”کلچر شیطانیت کی موت ہے“
کتاب کا نام: ہڑپہ سے شناسائی
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 112
قیمت: 300روپے
مبصر: عابدہ رحمان
اس دن میں بہت خوش تھا۔میرے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔مجھے کچھ مانوس خوشبو آ رہی تھی۔ آلو بخارے کی کچی کلیوں کی مہک، دشت و ڈھاڈر کے پہاڑ کے دامن میں اْگے زرد و سرخ ٹیولپس کے رنگ، چنبیلی کی مدہوش کرنے والی خوشبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔دادا کی سرزمین کے پہاڑوں کی خاموشی میرے اندر بول رہی تھی۔میں بے چین ہو ا جا رہا تھا۔میں جو اتنے عرصے سے کھنڈرات کی صورت سویا ہوا تھا، آج جاگ اٹھا۔ سمجھ نہیں آئی کہ میری نیند کیوں ٹوٹ گئی۔اچانک ہواؤں نے سرگوشی کی کہ ” ہڑپہ یار! کچھ سنا تم نے؟تمھارے دادا ’مہرگڑھ‘ کی سرزمین کا باسی بلوچ ساہیوال آ رہا ہے“۔ سننا کیا تھا،میں تو ہواؤں کے سنگ اس کا ماتھا چوم آیا۔اور جب ہی اس کے ماتھے کی شکن نے بتایا کہ پنجابیوں کے دیس میں مصنوعی دکھاوا کرتے معاشرے کی عمارتوں اور بورڈ نے یہ باور کرانے کی پوری کوشش کی کہ شاید یہاں پنجابی کبھی رہا توکیا اس کا کبھی یہاں سے گزر بھی نہیں ہوا۔اس نے زیر لب کسی کیپٹل ازم کے دیو کی بات بھی کی کہ فیوڈل لباس میں اس کی جڑیں کس قدر گہری ہیں۔پتہ نہیں کیا تھا، میں نہیں جانتا۔ میرے سونے سے پہلے کے زمانے میں تو یہ نام کبھی نہیں سنا تھا۔ٹھیک سوچ رہا تھا میرا بلوچ بچہ کہ پنجاب کے بزرگ کی گفت گو تو نوائے وقت، غزنوی، ہندو مسلم اور نسیم حجازی سے آگے اور کیا ہوگی۔
سن رہا تھا کہ وہ کسی بڑے پروگرام کے لیے آیا تھا۔ جس میں اس نے اپنے آبا و اجداد مہرگڑھ، موہن جو دڑو اور میرا یعنی ہڑپہ کا ذکر کرنا تھا۔ اس کے سنگت اسے اپنی رہائش گاہ کی طرف لے گئے اور میں اگلے دن کی سوچ لیے اپنی مٹی میں آملا۔
اگلے دن اٹھ کر میں نے خود کو جھاڑ کر بلوچ بیٹے کے درشن کرنے پہنچا۔ میں اس بڑے ہال کے ایک کونے میں خاموشی سے جا بیٹھا۔اس کی آواز گونجی کہ، انگریزاپنا الو سیدھا کرنے کے لیے یہ غلطی کر بیٹھے کہ ہم شتر بان اقوام کا تعلق ایک سے زیادہ زبانوں اور ثقافتوں سے کروا دیا۔ میں مسکرا اٹھا۔ کہنے لگا ٹیلی گراف اور ڈاک خانے کے ذریعے ہمیں آپس میں ملا دیا۔اور تب تو میں نے زور زور سے تالیاں پیٹیں جب اس نے کہا کہ ”ایران کا شہر سوختہ، قندھار کا مندی کک، ترکستان کا ٹیپ یحی، عراق کا میسوپوٹیمیا، سندھ کا موہن جو دڑواور پنجاب کا ہڑپہ سب مہر گڑھ کے پوتے پوتیاں ہیں۔ ہم ریڑھیوں میں بٹھا کر باہر سے نہیں لائے گئے“۔تالیاں بجانے سے محبتوں کی مہک سارے ہال میں پھیل گئی اور میرا منہ پنجگور و آواران کی کھجور کا تصور میٹھا کر گئی۔وہ کچھ انوکھی باتیں کر رہا تھا۔ میں تو پنجاب میں پڑا ہوا ہوں،میں نے پہلی بار سنا کہ اندرونِ پنجاب زبان اور ثقافت کی نہیں بل کہ زبانوں اور ثقافتوں کی بات ہو رہی تھی اور میں گواہ ہوں کہ انسانوں نے،اور پھر بلوچستانیوں نے تشدد کی کال کوٹھڑیوں اور جیلوں میں قربانیاں دیں۔مست کی دعاؤں کی امان میں رہو شان گل جب تم نے کہا کہ،”جس دن ہمارے کلچرل آسمان پر عورتوں کی فعال اور تخلیقی موجودگی ختم یا کم ہوگی سمجھو ہماری موت واقع ہوگی۔ محنت کش عورت کی پاک اور تخلیقی انگلیوں کی برکت سے کشیدہ کاری اور قالین بافی میں ہمارا ملک سرِفہرست ہے۔اس کو کھونا بے وقوفی ہے بلکہ ان عورتوں کو مشینی سہولتیں دینا ہوں گی۔ حالاتِ کار بہتر اور پراڈکٹس کی مارکٹنگ کرنا ضروری ہے“ میں ’ہڑپہ‘ تمھارا بزرگ تمھاری اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ میرے دامن میں بھی عورت کی بنائی ہوئی ٹوکریاں، برتن اور دوسری اشیا بکھری پڑی ہیں جو میرے اْس وقت کی یاد دلاتے ہیں کہ عورت اس وقت تخلیقی کاموں میں حصہ دار تھی تو اب تو تمھارے ہر قدم کی ساتھی ہے۔ میرے کان پھر سے اپنا نام سن کر کھڑے ہو گئے۔ وہ سنگتوں کے ہم راہ میری جانب جانے کا قصد لیے چلا تو میں اس سے پہلے اس کے استقبال میں اپنی پلکیں بچھانے اپنے مقام پر آپہنچا۔میں ان سب کی سرگوشیاں سنتا رہا کہ”ساہیوال اور اوکاڑہ چاکر رند کی وجہ سے مشہور ضرور ہے لیکن یہاں زیادہ تر لاشار یوں کی آبادی ہے، پنجابی مادری زبان و ثقافت والے لاشاریوں کی“۔
خوشی کے آنسو میری آنکھوں سے نکل کر میرے گالوں سے ہوتے ہوئے میری مٹی میں جذب ہوتے چلے گئے۔ میرا بلوچ بیٹا، میرے وارث پنجابیوں کو ان کی تاریخ احمد خان کھرل کی صورت، ہڑپہ یعنی میرے ماضی کے بیان کی صورت سنا رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ’ہڑپہ کا زمانہ نیم خانہ بدوش زمانہ تھا جہاں ابتدائی زراعت کی نشانیاں، ہڈیوں سے بنے اوزار ملے ہیں۔‘ہاں شاہ محمد! ایسا ہی ہے۔ یہ سب میرے دامن میں موجود ہیں، تم سب دیکھ سکتے ہو۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ میرے عروج کے دنوں میں سوتی کپڑے کا استعمال تھا اور عورتوں کے بنائے ہوئے نقش و نگار والے برتن بھی ہیں۔ لیکن کیا کہوں کہ یہاں تو سب مایوپیا کا شکار ہیں … دْور دیکھنا ان کے بس کی بات نہیں۔
میرا بلوچ بیٹا میری طرف آتے ہوئے بولا، ”میں اس علاقے میں اس وقت آیا جب بڑھاپے کے جاسوس مجھے گرفتار کر چکے۔ جب اس بدبخت نے میری مونچھوں اور دانتوں کے خلاف جنگ جیتنا شروع کر دی۔ جب آنکھ دْور دیکھنے سے معذور ہوئی، جب ہاتھ گھوڑی کی خوب صورت باگ تھامتے ہوئے لرزاں ہیں، جب ران گھوڑی کو ایڑ لگاتے ہوئے لڑکھڑاتی ہے اور جب حسینائیں ماما کہہ کر پکارتی ہیں“۔ میں مسکرا اٹھا اور بے آواز زبان میں بولا، سمو کے دیس کے باسی ابھی تو ”میں“ بوڑھا نہیں ہوا تن کر چل رہا ہوں، تم کہاں سے بوڑھے ہو گئے۔ میرا زمانہ مجھ میں جوان ہے۔ دیکھو تم کہاں سے چل کر میرے پاس آئے ہو۔ تمھارے الفاظ، تمھارے جذبے جوان ہیں۔ تم جوان ہو۔
میرا خیال تھا کہ میں ہی صرف حیران تھا لیکن بلوچ سنگت جو دادا مہر گڑھ کی فضاؤں سے آیا تھا، میری حیرت کا ساتھی بن گیا:”پنجابیوں کی خاصیت ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ہیرو بنایا۔ وہ احمد خان کھرل شہید کو بھی بھلا بیٹھے ہیں بل کہ اکثر تو اس کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں گے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بہاء الدین زکریا کے جانشین نے انگریز کے کہنے پر مریدوں کے ساتھ انگریز فوج سے بغاوت کرنے والے مقامی سپاہیوں پر حملہ کر دیا،تماشا دیکھو کہ کسی نے پنجابیوں کے نصاب و تاریخ سے انگریز سام راج دشمنی کا باب نکلوا دیا۔انگریز کو مالیہ دینے سے انکار کیا تو اس نے لوگوں کو مار پیٹ کر جیل بھیجا۔ جھامرہ کو آگ لگا دی۔جھامرہ پر حملہ کرنے نے باقاعدہ لڑائی کی شکل اختیار کی تھی اور کہیں کم تعداد میں کہیں زیادہ انگریزوں کی موت کا سبب بنے۔کشت و خون کی ہولی کھیلی گئی۔ کئی شہید ہوئے تو کئی انگریز ایجنٹ مردار۔آخر دشمن پیچھے ہٹنے لگے اور احمد خان کھرل نے اپنے ساتھیوں سمیت اوکاڑہ چک نمبر بیس میں اپنے لشکر کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے پڑاؤ کیا۔لیکن ضمیر فروشوں کی اطلاع پر دوبارہ حملہ ہوا جس میں انگریزوں کو ریکارڈ جانی نقصان ہوا۔ وہ پیچھے ہٹتے گئے لیکن فوج کے کچھ حصے نے جنگل میں چھپ کر نماز کی حالت میں احمد خان کھرل کو دس محرم کو شہید کر کے کربلا کی یاد تازہ کر دی۔خوف زدہ انگریز نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔“
تم ٹھیک کہتے ہو بلوچ بیٹے کہ ”بد قسمت ہے وہ زبان جس میں سام راج دشمنی کو اساطیری کردار بنانے کی سکت و اہلیت نہ ہو“۔ حد ہے کہ پنجاب کے اکھڑے ہوئے لوگوں کا حال دیکھو کہ یہاں کا مڈل کلاس طبقہ اپنے پیر اپنی سر زمین پر ٹکنے ہی نہیں دیتا۔
احمد خان کھرل کی شہادت کے آنسوؤں اور اس پر فخر کرنے کی خوشی کے ساتھ مہرگڑھ کا بلوچ مڑا تو میرا دل اس کے ساتھ تھا۔ شان گل نے تاریخ کے وہ اوراق پلٹے جسے خود پنجاب کے بیٹے بھی کبھی کھول کر دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔
بعد میں سنا کہ وہ اوکاڑہ اپنی وفاؤں کا ثبوت دینے رانا محمد اظہر سے بھی ملا جو ایک ایک زبردست آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متحرک سیاسی انسان ہے،جس نے اوکاڑہ ملٹری فارم کو کسانوں سے چھیننے کی شدید مخالفت کر کے زبردست تحریک چلانے والوں کا ساتھ دیا اور جو کہتا تھا کہ پاکستان کا جنم سوشلزم کو روکنے کے لیے ایک فیوڈل رکاوٹ کے طور پر ہوا۔
مہرگڑھ کا سپوت ساہیوال میں اپنے آبا و اجداد کی یاد تازہ کر کے اور مجھے تازہ دم کر کے اپنی فضاؤں کو پلٹ گیا۔
تو جیتا رہے شان گل۔