ایک تپش اک لْو کا عالم

لیکن مجھ میں

ہْو کاعالم

 

اپنا بکسہ لے کر

چوک کے بڑے ہجوم میں

گھوم رہا ہوں

بھوکا پیاسا

جھوم رہا ہوں

 

کوئی مجھ کو

دیکھ رہا نہ پوچھ رہا ہے

اور نہ مجھ کو سْوجھ رہا ہے

میری جانب دیکھنے والا

کوئی نہیں۔۔۔۔!

میرا دکھڑاسننے والا

کوئی نہیں

 

ایک ہجوم ہے چاروں جانب

ایک مسلسل دوڑ لگی ہے

سب کو اک جلدی سی پڑی ہے

 

کس کو روکوں،کس سے پوچھو

کسے بتاؤں

ایک ذراسا میری جانب دیکھتے جاؤ

اپنے جوتے بھی سلوا لو

اور نہیں پالش کروالو

 

 

 

اس سے میری بھوک مٹے گی

کچھ بچوں کا راشن لوں گا

صاحب تم کو دعائیں دوں گا

 

تیرے دل میں نرمی بہت ہے

میرے تھڑے پر گرمی بہت ہے

ذراسنو تو ذرارکو تو۔۔۔!۔

 

موچی بابا کی باتوں کو

سننے والا کوئی نہیں تھا

جوتوں کا غم

چننے والا کوئی نہیں تھا

 

حق حقوق کی باتیں کرتے

نعرے لگاتے،لوگ رواں تھے

 

"مزدورں کا حق ہم لیں گے”

 

"مجبوروں کا حق ہم لیں گے”

 

"سامراج کے بندے ہو تم”

"چین سے ہم رہنے نہیں دیں گے“

” بوسیدہ دیوار گراو”

"مزدور ایک ہوجاؤ“

 

موچی بابا بھوک اور پیاس کی شدت لے کر

ان کی جانب دیکھ رہا تھا

سوچ رہا تھا،

جانے یہ کیا بول رہے ہیں

کون سا دن ہے!!!۔

کس کا دن ہے!!!۔

کیسادن ہے!!!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے