ایک پتھر،ایک دریا اور ایک درخت

وصل سے نسلوں کے میزبان ہیں

ان پہ نشان ہیں قرون ّاولیٰ کے

اْن متروک ڈائناسارز کا بھی

جو اپنے مختصر دورانئیہ وجود کے

عبرت ناک آثار چھوڑ گئے تھے

ارض پر نشانِ اپنی عجلت آمیز فنا کا

باعثِ خبردار کرنے کو چھوڑ گئے تھے

اب کہ وہ نشان گمْ چکے ہیں

کئی قرنوں کے دھندلکے میں

مگر آج وہ پتھر ہمیں دیکھ کے

باآوازِ بْلند،زار و قطار روتا ہے

 

آؤ اورمیری پْشت پہ کھڑے ہو کر

خود سے دور اپنی ہی منزل کو دیکھو

مگر میرے سائے میں پناہ نہ تلاش کرنا

میں یہاں تمھیں چْھپنے کی جگہ نہ دوں گا

تمھیں، جسے فرشتوں سے ذرا سا ادنیٰ بنایا گیا

بْہت دیر سے زخم خوردہ تاریک راہ میں بہکتے رہے ہو

بہت دیر سے اوندھے مْنہ جہالت میں پڑے رہے ہو

آہنِ زباں سے ایک دوسرے کا قتل کرتے رہے ہو

وہ پتھر آج زار و قطار روئے جاتا ہے

کہ آ و  اور میرے اوپر کھڑے ہوجاو

لیکن میری آڑ لے کراپنا مْنہ نہ چْھپاو

 

ایسے ہی دْنیا کی دیوار کے پہلو میں

ایک دریا بہہ رہا ہے

جو ایک خوبصورت گیت گْائے جاتا ہے

آؤ میرے کنارے پہ آرام کرو

تم میں سے ہر ایک آئے

جو سرحدوں میں بٹے ہوئے ہو

ان  پْرشکن لکیروں پہ تعجب سے فخر کرتے ہو

اور ان کی بندشوں سے اکْتائے ہوئے بھی ہو

کہ ان کے بچاو کیلئے مْسلح جنگ و جدال نے

میرے کناروں پرکچرے اور میرے سینے پر

ناکارہ مواد کا اک ڈھیر سا لگا دیا ہے

میں آج بھی تمھیں اپنی طرف بْلاتا ہوں

لیکن میری ایک شرط ہے

کہ تمھیں جنگ چھوڑنا ہوگی

آؤ، امن کی طرف اور میرے نغمے سنو

جو مالک نے ْمجھے تب سے عطا کئے ہیں

جب میں، وہ پتھر اور وہ درخت ایک تھے

جب تمھاری یہ جبیں،اس منحوس مادے کی

مصنوع مْحبت میں گرفتار نہ ہوئی تھی

اور جب تمھیں سمجھ تھی

کہ تْم کچھ نہیں سمجھے!

 

دریا گاتا ہے اور گائے جاتا ہے

کہو! ایشین، ہسپانوی، یہودی سے

افریکی، ریڈ انڈین اور ساؤکس سے

عیسائی،مْسلم، فرانسیسی و یونانی سے

کہو !  آئرئش، ربی اور  پادری سے

شیخ،ہم جنس پرست اور واعظ سے

امراء، بے گھر اور اْستاد سے

یہ سْنتے ہیں، یہ سب سنْتے ہیں

کہ درخت کیا کہتا ہے

آج، ہر درخت پہلی اور آخری بار

پوری نوع ِ آدمیت سے یہ کہتا ہے

آؤ،

میری طرف آؤ،

دریا کے کنارے

خود کو کاشت کرو

میرے ہمراہ،

دریا کے کنارے

تم میں سے ہر ایک

اپنے آباء کا وارث ہے

جو تم سے پہلے یہاں

مْسافر کی صورت گْزر چکا ہے

تم ہی تو تھے جس نے

مْجھے میرا پہلا نام دیا

تم پاونی، اپاچی، سینیکا

اور قومِ چیروکی،

تم تو میرے ساتھ رہتے تھے

اْن متلاشیوں کے حوالے کر کے مْجھے

جو اپنے مفاد کے لئے مرے جاتے تھے

سونے کی تلاش میں پھرے جاتے تھے

تمھارے قدموں کو خون سے رنگ کر

یہاں سے بزور قوت کوچ کرایا گیا تھا

 

تم، ہاں تم!

سویڈ، تْرک، جرمن اور سکاٹ

ہاں تم، آشانتی، یروبا  اور کرْو

چھینے، بیچے اور چْرائے گئے

اْن درناک خوابوں کو لے کر

ایک معجزے کی دعْا کرتے ہوئے

آو، اپنی جڑیں یہاں کاشت کرو

 

میں وہ درخت ہوں

کہ جسے دریا نے اْٹھایا ہے

جسے یہاں سے ہلایا نہیں جاسکتا

میں وہ پتھر، میں وہ دریا

اور میں ہی وہ درخت ہوں

میں ہی تمْھارا رستہ ہوں،

جس کا زادِراہ دیا جاچْکا ہے

اپنے چہرے اْٹھاؤ اور دیکھو

اس طلوع ہوتے آفتاب کی

روشنی کی تمھیں ضرورت ہے

تاریخ کو اپنے چْبھتے درد کے ساتھ

کبھی بْھلایا تو نہیں جاسکتا

لیکن ْاس کا ہمت سے سامنا کرو

تو اْسے دوبارہ جینے کی ضرورت ہی نہیں

اپنی آنکھیں اْٹھاؤ اور دیکھو

اپنے لئے اْٹھتے دن کو

خواب کو دوبارہ جنم دو

عورتو،بچو اور آدمیو

اسے اپنی ہتھیلی پہ اْٹھاو

اسے اپنی سب سے ذاتی ضرورت میں ہی ڈھالو

اسے اپنے سب سے عیاں چہرے میں کھول دو

اپنے دل کو اْٹھاو

ہر گْزرتی گھڑی اک نیا موقعہ ہے

نئی شروعات کرنے کا

ہمیشہ کے لئے جْڑے نہ رہنا

اْس خوف سے جو تمھاری گھٹی میں

حیوانیت سے ملایا گیا ہے

کہ اْفق ہمیشہ آگے کو جھْکتی ہے

تمھیں موقعہ دینے کے لئے

کہ تم تبدیلی کے نئے قدم رکھو

یہاں، اس نئی صْبح کے قلب میں

تم ہمت کرو

سر اْٹھا کر مْجھے دیکھنے کی

اس پتھر، درخت، دریا اور اپنے وطن کو

جو ہاتھ لگا ہوا سونا ہے کسی فقیر کے لئے

جو قرون اولیٰ ہے آج دن کے مْقابلے میں

آج اس نئی صْبح کے قلب میں

تم اتنی ہمت کرو اور سر اْٹھا کر

اپنی بہن کی آنکھوں،اپنے ہمْ وطنوں

اور اپنے برادر کے چہرے کو دیکھ کر

کہو بہت شائستگی

اور بہت امید سے

صْبح بخیر ہو!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے