعات امیر طبقہ میں سے چند ہزار افراد کے پاس ہوں گے۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ ریاست کے حکام، حکومت (حتیٰ کہ زار بادشاہ کی حکومت بھی) ان بڑے بڑے جاگیرداروں کے اشارے پر ناچتی رہے گی۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک دیہاتوں کے غریب متحد نہیں ہوگے۔ اور جب تک جاگیردار طبقہ کے خلاف وہ اپنے آپ کو ایک طبقہ کی لڑی میں منسلک کر کے ثابت قدمی اور شجاعانہ جدوجہد کا آغاز نہیں کریں گے انہیں کسی فریاد کسی حلقے سے بھی امداد ملنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

اس موقعہ پر ہمیں اس امر کا مشاہدہ کرنا چاہیے کہ اس ملک میں بہت سے لوگ (جن میں تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں) جاگیردار طبقہ کی قوت کے بارے میں مکمل طور پر غلط اندازِ خیال کے حامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ریاست کے تصرف میں (جاگیرداروں کی نسبت) اراضی کا کافی رقبہ موجود ہے۔ کسانوں کے یہ بڑے مشیر کہتے ہیں ”روس کی سرزمین (یعنی تمام اراضی) کا ایک بڑا حصہ ریاست کی ملکیت ہے“۔ ان لوگوں نے سن رکھا ہے کہ یورپین روس میں ریاست 15کروڑDessiatines  اراضی کی مالک ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے لیکن یہ لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ 15کروڑ Dessiatines  اراضی دور دراز شمال اور آرچینگل، والو گڈ اارلونیکس یا لکا اور پرم کے صوبوں میں قریباً مکمل طور پر ناقابل کاشت اور جنگلات پر مشتمل ہے۔ اس طرح ریاست نے اپنے پاس صرف  وہ اراضی رکھی ہے جو کاشت کے لیے مکمل طور پر غیر موزوں ہے۔ ریاست کے تصرف میں قابلِ کاشت زمین چالیس لاکھ Dessiatines  سے بھی کم ہے۔ یہ قابل کاشت ریاستی اراضی امیروں کو انتہائی کم کرائے پر جو نہ ہونے کے برابر ہے، اجارے پر دی جاتی ہے۔ امیر ان اراضیات کے ہزاروں اور لاکھوں Dessiatines  اجارے پر حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر غیر معمولی کرایوں کے عوض کسانوں کو تحتی اجاروں پر دے دیتے ہیں۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ریاست کے تصرف میں اراضی کا بہت بڑا رقبہ ہے، وہ  کسانوں کے بہت بڑے مشیر ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بڑے بڑے جاگیردار (زار روس بذات خود ان جاگیرداروں میں شامل ہے) اچھی ارضیات کے بہت بڑے رقبے پر قابض ہیں۔ اور ریاست بذاتِ خود ان بڑے جاگیرداروں کی مٹھی میں ہے۔ جب تک دیہات کے غریب متحد ہونے میں ناکام رہیں گے۔ اور جب تک وہ متحد ہو کر ایک ناقابل تسخیر قوت نہ بن جائیں گے ریاست ہمیشہ جاگیردار طبقہ کی وفا شعار نوکرانی بنی رہے گی۔ ایک اور بات کو بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ صرف اشرافیہ طبقہ کے افراد ہی جاگیردار ہوتے تھے۔ اشرافیہ کے پاس اب بھی اراضی کا وسیع رقبہ ہے۔1877-78میں اشرافیہ کے ایک لاکھ پندرہ ہزار افراد کے پاس سات کروڑ30لاکھ Dessiatines  اراضی تھی لیکن آج کل روپیہ اور سرمایہ فیصلہ کن طاقت بن چکا ہے۔ تاجروں اور امیر کسانوں نے اراضی کابہت بڑا رقبہ خرید لیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تیس سال کے دوران (1863سے1894 تک) اشرافیہ سے متعلق افراد ساٹھ کروڑ روبل کی مالیت کی اراضی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ (یعنی جتنی اراضی انہوں نے خریدی تھی، اس سے زیادہ فروخت کردی) اور اس طرح تاجروں اور اعزازی شہریوں نے 25کروڑ روبل مالیت کی اراضی حاصل کر لی ہے۔ کسانوں۔ تا تاریوں اور ”دیہات کے دوسرے باشندوں“ نے (جیسا کہ ہماری حکومت دیہاتوں کو اشرافیہ اور امراء کے طبقہ سے الگ کرنے کے لیے یہ الفاظ استعمال کرتی ہے) تیس کروڑ روبل کی مالکیت کی اراضی حاصل کر لی ہے۔ اس طرح ہر سال تمام روس میں کسان اوسطاً ایک کروڑ روبل کی اراضی نجی جائیداد کی حیثیت سے حاصل کر لیتے ہیں۔

اسی طرح کسانوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ کچھ کسان تو غربت اور فاقہ کشی کے عالم میں زندگی گزارتے ہیں۔ اور کچھ امیر بن جاتے ہیں۔ امیر کسانوں کی تعداد بتدریج بڑھتی جارہی ہے۔ ان کا جھکاؤ جاگیرداروں کی جانب ہے۔ اور محنت کشوں کے مقابلے میں وہ امیروں کا ساتھ دیں گے۔ دیہات کے غریبوں کو جو شہری مزدوروں کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتے ہیں۔ اس مسئلہ کے ہر پہلو پر غور وخوض کر کے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس قسم کے امیر کسانوں کی تعداد کتنی ہے۔ وہ کتنے طاقتور ہیں۔ اور اس قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں کس قسم کی تنظیم کی ضرورت ہے۔ کچھ ہی دیر قبل ہم کسانوں کے بدطینت مشیروں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ یہ بدطینت مشیر  یہ کہتے وقت بڑی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کسانوں کی ایسی تنظیم پہلے ہی سے موجود ہے۔ یہ تنظیم میر،یاد یہی کمیون ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میر (Mir) یاد یہی کمیون ایک بڑی قوت ہے۔ میر کسانوں کو اٹوٹ طریقے سے متحد کرتی ہے۔ میر کے تحت کسانوں کی تنظیم (ایسوسی ایشن اتحاد) شاندار اور دیوپیکر ہے (یعنی بے انتہا اور بے پایاں)

یہ بات غلط ہے او ایک بے بنیاد کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ کہانی رحمدل لوگوں کی ایجاد ہے لیکن اس کہانی پر بالکل دھیان نہ دینا چاہیے۔ اگر ہم کہانیاں سننا شروع کردیں گے تو ہم اپنے نصب العین(دیہات کے غریبوں اور شہری مزدوروں کو متحد کرنے کے نصب العین) کو تباہ کردیں گے۔ دیہات کے ہر باشندے کو اپنے گردونواح کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ کیا میر کے تحت اتحاد۔۔۔ کیا دیہی کمیون کسی طرح بھی غریبوں کی اس تنظیم کے مشابہ ہے؟ جو تمام امیروں یا ان تمام لوگوں کے خلاف جو دوسروں کی محنت کا استحصال کرتے ہیں اعلان جنگ کرتی ہے؟۔نہیں ایسا نہیں۔ اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ ہر گاؤں اور ہر کمیون میں بہت سے کھیت مزدور بہت سے غریب کسان ہیں۔ وہاں آپ کو امیر کسان بھی ملیں گے جو کھیت مزدور کو ملازم رکھتے ہیں۔ اور ہمیشہ زمین خریدتے رہتے ہیں۔ یہ امیر کسان بھی کمیون کے رکن ہیں۔ اور  یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی قوت کے باعث کمیون میں سرداری کے اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن کیا ہمیں ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جس سے امیر منسلک ہوں۔ اور جس کی سرداری اور راہنمائی کی باگ ڈور امیر کے ہاتھ میں ہو؟ بلاشبہ ہم ایسا نہیں چاہتے۔ ہم ایک ایسی تنظیم چاہتے ہیں جو امیروں کے خلاف جنگ کا اعلان کردے۔ اسی لیے میر کے تلے اتحاد ہمارے لیے کسی طرح بھی مفید نہیں۔

ہمیں ایک ایسی رضاکارانہ تنظیم کی ضرورت ہے جو صرف ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جنہیں اس امر کا احساس ہوگیا ہو کہ انہیں ہر حال میں شہری مزدوروں کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے۔

دیہی کمیون ایک رضا کارانہ تنظیم نہیں بلکہ ریاست کی جانب سے مسلط کی گئی ہے۔ یہ دیہی کمیون ان لوگوں پر مشتمل ہے جو امیروں کے لیے کام کرتے ہیں۔سرکاری دیہی کمیون میں ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ اس لیے نہیں کہ انہیں اس میں شامل ہونے کی خواہش ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین نے اسی زمین پر زندگی گزاری اور اسی جاگیردار کے لیے کام کیا اور پھر سرکاری حکام نے انہیں اس کمیون کے رکن کی حیثیت سے رجسٹر کیا۔ غریب کسانوں کو نہ تو سرکاری کمیون کی رکنیت ترک کرنے کی اجازت ہے۔ اور نہ ہی وہ کسی ایسے شخص کو کمیون میں شمولیت کی اجازت دے سکتے ہیں جسے پولیس نے کسی اور دیہی پنچائت میں بحیثیت رکن رجسٹر کیا ہو۔ اور جس کی ہمیں کسی خاص دیہات میں اپنی تنظیم کے لیے ضرورت ہو۔ ہمیں بالکل مختلف قسم کی تنظیم کی ضرورت ہے۔ایک ایسی تنظیم کی، جس کی رضاکارانہ بنیادوں پر تشکیل ہو۔ اور جس میں صرف مزدور اور غریب کسان شامل ہوں جو ان تمام عناصر کے خلاف لڑسکیں جو دوسروں کی محنت کا استحصال کرتے ہیں۔

وہ دن بیت گئے جب دیہی پنچائت (Mir) ایک قوت کبھی جاتی تھی اور اب وہ دن پھر کبھی نہ آئیں گے۔ دیہی پنچایت(Mir) ان دنوں ایک قوت سمجھی جاتی تھی جب کہ کسانوں میں کوئی کھیت مزدور نہ تھا۔ جب روس کے طول و عرض میں مزدور کام کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرتے تھے۔ جب امیر کسان نہیں ابھرا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب سب مساوی طور پر جاگریداروں کی چکی تلے پس رہے تھے۔ لیکن اب روپیہ اہم ترین قوت بن چکا ہے۔ ایک ہی کمیون کے اراکین اب روپیہ کے لیے آپس میں جنگلی جانوروں کی طرح لڑیں گے۔ امیر کسان بعض اوقات اپنے کسان ساتھیوں پر جاگیرداروں سے بھی زیادہ ظلم و تشدد کرتے اور انہیں کنگال بناتے ہیں۔ آج ہمیں دیہی پنچائت کے اتحاد کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں دولت کی طاقت اور سرمایہ کی حکمرانی کے خلاف تنظیم کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جس میں مختلف کمیونوں کے تمام دیہی مزدور اور غریب کسان شامل ہوں۔ ہمیں ایک ایسی تنظیم چاہیے جس میں دیہات کے تمام غریب شہری مزدوروں کے ساتھ اتحاد کرسکیں اور پھر جاگیردار اور امیر کسان دونوں کے خلاف لڑسکیں۔

ہمیں اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ جاگیردار کتنے مضبوط ہیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ امیر کسانوں کی تعداد کتنی ہے۔ اور وہ کتنے مضبوط ہیں؟۔

ہم جاگیرداروں کی قوت کا اندازہ ان کی جاگیروں کی وسعت اور اراضیات کے رقبے سے لگاتے ہیں۔ جاگیرداروں کو اپنی اراضی فروخت کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ وہ زمین خریدنے اور بیچنے میں آزاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مملوکہ اراضی کے رقبے سے ان کی قوت کا صحیح اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم کسانوں کو ابھی تک اپنی زمین فروخت کرنے کا حق حاصل نہیں۔ وہ اب تک اپنے دیہی کمیونوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کی زندگی نیم زرعی غلاموں جیسی ہے۔ اس لیے امیر کسانوں کی طاقت کا اندازہ ان کی مقبوضہ الاٹ شدہ اراضی کے رقبے سے نہیں لگایا جاسکتا۔ امیر کسان الاٹ شدہ اراضی کے بل بوتے پر امیر نہیں بنتے بلکہ وہ زمین کا نمایاں رقبہ خرید لیتے ہیں۔ زمین کی خرید کی دو قسمیں ہیں۔ وہ اراضی دائمی قبضہ کے لیے (نجی ملکیت بنانے کے لیے) یا مقررہ مدت کے لیے (اجارے پر) خرید لیتے ہیں۔ دونوں قسم کی اراضیات وہ جاگیرداروں اور اپنے کسان ساتھیوں سے خریدتے ہیں۔ ان کسانوں سے جواراضی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ یا احتیاج کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمینیں اجارے پر دے دیتے ہیں۔ اس لیے زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ امیر، درمیانہ اور غریب کسانوں کو ان کے مملوکہ گھوڑوں کی تعداد کے مطابق تقسیم کیا جائے۔ جس کسان کے پاس زیادہ گھوڑے ہوں گے وہ ہمیشہ تقریباً ایک امیر کسان تصور ہوگا۔ اگر اس کے پاس بار برداری کے لیے زیادہ مویشی ہوں گے۔ تو اس سے یہی ظاہر ہوگا کہ وہ زمین کے ایک بڑے رقبے پر کاشت کرتا ہے۔ کمیون کی جانب سے الاٹ شدہ زمین کے علاوہ اس کے پاس نجی زمین بھی ہے اور اس نے روپیہ بچایا ہے۔ مزید برآں ہم تمام روس میں (یورپی روس۔ سائبیریا اور کاکیشیا کو چھوڑ کر) زیادہ گھوڑوں کے مالک کسانوں کی تعداد کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ پورے روس کے متعلق ہم اوسطاً اعداد و شمار  پیش کرسکتے ہیں۔ مختلف علاقے اور صوبے نمایاں درجے تک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مثلاً شہروں کے آس پاس ہمیں ایسے امیر کسان ملیں گے جن کے پاس کاشت کے لیے کم گھوڑے ہیں۔ ان میں سے کچھ منڈیوں کے لیے سبزیاں اور پھل مہیا کرتے ہیں جو ایک منفعت بخش کاروبار ہے۔ کچھ ایسے بھی امیر کسان ہیں جن کے پاس گھوڑے تو کم ہیں مگر گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اور وہ دودھ فروخت کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔

روس میں ایسے کسان بھی ملیں گے جو زمین کی پیداوار سے روپیہ حاصل نہیں کرتے۔ بلکہ وہ تجارت کی وساطت سے روپیہ پیدا کرتے ہیں۔ وہ دودھ سے مکھن نکالنے کے لیے ڈیری فارم اور۔۔ اناج چھڑنے کی مشینیں یا دیگر کاروبار چلاتے ہیں۔ جو لوگ دیہات میں رہتے ہیں اپنے گاؤں یا ضلع کے امیر کسانوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پورے روس میں ان کی تعداد کتنی ہے۔ اور وہ کتنے طاقتور ہیں۔ تاکہ غریب کسان پہلے کی طرح نہ تو قیاس و گمان کی دنیا میں رہیں اور نہ ہی آنکھوں پر پٹی باندھے بھٹکتے پھریں بلکہ اپنے دوستوں اور دشمنوں کو واضح طور پر پہچانیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے