بلوچ قوم میں شاعر کو بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بجار جو کہ ایک بڑی ہستی گزرا ہے شاعری کی میدان میں۔

رحم علی بجار کا فرزند تھا جو عظیم شاعر مانا اور جانا جاتا ہے۔ رحم علی مری قبیلے کاقبائلی شاعر تھا اور قوم پرستی کی وجہ سے اسے  بلوچوں کا قومی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

رحم علی مری قبیلے کے ذیلی شاخ شاہیجہ سے تعلق رکھتا تھا۔وہ گرسنی میں رہتا تھا۔

روایت ہے کہ رحم علی مری 8 یا 9 برس کی عمر میں یتیم ہوا،اپنے چاچا کے ہاں پرورش پائی۔

ایک دفعہ سردیوں کے موسم میں مست تؤکلی  گھومتے ہوئے رحم علی کے چاچا کے گھر آیا، مست تو دیوانہ تھا وہ پوری رات جاگ کے گزارتا تھا رات کو وہ آگ جلا کے بیٹھا تھا آدھی رات کو مست نے دیکھا ایک چھوٹا بچہ اس کے پاس بیٹھا ہوا ہے جس کے کپڑے پھٹے پرانے ہیں اور وہ لاغر سا سانولی رنگ کا ہے۔ مست نے کہا بیٹا جاو سو جاؤ تمہارا والد تمہیں یاد کر رہا ہوگا بچے نے کہا میرا والد نہیں ہے۔وہ وفات پا چکا ہے، مست نے پھر کہا جاو تمہاری ماں تمہیں یاد کر رہی ہوگی اس بچے(رحم علی) نے کہا میری ماں بھی وفات پاچکی ہے۔

مست یہ سن کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس بچے کو دعا دی کہ تمہارے ماں باپ نہیں ہیں آج سے تم لوگوں کے ماں باپ ہو میری دعا تیرے ساتھ ہے۔

وہی بچہ بڑا ہو کر رحم علی شاعر کے نام سے مشہور ہوا۔ رحم علی نہ صرف عاشق معشوق کی شاعری کرتا تھا بلکہ وہ معاشرتی حالات پر بھی شاعر کرتا تھا۔

رحم علی جاگیردارانہ نظام کے خلاف کہتے ہیں کہ:

 

نیم کٹانی سرئیں نیم ٹلی نیم شفاں

نیم دفی زمبے نہ غیندی، نیم داری نوکراں

نیم گو ں شاذی مراذاں، نیم ناری نیم شفاں

 

رحم علی کہتا ہے کہ:

جی مئی کریم ئے کردیگار

تہ خلق کوثاں اے مہر و معیار

آزمان اے دیر پاندیں ڈیغار

اے کوڑی ترا روشاں چیار

اللہ ایشاں پا پڑدائی گزار

 

رحم علی کی اکثر شاعری اُس وقت کی جنگوں کے بارے میں ہوتی تھی۔ وہ انگریزوں کے خلاف تھا۔

روایت ہے کہ ایک دفعہ انگریز حکومت نے فوج میں بھرتی کے لئے سرداروں سے ان کے قبائل کے لوگ طلب کیے تو اس وقت مری سردار خیر بخش اول تھا اور اس نے انگریز فوج میں اپنی قبیلے کے لوگ بھرتی نا کرنے کا فیصلہ کیا۔کیونکہ وہ انگریزوں کے خلاف تھا۔ یہ سن کر رحم علی خوش ہوا اور اس نے اپنی شاعری میں یوں کہا کہ:

ہزار شاباشیں خیر بخشا سخی صوب و لکھ بشکاں

مزن نام و غریب پالا بزرگی بھیم و اقبالاں

قرآن وانغیں والا

جہاں صحیں تئی حالاں

نہ خثئی کافرءَ ٹھالا

گوشتئی چوں پہ ایمانی

نذوں مڑداں پہ چندائی            ھذاں والی ئے مڑدانی

 

شاعر رحم علی مری نے اپنی شاعری میں جہاں بہادروں کی تعریف کی ایسی طرح بزدلوں کو بھی برا بھلا کہا۔  اس کی شاعری میں بہادورں کی تعریف، اورعاشقی والی شاعری شامل ہے۔ شاعر  رحم علی اپنے قبیلے کے لوگوں سے ناراض ہوکر موسی خیل کوچ کر گیا۔ چار برس وہاں گزارے اور پھر بیماری کی وجہ سے  انتقال کر گیا۔

اس کی قبر موسی خیل میں کہاں ہے؟  یہ تاحال معلوم نہ ہوسکا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے